اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر27
ان فرمانرواؤں کی خوراک کا ذکر کرتے ہوئے ایک دفعہ اُس نے بتایا کہ ان کی غذائیں خاص قسم کے مرکبات سے تیار ہوتی ہیں۔ ایک عام آدمی انہیں ہضم کرنے کا معدہ نہیں رکھتا ۔مہاراجہ صبح کے وقت جو ناشتہ کرتے تھے اُس پر دو سو روپے خرچ ہوتے تھے ۔اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں جنہیں ان کے خوشہ چین ظل اللہ کہتے رہے، اپنے حرم میں بہت سی بیویاں رکھتے تھے ان کے بے شمار بچے تھے جب کوئی مرجاتا تو اسے ’’ اندرون خانہ‘‘‘ ہی شاہی قبرستان تک پہنچا دیا جاتا تھا ۔ایک بڑی ریاست کے وزیراعظم جن پر مہارانی لٹو تھیں اور بعض روائتوں کے مطابق ریاست کا ولی عہد ان وزیراعظم کے صلب ہی سے تھا خود ایک مشہور طوائف پر جی جان سے فدا تھے ، اس طوائف کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جب لڑکی جوان ہوگئی تو اس کی ماں کسی بات پر ناراض ہوکر لاہور آگئی اور لڑکی کو بازار میں بٹھانا چاہا تووزیراعظم نے سنا تو پاؤں تلے کی زمین نکل گئی ۔قانونی حق تھا نہیں صرف ایک نام تھا۔ کسی نہ کسی طرح طوائف کو دوبارہ راضی کر لیا اور وہ ریاست میں چلی گئی ۔ایک رات جب ماں اور بیٹی دونوں سو رہی تھیں ایک خدمت گزار نے کئی ہزار روپے معاوضہ لے کر اس لڑکی پر پٹرول کا ڈبہ الٹ دیا اور آگ لگا دی ۔اس طرح وہ لڑکی ایک مقفل کمرے ہی میں بھسم ہوگئی اور وزیراعظم کے دل کا کانٹا نکل گیا کہ اس کے صلب کی یاد گار کو بھی طوائف بنایا جا سکتا ہے۔
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر26پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک اور طوائف جو اب ایک بڑے متمول زمیندار کی منکوحہ ہے۔ مہاراجہ کے دربار کی خاص گویا تھی، اس کو پہاڑی گیت گانے میں خصوصی ملکہ تھا۔ ریذیڈنٹ نے اُس سے مہاراجہ کو زہر دلوانے کی سازش کی اس نے شراب میں زہر ملا دیا مہاراجہ کو قبل از وقت معلوم ہوگیا۔ ریذیڈنٹ کے سامنے وہ بے بس تھا طوائف کر مروایا نہیں لیکن اُس کی تمام جائیداد وضبط کر لی اور ریاست بدر کر دیا۔
وزیر کا کہنا تھا کہ تمام ریاستیں (ب استشنا) با اختیار چکلے ہیں جو کچھ ان ریاستوں میں ہوتا ہے وہ چکلے میں نہیں ہوتا۔ آج بھی اس ملک میں بڑے بڑے نواب اور زمیندار اور اس ملک کے باہر خدا داد سلطنتوں کے بادشاہ عورت کو شراب کے پیگ سے زیادہ وقعت نہیں دیتے۔ ان کے حرم میں بے شمار بیویاں ہیں جن کی فطری خواہش مہینوں بلکہ برسوں تشنہ رہتی ہیں ، چونکہ ایک دفعہ خدا وند مجاز متمتع ہوچکے ہوتے ہیں لہٰذا ان کے جسم کو کوئی چھو نہیں سکتا۔ وہ قلعہ نمامحلوں میں قید رہتی ہیں اور جب انہیں کوئی راستہ ملتاہے تو پرائے مردوں سے ملتفت ہوتی ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ فحاشی کے بعض دوسرے اسباب بھی ہیں لیکن ایک بڑی وجہ ان متمول لوگوں کا نفسی ابتلا ہے۔ جب تک مرد اور عورت کے جنسی اختلاط میں توازن پیدا نہیں ہوگا یہ فحاشی اور چکلے کبھی نہیں رُک سکتے؟
‘‘ لیکن اس کی بڑی وجہ اقتصادی بھی ہے۔‘‘
’’ جی ہاں پیٹ تو سب کے ساتھ لگا ہوتا ہے لیکن اس میں جنسی خواہش کے فطری مطالبہ کو بھی بڑا دخل ہے۔‘‘
’’ یہ صحیح ہے کہ آپ کے ہاں بڑے بڑے ادبی و سیاسی راہنما آیا کرتے تھے؟‘‘
’’ جی ہاں! ہر بڑا آدمی اس کوچہ سے رسم وراہ رکھتا تھا۔ یہ دو نسلیں تو میری نظروں کے سامنے گذری ہیں ، در اصل ریبع صدی پہلے کے لوگ طوائف کو ایک ثقافتی ادارہ سمجھ کر اس کے ہاں آتے تھے ان کا معاملہ جسم کا نہ تھا ایک تہذیب کا تھا وہ بالا خانوں کو ایک کلب سمجھتے اور خوش وقت ہوتے تھے ۔ سرسید شوق سے گانا سنتے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے چندہ فراہم کرتے وقت انہوں نے ایک طوائف سے بڑی رقم حاصل کی۔ مولانا شبلی بھی آواز کا شوق فرماتے رہے ہیں شرر مرحوم بھی چوک میں ہو کر آیا کرتے تھے۔ مولانا ابوا لکلام آزاد غبارِ خاطر میں اپنی اشفتہ سری کا اقرار کر چکے ہیں، مولانا محمد علی سیاسی سفر میں بھی فیض آباد کی آواز سُن کر آیاکرتے تھے۔ علامہ اقبال کی امیرا بھی پچھلے دنوں مری ہے اور وہ جونکٹی کی دو بیٹیاں اڈہ شہباز خاں میں بیٹھتی ہیں، ایک بڑی راہنما کے انقلابی مقاصد کا حصہ تھیں، رہا شاعروں یا ادیبوں کا قصہ تو ان کی کہانی ڈھکی چھپی نہیں ، غالباً داغ کے ہاں بھی ایک طوائف تھی۔ ’’ لیلیٰ کے خطوط‘‘ کی محرک کون ہوا۔ منی جان جو قاضی عبدالغفار کے حرم میں تھیں۔ اکبر الہٰ آبادی نے بوٹا بیگم سے نکاح پڑھوایا تھا، الغرض
چرائے کچھ ورق لالے نے ، کچھ نرگس نے ، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں اپنی
ؔ ’’ آپ نے ان لوگوں کو قریب سے کیا محسوس کیا؟‘‘
’’ ہم کیا محسوس کرتے یہ تو جواُن کی صحبتوں میں رہ چکی ہیں وہی کہہ سکتی ہیں۔ ہاں اتنا معلوم ہے کہ حشر مختار کو جی جان سے چاہتے تھے، امیر سے کبھی اقبال کا ذکر آتا وہ مسکرا دیا کرتی۔ کچھ بھی ہو، یہ بہت بڑے آدمی تھے۔ ان میں کوئی بھی گنوار کا لٹھ نہ تھا۔ ‘‘
’’ ابھی آپ نے نوابی غذاؤں کا ذکر کیا تھا ، آپ بھی ان دسترخواں پر بیٹھی ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ کہیے؟‘‘
’’ اس میں علم یا خبر کی کوئی بات نہیں مشہور کہا وت ہے ۔’’ کبھی سنوارے سالنا بڑی بہو کا نام۔‘‘ سب باور چیوں کے چوچلے یا چہلیں ہیں۔‘‘
کہتے ہیں واجد علی شاہ صبح کے ناشتہ میں پانچ سیر غذا کا پاؤ بھر جوہر نوش فرماتے تھے۔ ان کے لئے ایک سیر پلاؤ 24 سیر گوشت کی یخنی میں دم ہوتا تھا اور اسے ہضم کرنے کے لئے آبدار خانے میں طبی اصول سے پانی تیار کیا جاتا تھا۔ یہ محض من گھڑت افسانے ہیں کہ کنچنوں کے گھر میں مرغن کھانے پکتے ہیں، جیسی روٹی آپ کھاتے ہیں دیسی یہاں پک جاتی ہے، کوئی مہمان ہوتو ہر کہیں تکلف برتا جاتاہے۔
مائی وزیر نے سگریٹ سلگا لیا اور اس کے تہ بہ تہ دھوئیں پر نظریں گاڑ دیں پھر جب دھوآں ہوا میں تحلیل ہو چکا تو اس نے کہا۔۔۔ ’’ جوانی سلفے کا ایک کش ہے اور بڑھاپا دھوآں۔ جب یہ دھوآں اُڑجاتا ہے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے۔‘‘
****
عجیب و غریب
اُس کی سرد قامتی آہو چشتی سفید رنگت دوہرے دراز گیسویا پھر سُرمئی ڈوپٹہ چوڑی دار پاجامہ اور پاؤں میں کمخواب کی لفٹی۔ شریر نگاہوں کو ضرور اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ جب وہ زاویے بناتا ہوا گزرتا ہے تو عموماً یہ دھوکا ہوتا ہے کہ کوئی بیاہتا عورت سسرال سے میکے جا رہی ہے۔ لیکن وہ پیدائشی مخنث ہے اُس کی گفتگو میں رنگینی نہ سہی ، سنگینی ضرور ہے۔
’’ مجھے چند گھنٹوں ہی کے لئے حکومت سونپ دی جائے تو تین کام کروں گا۔‘‘
پہلا ، شراب فروشوں کو قید میں ڈال دوں اورشرابیوں کو دُرے لگاؤں۔
دوسرا، جواریوں کو اُلٹا لٹکا دوں اور نیچے سے آگ کی دھونی دوں۔
تیسرا ، وہ لوگ جو بہن اور بیٹی کی کمائی کھاتے ہیں انہیں توپ دم کردوں۔
یہ ہمارے آخری سوال کا جواب تھا جو خوبرو مخنث شوکت نے دیا اور پھر زاویہ قائمہ بناتا یوں نکل گیا جیسے ترکش سے تیر۔
شوکت کی عمر اس وقت 25 اور 30کے درمیان ہے۔ ہم نے اُس سے پوچھا۔
’’ تم پیدائشی مخنث ہو؟‘‘
’’ جی ہاں! لیکن مخنث تو پیدائشی ہی ہوتے ہیں۔‘‘
’’ یہاں لاہور میں ایک لانبے قد کا مخنث منیر جوگی گھوما کرتا تھا ، جانے اب کہاں ہے؟ اُس نے مخنثوں پر ایک کتابچہ لکھا یا لکھوایا تھا اس میں لکھا تھا کہ پیدائشی مخنث اکاد کاہی ہوتے ہیں ، سو میں سے پچانوے بنائے جاتے ہیں، بعض مرد ہی ہوتے ہیں اور بیشتر بچے کمسنی میں خصی کر لئے جاتے ہیں۔‘‘
’’ ممکن ہے درست ہو اس قسم کی باتیں سننے میں تو آتی ہیں مگر مخنث بنانے کا معاملہ کچھ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔ یہ ضرور ہے کہ بعض مرد شوقیہ مخنث بن جاتے ہیں۔ مگر ہم نہ تو انہیں اپنے حلقہ میں بیٹھنے دیتے اور نہ اُن سے کوئی تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
’’ شوقیہ مخنث کون ہوتے ہیں؟‘‘
شوقیہ مخنث وہ نوجوان ہیں جن کی طبیعتوں میں نسوانیت رچی ہوتی ہے۔ مثلاً ایسے نوجوان جن میں ماحول یا فضا کے باعث زنانہ پن آجاتا ہے ، کچھ ایسے نوجوان بھی ہوتے ہیں جو محنت سے جی چُراتے ہیں ، اُن کے رگ وپے میں حرام سما جاتا ہے ، اور اپنی جنسی خواہشات کو صنفی جذبے یا نسوانی آرزو کے تحت ازخود مفلوج کر دیتے ہیں جیسا کہ عرض کیا ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، اور نہ ڈیرے دار انہیں اپنے ہاں ٹھہرنے دیتے ہیں۔
’’ ڈیرے دار سے کیا مراد ہے؟‘‘
’’ جیسے خاندانی رنڈیاں ’’ ڈیرہ دارنیاں‘‘ کہلاتی ہیں ایسے ہی ڈیرے دار مخنث ہوتے ہیں جو گدی در گدی چلے آتے ہیں۔‘‘
’’ لیکن کنچنوں کے تو اولاد ہوتی ہے مخنثوں کے ہاں تو اولاد کا سوال ہی نہیں‘‘
’’ ٹھیک ہے مگر ہمارے ڈیرے چیلوں اور بالکوں کی جانشینی سے چلتے ہیں۔ ہم مخنث ایک دوسرے کو اپنا رشتہ دار سمجھتے ہیں ، ہماری ایک خاص معاشرتی زندگی ہے۔ ہم کسی دور دراز شہر میں چلے جائیں تو وہاں کے ڈیرے دار کا فرض ہوجاتا ہے کہ ہمارے قیام وطعام کا انتظام کرے، اُس کو مہمانداری سے ایک عزیزانہ خوشی ہوتی ہے۔ عورتوں کی طرح ہیجڑوں کی بھی قسمیں ہیں باکرہ، دو شیزہ، دُلہن ، ادھیڑ ، بوڑھی ، ہمارا مقام کبھی محلوں میں تھا ، اب جھونپڑوں میں بھی نہیں ، کبھی حرم سراؤں کی محافظت پر مامور تھے، اب در در کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں ، زمانہ زمانہ کی بات ہے۔
کس کی بنی ہے عالمِ پائیدار میں
’’ لیکن یہ مخنث ایشیائی ملکوں ہی میں نظر آتے ہیں کسی یورپی ملک میں تو ان کا وجود ہی نہیں ہے۔‘‘
’’ جب ایشیا میں مخنث ہیں تو یقیناً یورپ میں بھی ہوں گے ، ہوسکتا ہے وہاں انہیں ہماری طرح ادارے کی حیثیت حاصل نہ ہو۔ کیونکہ یورپی ملکوں میں اس کا اظہار عیب سمجھا جاتا ہے ایشیائی ملکوں میں ہمیں ادارے کی حیثیت ا سلئے حاصل ہوئی ہے کہ یہاں ہم لوگ شاہوں کے حرم میں خدمت گزار تھے۔ جب سلطنتیں اُجڑ گئیں تو مخنثوں کا چراغ بھی مدھم ہوگیا، رفتہ رفتہ ہم گانے بجانے میں لگ گئے پھر یہی اوڑھنا بچھونا ہوگیا۔‘‘
’’ مشرقی بادشاہوں کی تاریخ میں تمہارا ذکر بھی ہے۔‘‘
’’کیوں نہ ہو؟ ہمیں لوگ ان کے محلوں میں اعتماد قائم رکھتے تھے ، ورنہ انسانی نفس کی گمراہیاں تو جنگل کی آگ کو بھی پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔‘‘
’’ جواز اچھا ہے لیکن تمہاری تاریخ تو محض بادشاہوں کے زوال کی تاریخ ہے۔‘‘
’’ یہ آپ کی فلسفانہ باتیں ہیں اور مجھے ان کی کچھ خبر نہیں ۔۔۔ اب لوگ ہمیں ہنسی مذاق کا مضمون سمجھتے ہیں ۔ یہ فطرت کا مذاق ہے کہ ہم مخنث پیدا ہوگئے اور یہ معاشرہ کی مہربانی ہے کہ ہم پھٹے حالوں جی رہے ہیں۔ ورنہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا ، روئے زناں نہ ردئے مرداں۔ہمارے بادشاہت لے دے کے ملک کا فورسے شروع ہوئی اور ملک کا فور پر ختم ہوگئی یا شجاع الدولہ فامانروائے اودھ کی فوج میں ہمارے بھائی بند مختلف پلٹنوں کے سالار تھے، پھر تو شیرازہ ہی بکھر گیا اب وہ زمانے ہی خواب و خیال ہوچکے ہیں ، کہاں بادشاہوں کی مصاحبت اور کہاں آبرو فروشوں کی معیت۔‘‘
’’کاروبار ۔۔۔؟‘‘ شوکت کے چہرے پر ایک قہقہہ سا پھیل گیا۔۔۔
(جاری ہے)