اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر26
ہر نائک نسائیت کے ویرانہ آباد میں ایک کھنڈر ہے۔ نائکہ ایک بلاٹنگ پیپر ہے جو سیاہی چوستے چوستے سڑجاتا ہے ، اس برگد کی چھاؤں تلے سینکڑوں مسافر جوانی گزار چکے ہوتے ہیں۔ جب نشست پر بیٹھی ہو تو منہ میں حقہ کی نے لیے یوں نظر آتی ہے، جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرا جگنوؤں کی روشنی کا سہارا لے رہا ہے، وہ پان بناتی ہے ، وہ پان اکٹھے کرتی ہے ، اس وقت اس کی زبان بڑی میٹھی ہوتی ہے اور جب معاملہ کرتی ہے تو اس میں قاتل سے زیادہ بیرحمی، چور سے زیادہ پھرتی ، ڈاکو سے زیادہ سنگ دلی اور خائن سے زیادہ کجی آجاتی ہے۔ وہ اپنے ماضی کا قرض اپنی اولاد سے چکلاتی ہے۔
کاکو کی ماں اسی قماش کی نائکہ ہے لیکن وزیر کا سبھاؤ ذرا مختلف ہے۔ اُس کا خاندان پشتینی ہے لیکن اب پینٹ اکھڑ چکا ہے۔ وزیر کوئی پینسٹھ برس کی عمر میں ہے۔ اُس نے راجوں کے رنواس اور نوابوں کے محل دیکھے ہیں۔ ان کے خاندان کی مورث اعلیٰ موراں بائی بڑی نامور رنڈی ہوئی ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے اس کا تعلق تھا۔ وزیر موراں کا نام نہایت ادب سے لیتی ہے، مہاراجہ رنجیت سنگھ موراں کو ملنے کے لئے اس کے مکان واقع چوک متی یا چوک چکلہ میں خود جا یا کرتا تھا ہر جمعرات کو موراں ہاتھی پر سوار ہو کر حضرت داتا گنج بخش ؒ کے مزار پر سلام کے لئے حاضر ہوتی۔ اُس نے چوک متی میں ایک مسجد بنوائی جواب بھی موجود ہے اور مائی موراں کی مسجد کہلاتی ہے۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین بیچ اس مسئلہ کہ۔۔۔ ؟
ایک دن بعض سرداروں نے مہاراجہ کے کان میں یہ بات پھونکی کہ موراں آپ کی وفادار نہیں آپ کے دھن کی دوست ہے ، خواہ مخواہ آپ اس پر خزانہ لٹا رہے ہیں۔ اور اگر واقعی وہ آپ کی وفادار ہے تو اس سے کہیے کہ آپ کے ساتھ جھٹکا کھائے، مہاراجہ نے موراں کو طلب کیا، پوچھا۔’’ تم جھٹکا کھاتی ہو؟‘‘ اس نے کہا ’’ مہاراج بالکل نہیں !‘‘ حکم ہوا۔’’ آج کھانا پڑے گا۔‘‘ عرض کیا۔۔۔ ’’ مہاراج ! میں نے آپ کی ملازمت کی ہے ، مذہب نہیں بیچا ہے۔‘‘
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر25پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رنجیت سنگھ کو تاؤ آگیا ۔ تمام جائیداد کی ضبطی کے احکام صادر کئے ، بس پھر کیا تھا جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ تھا۔ سورماؤں نے قبضہ میں لے لیا، موراں ہفتوں پریشان رہی ، اسی دوران میں اس کی ایک درویش سے ملاقات ہوگئی ، اُس نے دعا کی اور مہاراج دوبارہ مہربان ہوگئے۔ موراں حضرت گنج بخش رحمۃاللہ علیہ کے مزار سے گھر واپس آئی تو نہ صرف گاڑیوں میں سامان لدا آرہا تھا بلکہ مہاراج بنفس نفیس تشریف فرما تھے۔ وزیر کا کہنا ہے کہ موراں سے دوسری پشت میں ہم لوگ امرتسر چلے گئے، اور تقسیم تک وہی رہے۔ جو کمایا وہ اللے تللوں کی نذر ہوگیا، امرتسر میں کئی سوایکڑ زمین تھی۔ دو چار کوٹھیاں بھی تھین وہ بھی بٹوارہ میں چھٹ گئیں۔
وزیر کی بیٹی ممتاز نے اپنے شباب میں مہاراجہ اندور کو مسحور کر رکھا تھا۔ مہاراج نے گانے کے لئے طلب کیا پھر وہیں روک لیا۔ ایک آدھ سال یورپ کے مختلف ملکوں میں ساتھ رکھا بکنگھم پیلس میں ملکہ کے ساتھ لنچ کھایا۔ یہ کسی طرح افشا ہوگیا کہ ممتاز رانی نہیں داشتہ ہے تو اس پر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سخت سرزنش کی۔
اُدھر ممتاز کا دل ریاستی فضا سے اُکتا چکا تھا۔ ماں باپ امرتسر میں تھے مہاراجہ ملنے نہیں دیتا تھا۔ ایک روز مہاراجہ اور ممتاز مسوری جارہے تھے۔ گاڑی دہلی پہنچی تو ممتاز نے شور مچا دیا یہ سب منصوبہ پہلے سے تیار تھا پولیس نے معاونت کی اور ممتاز والدین کے ہمراہ امرتسر وہاں سے بمبئی کا رُخ کیا جہاں ممتاز نے ایک لکھ پتی تاجر بادلے سے عقد کا فیصلہ کرلیا۔ مہاراجہ کے نوکر چاکر تعاقب میں تھے انہوں نے موقع پاکر سیٹھ کو قتل کر ڈالا اور ممتاز کو گرفت میں لے کر بھاگنا چاہا لیکن دو انگریز فوجی افسروں کو اچانک آمد سے ملزم موقع پر پکڑ لئے گئے۔ مقدمہ چلا ، قائداعظم بادلے کے پیروکار تھے۔ قاتلوں کو پھانسی ہوگئی اور مہاراجہ کو گدی چھوڑنی پڑی ۔ملک بھر کے اخباروں میں مقدمے کاچر چا رہا اور آج وہی ممتاز جس نے بکنگھم پیلس میں بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ شرف تناول حاصل کیا تھا ، ٹکسالی کے اندر ایک خستہ حال چوبارے میں زندگی گزار رہی ہے۔ ایک بیٹی ٹکیائی ہے جس کی آمدنی سے کنبہ پلتا ہے۔
وزیر راجواڑوں کی زندگی کا اورکیا کچھ جانتی ہے۔ اس نے نسلاً بعد نسل نوابوں اور رجواڑروں کی چھاتی پر مونگ دلے ہیں ، اُس کا بیان ہے کہ ریاستی فرمانروا خلقتہً عیاش ہوتے ہیں،ان کے ہاں صرف تین شخص رسا ہوتے ہیں حکماء جو ان کے لئے کیمیاے عشرت تیار کرتے ہیں۔ حراف جوان کے لئے لڑکیاں فراہم کرتے ہیں اور طوائفیں جو ان کے حواس پر قابو پاتی ہیں۔