IRIN. (سماجی معلومات کا افریقی نیٹ ورک )کی ایک رپورٹ کے مطابق چاڈ سے لائے گئے بچوں کو اپنے ہم وطنوں یا ہم زبان افراد سے ملنے یا ان سے بات کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جاتی ۔انہیں صرف اونٹوں ، بکریوں کو چارہ دینے ، پانی پلانے اور مالک کی طرف سے بھیجی گئی خوراک کھانے کے علاوہ کسی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بر اعظم افریقہ میں مالی ایک ایسا ملک ہے جہا ں غلامی نہیں پائی جاتی لیکن کچھ رپورٹر ز نے وہاں بھی ایسے بچوں کی نشاندہی کی ہے جن سے مفت میں کام لیا جاتا ہے ۔ مالی میں پائی جانے والی غربت اور روز بر وز بڑھتی ہوئی آبادی نے انسانوں کو بے تو قیر کر دیا ہے ۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک دیگر افریقی ملک موریطانیہ کے حالات حیران کن حد تک خراب ہو چکے ہیں ۔ وہاں 90ہزار کالے مور یطانیہ سفید فام باشندوں کے ہاں غلاموں کے طور پر کام کررہے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ سفید فام موریطانی جو حکمران بھی ہیں ’’سا نحا جا با ر بر ‘‘اور ایک عرب قبیلے بنی حسن کی اولاد میں سے ہیں جو وسطی زمانے میں ہجرت کرکے شمال مغربی افر یقہ ، موریطانیہ اور موجودہ مغربی صحارہ ممالک میں آکر آباد ہوئے تھے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 6لاکھ مو ریطانی باشندے غلامو ں کی زندگی گزار رہے ہیں جن سے جبری مشقت بھی لی جاتی ہے ۔ یا د رہے کہ یہ غلام کل آبادی کا20فیصد ہیں ۔ مو ر یطانیہ میں2007ء میں باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے غلامی کا خاتمہ کردیا گیا ۔ لیکن ملک میں کمزور انتظامی اور عدالتی نظام کی وجہ سے یہ آج بھی وہاں عام ہے۔
براعظم افریقہ میں و ہم پر ستی اور سینہ گزٹ کے ذریعے پھیلائی جانی والی دیو مالائی کہانیوں نے بھی آبادی کے ایک بڑے حصے کو گمراہی میں مبتلا کر رکھا ہے ۔مو ریطانیہ میں حکومتی سطح پر کبھی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا کہ ان کے ملک میں غلامی پائی جاتی ہے ۔ عدالتوں میں بھی ایسے مقدمات بہت کم آتے ہیں جن میں غلامی کے متعلق کوئی ایشو پایا جاتا ہو ۔تا ہم کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے اس کا کھوج لگا لیا ہے۔موریطانیہ کے حکمران امام الحسن اولد بنیا مین تر یات نے غلامی کے خاتمے کا 1997ء میں مند رجہ ذیل اعلان بھی کیا جو انتہائی مختصرہے، اس کا کہنا تھا کہ ’’یہ اسلامی قانون اور قرآنی تعلیمات سے متصادم ہے اور اگر اسے مسلمانوں کی دیگر اشیاء کے طور پر بھی لیا جائے جو جائز قانونی طریقے سے حاصل کی گئی ہو ں ، اور ریا ستا ا گرچہ اسلامی ہی کیوں نہ ہو کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ میرے مکان ، بیوی یا میرے بیٹے کو اپنی تحویل میں لے ۔‘‘
ایک اور افریقی ملک سوڈان میں بھی 90کے عشرے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اندرون ملک جبراًسمگل کیا گیا ۔ بلکہ اسے اغواء یا قبضہ میں لینا کہناچاہے ۔ سوڈان ،جہا ں 1983ء میں دوسری خانہ جنگی کے دوران مخالفین کو غلام بنا کر رکھنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ اس خانہ جنگی میں ایجنٹ مافیا نے بھی خوب مال کمایا ، سوڈانی باشندوں جن میں عورتیں اور بچے بڑی تعداد میں شامل تھے اندرونی خلفشار سے خو فزدہ ہو کر امیر عرب ریاستوں کا رخ کرنے لگے ۔ ان کی برائے نام دستاویزات تیار کر کے ان کو سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، قطر اور کویت کے علاوہ عراق میں بھیجا گیا ۔ ان باشندوں کو ہم مذہب اور زبان سمجھتے ہوئے ان کا پر جوش استقبال کیاگیا ۔
سابق امریکی صدر بش اور اس کی کابینہ پر کانگرس کے بنیادپر ست عیسائی ارکان کی طرف سے سوڈان میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتائج کا نوٹس لینے بہت زیادہ دباؤ ڈالا گیا ۔ سوڈان میں امریکی ڈیپارٹمنٹ کے الزامات کو بھی بین الاقو امی میڈیا نے اچھالا لیکن فوجی آپریشن جاری رہا ۔ ا س آپریشن کے دوران ملک کے شمالی حصوں سے جنوب کی طرف آنیوالوں کو غلاموں جسیے سلوک کا سامنا کرنا پڑا ۔ سوڈانی حکومت کا موقف تھا کہ چند قبائل کا وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش خانہ جنگی کا سبب بنی تھی ۔ایک اندازے کے مطابق دوسری خانہ جنگی کے دوران 2لاکھ باشندوں کو جبری طور پر غلام بنایا گیا۔
براعظم افریقہ میں اس وقت سب سے بڑا ملک الجیریا ہے جو افریقہ کے شمال مغرب اور بحر ا لکاہل کے شمالی ساحل پر واقع ہے ۔ ا س کی مشرقی سرحد تیونس اور لیبیا سے ملتی ہے۔ جنوب اور جنو ب مشرق میں نیگر جبکہ جنوب مغرب میں مالی ، مو ریطانیہ اور شمال مغرب میں مرا کو واقع ہیں ۔ اس کی آبادی ساڑھے 3کروڑ اور رقبہ 2381741 مربع کلو میٹر ہے ۔ اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصا ر زراعت پر ہے ۔ زراعت کا جی ڈی پی میں 8فیصد حصہ ہے۔ 25فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے ۔ صرف 15لاکھ افراد صحار ا کے ذیلی علاقو ں میں رہتے ہیں جو کل آبادی کا 2فیصد ہیں ۔ 92فیصد آبادی بحر الکاہل کے ساحل کے ساتھ ملک کے 12فیصد رقبے پر آبا دہے۔ الجیریا کی 45فیصد آبادی شہری اور باقی دیہی اور ساحلی علاقو ں میں رہتی ہے یعنی 2کروڑ 5لاکھ افراد شہروں میں آباد ہیں۔ 99فیصد نسلی طور پر عرب بربر ہیں ۔ 96فیصد سنی مسلما ن ہیں ۔ چند لوگ غیر سنی مسلمان ہیں۔ یہاں پر عیسائی اور یہودی گنتی میں رہتے ہیں ۔ یہودی جو کبھی الجیریا کی کل آبادی کا 2 فیصد تھے فرانس اور اسرائیل کی طرف ہجرت کر گئے ہیں ۔ الجیریا میں16سال کی عمر تک تعلیم مفت دی جاتی ہے۔ مردوں میں شرح خواندگی 79 فیصد جبکہ عورتوں میں 60فیصد پائی جاتی ہے۔ 670 ء سے 711ء تک بنو اُمیہ کے فاتح عقبہ بن نصفی کے حملوں کے نتیجے میں یہا ں اسلام پہنچااور 671ء سے 750تک یہاں خلافت قائم رہی ۔ 19ویں صدی میں فرانس نے الجیریا کو فتح کیا ۔ 1991ء میں الجیریا کی آبادی 2کروڑ50لاکھ 10ہزار تھی ۔ اس میں حکومت اور اسلام پر ستوں کے درمیان 11سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں 2لاکھ افراد قتل ہوئے۔
آج بھی ملک کے مشرقی پہاڑی علاقو ں میں صورتحال مخدوش ہے ۔ یا د رہے کہ الجیریا جغرافیائی طور پر یور پ اور شمالی افریقہ کے درمیان ایک راستہ ہے۔ الجیریا انسانی سمگلنگ کا ذریعہ اور راہداری بھی ہے۔ یہاں پر عورتوں اور بچوں کو جبری مشقت اور جنسی استحصال کے علاوہ انسانی اعضاء کاٹنے کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔ یورپ میں جسم فروشی کے اڈوں پر فروخت کرنے لیے عورتوں کو وہا ں سمگل کیا جاتا ہے ۔ بعض عورتوں کو دیگر ممالک کی عورتوں کی طرح راستے کے اخراجات چکانے کے لیے مجبوراًجسم فروشی کرنا پڑتی ہے ۔ الجیرین سمگلرز بوگس دستاویزات تیا ر کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔ جوان لڑکیوں کو شادی کی دستاویزات کی بنیاد پر اسرائیل ، اٹلی اور دیگر مغربی ممالک سمگل کیا جاتا ہے جہاں ان کو جسم فروشی یا وقت سے پہلے شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ الجیریا سے لوگوں کا ترک وطن کے لیے جلد تیار ہونے کے پیچھے ملک کے سیاسی ، معاشی حالات ، سماجی بے چینی ، غربت ، نسلی امتیاز کی بنیاد پر سماجی حیثیت کا تعین ، مشترکہ خاندانی نظام میں دراڑیں پڑنا اور مقامی مسلح چپلقش کا ر فرماہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ الجیریا میں انسانی سمگلنگ کی اہم وجہ آبادی میں جنسی نا ہمواری ہے ۔ ا س لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزیا ں ہوتی ہیں ۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں