اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر25
اڈہ شہباز خاں میں نوگز کی قبر ہے ، راویوں کا بیان ہے بڑے پہنچے ہوئے بزرگ تھے وہ بھی چپ چاپ پڑے ہیں۔ وہ ٹکٹائیوں کی گلی میں حضرت قاسم شاہ کی خانقاہ ہے ان کی تربت بھی صبح قیامت کے انتظار میں چپ ہے ۔یہ ہفتہ دو ہفتہ میں محرم آرہا ہے ، دسوں دن کاروبار بند رہتا ہے سب حسینؑ کی نیاز دیتی ، علم نکالتی اور مختلف ٹکڑیوں میں عزاداری کی مجلس رچاتی ہیں۔ ایک ایک کی زبان پر اہل بیت کے نام ہوتے ہیں۔ یہ چھاتی پیٹتی ہیں ، ذاکروں کی ہچکی بندھتی ہے اور لوگ روتے ہیں ، کوئی مسلمان شارع عام پر انہیں پاک بیبیوں کے نام لینے سے نہیں روکتا۔ لیکن کسی مسلمان کی بہو بیٹی کا نام بازار میں لو تو وہ مرنے مارنے کو تیار ہوجاتا ہے ، آپ کس کس زخم پر پھا ہارکھیں گے۔ تمام بدن میں ناسور ہیں۔
’’ شریف خدا لگتی کہنا ، ان عورتوں کے متعلق کیا خیال ہے۔‘‘
’’ یہ آج کل کے ’’ شرفا ‘‘ سے اچھی ہیں۔‘‘
’’ وہ کیوں؟‘‘
’’ اس لئے کہ جیسی بھی ہیں ظاہر ہیں لیکن ’’ شرفا‘‘ کی آبرو تو کتابوں کی اوٹ میں جسمانی عیاشی ڈھونڈھتی پھرتی ہے ، بابوجی ‘‘ ۔۔۔ شریف کی آواز میں قدرے گونج پیدا ہوگئی۔۔۔ ’’ قدرت کبھی اپنا انتقام نہیں چھوڑتی ، انہی لوگوں کی بیٹیاں کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوتی ہیں جو دوسروں کی آبرو پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ خدا کے ہاں دیر ہے ، اندھیر نہیں ، اس کے لاٹھی بے آواز ہے ۔‘‘
’’ یہ ٹھیک ہے لیکن ان بازاروں کے متعلق تمہارا صحیح خیال کیا ہے۔‘‘
’’ میرا خیال کیا ہوگا ظاہر ہے کہ انہیں عورتیں کہنا انسانیت کی توہین ہے صحیح عورت تو ڈولی میں نکلتی اور کفن میں جاتی ہے وہ ماں کی کوکھ سے قبر کی گود تک ایک ستر ہوتی ہے۔
****
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر24پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حمزی نے سعیدہ کے مکان پر ایک عمر گذار دی ہے۔ اس وقت اس کی عمر پچپن اور ساٹھ کے درمیان ہے ، سعیدہ کی ماں کے عہد میں اُس نے اس کے گھر میں قدم رکھا تھا اور اب بیٹی کا زمانہ بھی گذار رہا ہے ، قدلمبا ہے ، داڑھی صفا چٹ ، مونچھیں خطِ استوار کو جاتی ہیں ، رنگ کا کریزی ہے ، دانتوں میں کھڑکیاں ہیں چہرہ سیاسی مائل ہے۔
اس بازار میں ایک بھی طبلچی اس کا ہم عمر نہیں جو کچھ کمایا اس سے ایک دو مکان خرید لئے ہیں ، خود شرفا کے محلے میں رہتا ہے۔ غالباً دو بچے ہیں اور دونوں پڑھتے ہیں ، ایک کالج میں ہے ، ایک اسکول میں ، اس کو طبلے کی جوڑی سے وہی عشق ہے جو ایک شہسوار کو گھوڑی سے ہوتا ہے یا ایک سپاہی کو تلوار سے یا کسی فسوں کار کو قلم سے۔ وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتا اس کا کہنا ہے۔ اب طبلچی تو اُٹھ گئے ہیں ان کی جگہ ’’ مشلچی‘‘ آگئے ہیں اور مشلچی اُس کی اصطلاح میں حراف کے لئے ہے ۔ وہ ایک فنی طبلچی کو آرٹسٹ سمجھتا ہے، جہاں مغنی کی آواز لڑکھڑاتی ہے وہاں طبلچی سہارا دیتا ہے، اس کے نزدیک طبلے کی آواز نہ صرف گویوں کے عیب کی پردہ پوش ہے بلکہ ان کی لے کو سہہ آتشہ کرتی ہے وہ طبلے کو موسیقی کے ایک اہم ساز سے تعبیر کرتا ہے ، اس کے نزدیک ہندوستانی یا پاکستانی سنگیت طبلہ کے بغیر معریٰ ہے۔ اُس کو فخر ہے کہ طبلہ مسلمانوں کی ایجاد ہے ، امیر خسرو ستار کے موجد تھے ، ابن سینا نے شہنائی ایجاد کی۔ ابو نصر فارابی ’’ قانون‘‘ کے مخترع تھے ، ان کے لئے سیف اللہ ولہ فرمانروائے شام نے اپنے دربارِ خاص میں ارباب نشاط کی بلوایا، ہر کسی نے اپنے اپنے کمال کا اظہار کیا لیکن ابو نصر نے سب کو ان کی غلطیوں پر ٹوکا نتیجہ‘‘ بڑے بڑے فن کار مہربلب ہوگئے۔
سیف الدولہ نے ابو نصر سے پوچھا ۔ ’’ آپ بھی اس فن کو جانتے ہیں؟‘‘
’’ جی ہاں جانتا ہوں۔‘‘
سیف الدولہ نے اصرار کیا کچھ سناؤ۔ ابو نصر نے ایک تھیلی سے لکڑی کے چند ٹکڑے نکالے۔ انہیں ایک خاص ترتیب و ترکیب سے جوڑا، اُن پر تار کھبیخے اور انہیں بجا بجا کر ایک ایسی دُھن میں گانا شروع کیا کہ جو سنتا مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوجاتا۔ ابو نصر نے اس ساز کو کھول کے نئی ترکیب سے جوڑا اور سُرملا کے گانا شروع کیا، اب لوگ زارو قطار رو رہے تھے۔ پھر ساز کو کھول ڈالا ایک نئے ڈھنگ سے جوڑا اور بجانا شروع کیا۔ اب سامعین پر غنودگی کا عالم تھی۔ سیف الدولہ سمیت سبھی سوگئے ، ابونصر نے ساز کھولا ہتھیلی میں رکھا اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔!
’’ اب وہ کمال نہیں رہے ، لیکن اُن کی گھر فن باقی ہے یار لوگ اُسے بھی چاٹ رہے ہیں۔‘‘
’’ کچھ گنے چُنے لوگ تو ہوں گے۔‘‘
’’ جی ہاں اس بھرے سنسار میں کوئی سافن مرتا تو نہیں مگر گھٹتا ضرورہے کبھی تالی پیٹنا بھی ایک فن تھا۔ اب طبلہ بجانا بھی فن نہیں ، ڈونڈی نہ پیٹی طبلہ پیٹ لیا ، وہ دیکھئے سامنے بیٹھک میں اکہرے بدن کا چھو کرا طبلہ پیٹ رہا ہے کہ نقارہ پر چوب دے رہا ہے، کبھی بائیاں ہمیں اُستاد سمجھتی تھیں اب ان چھوکروں کی وجہ سے مذاق اُراتی ہیں۔‘‘
’’القصہ جیسی روح ، ویسے فرشتے ، نہ انہیں بجانا آتا ہے نہ وہ گانا جانتی ہیں ، فن کے چل چلاؤ کا زمانہ ہے اُدھر قدردان اُٹھتے جا رہے ہیں اِدھر فن مِٹتا جا رہا ہے ، اب طبلہ نہیں بجتا ، بندر گھگھیاتا ہے۔
’’آپ لوگ تنخواہ پاتے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں جو کمائی گانے میں ہوتی ہے اس کا نصف بائی جی لیتی ہیں اور نصف سازندے ۔۔۔ طبلچی سارنگیا اور ہارمونیم ماسٹر۔‘‘
’’روزانہ آمدنی کیا ہوگی؟‘‘
’’ یہ تو گاہکوں پر منحصر ہے جیسا چہرہ ویسے گاہک ، جیسی آواز ویسی آمدنی وہ پہلے سے حالات تورہے نہیں۔ زنامہ ہی تہی دست ہورہا ہے ، کبھی سازندوں میں سے فی آدمی پانچ چھ سو روپیہ ماہوار کما لیتا تھا اور آج بھی دواڑھائی سومل ہی جاتا ہے لیکن اس کا انحصار مختلف گھروں کی ساکھ اور شہرت پر ہے۔ بعض اُلو کی دم فاختہ ہیں ، اُن کے سازندے بھی بچھیا کے باوا ہیں ، اکثر فاقوں مربی ہیں اُن کے کواڑ کئی کئی دن لگاتار کھلے رہتے ہیں، بعض دُو دھیل گائے ہیں اور ان کی لائیں بھی سہہ لی جاتی ہیں جہاں تک میراثیوں کا تعلق ہے، ان میں کانوں کا سچا کوئی کوئی ہے، یا تو پھکڑ ہیں یا حاضر جواب ، یا طناز، یاضلع جگت میں مشاق ! ان میں چٹکی لینے کا ہنر نسلاً بعد نسل چلاآتا ہے، اور منہ آئی بات بے کھٹکے کہہ ڈالتے ہیں بعض گپ مارنے میں آندھی ہیں ، ریڈیو کا سوال تو یہ درزی کی سوئی ہیں کبھی گاڑھے کبھی کمخواب میں!‘‘
’’ اور جو لوگ یہاں آتے ہیں؟‘‘
’’ ظاہر ہے کہ ان ٹہنیوں پر بھانت بھانت کے پر ند چہچہاتے اور اُڑجاتے ہیں ۔ آنکھوں نے ہزاروں قافلے لٹتے دیکھے ہیں ، سینکڑوں خیموں کی رسیاں کاٹ دی گئی ہیں۔ بیسیوں سنگھاسن ڈول گئے ہیں ، لوگ بگولے کی طرح اُٹھتے ، آندھے کی طرح چھا جاتے اور غبار کی طرح بیٹھ جاتے ہیں، ایک ولولہ لے کر آتے ہیں ، ایک حسرت لے کر چلے جاتے ہیں۔ جن میں غیرت ہوتی ہے وہ دولت لُٹا کر عزت بچاتے ہیں ۔ جن کی غیرت مرجاتی وہ دولت کے بعد عزت کی بازی لگا دیتے ہیں۔ بیسوا او رہوا دونوں کا رُخ بدلتا رہتا ہے۔ ‘‘‘
’’ لیکن جو لوگوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں۔ ‘‘
’’ کچھ تو واقعی گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں اور ایسی کئی مثالیں ہیں۔ لیکن بیشتر لوٹ آتی ہیں۔ ان کے لئے گھر کی زندگی قید کی زندگی ہے ۔ جن عورتوں نے فی الحقیقت گھر کی زندگی قبول کر لی ہے ان کا دامن اب سورج کی طرح اُجلا ہے ، ان کی اولاد بھی نکو نام ہے ۔البتہ اُن کا ماضی کہیں بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جب بھی گھریلو عورتیں اکٹھی بیٹھتی ہیں ضرور کھسر پھسر کرتی ہیں اور مرد بھی جب کہیں اکٹھے ہوتے ہیں یہ ضرور کہتے ہیں کہ فلاں کے گھر میں طوائف ہے۔‘‘
’’ یہ ایک عجیب بات ہے کہ طوائفوں کے بچے بالخصوص ان کے جوکسی کے حرم میں چلی جاتی ہیں بڑے ہی ہوشیار ہوتے ہیں اس ہندوستان میں کئی نواب طوائفوں کے بطن سے تھے ، خود پاکستان میں ایک آدھ ریاست کا فرمانروا اسی انگوٹھی کا نگینہ ہے۔ فلاں ادیب یا فلاں وزیر سے اس بازار کا کچھ نہ کچھ ناطہ ضرور ہے۔ آپ لوگ ان عورتوں پر ناک بھوں تو چڑھاتے ہیں مگر داد دیجئے کہ ان کے سینے بڑے بڑے رازوں کے مدفن ہیں ۔ ان کا پیٹ سی آئی ڈی کی خفیہ دستاویزوں سے زیادہ خفیہ رہتا ہے۔ میں اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ طوائف جب تک نائکہ نہیں ہوجاتی وہ ضرور کوئی نہ کوئی حرم ڈھونڈھتی ہے، اس کے تحت الشعور میں یکسوئی کی خواہش چھپی رہتی ہے، اس کے دل میں دسترخوان بننے کے خلاف ضرور ایک احتجاج سا ہوتا ہے ، لیکن جب دیکھتی ہے کہ اس بازار کی زندگی سے مفر نہیں اور لوگ اسے کھلونا سمجھ کر کھیلتے ہیں ، تو وہ اپنی جوانی کا بدلہ دوسروں کی جوانی سے چکاتی ہے۔ ‘‘
’’نائکہ سراسرا انتقام ہے اور طوائف سراسر کھلونا۔‘‘
’’ اور آپ؟‘‘
’’ہمیں اس بساط کے مہرے کہہ لیجئے۔‘‘ حمزی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’ فرزین کہ پیادہ؟‘‘
’’ کبھی فرزین کبھی پیادہ۔‘‘
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئےیہاں کلک کریں)