انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 35
انسانوں کی خرید و فروخت اور غلامی کو ہر ملک کے قانون میں جرم قرار دیا گیا ہے حتیٰ کہ اقوا م متحد ہ نے بھی اسے غیر قانونی اور غیر انسانی تجارت کا نام دیا ہے ۔ اس کے باوجود یہ دنیا میں جاری و ساری ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ انسانی سمگلنگ ان افراد کا جنسی اور مالی استحصال ہے جو کسی جبر، خوف یا لالچ کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں ۔ دنیا میں سمگل ہونے والے افراد کی 79فیصد تعداد کو جنسی طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ 18فیصد کو جبری مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افریقہ میں صومالیہ اور زمبیا سے گذشتہ 4 برسو ں سے ترک وطن کرنے والوں میں کو ئی مرد، عورت یابچہ ایسا نہ تھا جس سے نہ صرف رشوت کے طور پر بھاری رقم وصول کی گئی بلکہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی ۔ افریقہ میں انسانی سمگلنگ کی رپورٹس کے مطالعہ سے معلوم ہو ا کہ جنوبی افریقہ کے ملک آنے والے پولیس اور مافیا کے گائیڈ ز کے ہاتھوں راستے میں کئی بار جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ۔ ان کے ساتھ جنسی زیادتی ان کے بچوں ، خاوندوں یا دیگر رشتہ داروں کی موجودگی میں ہوتی تھی ۔ سفر کے دوران تھکاوٹ دور کرنے یا رات کو آرام کرنے کے لیے جنگل میں سونے والوں کو جنگلی جانوروں اور سیکورٹی فورسز کا خوف دلا کر گائیڈ ز اپنے ساتھ سونے پر مجبو ر کرتے ہیں
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 34 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ جسے سٹیفن نے مرتب کیا ہے کے مطابق افریقہ سمیت دنیا میں اس وقت 25 لاکھ افراد جبری مشقت میں مبتلا ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ سمگل کرکے لائے گئے ۔ اسی طر ح اس ادارے کے برطا نوی نمائندے انگوس کرافورڈ کا کہنا ہے کہ بر طانیہ میں سمگل ہو کر آنے والے بچوں کی آدھی تعداد لا پتہ ہوجاتی ہے ۔ یورپ میں بھی ایسے گینگ سر گرم ہیں جو افریقہ سے سمگل کیے گئے بچوں کو مختلف بہانوں سے اپنے پاس رکھتے ہیں ۔ مذکورہ بالانمائندے کا کہنا ہے کہ مجرموں کے گروہ حفاظتی مرا کز سے اس یقین دہانی کے ساتھ بچوں کو لے جاتے ہیں کہ ان کو برے لوگوں سے بچایا جائے گا اور ان کو الگ مکان میں رکھنے کا انتظام کیا گیا ہے ، یا درہے کہ ان بچوں کو ان کی مرضی کے خلاف بر طانیہ میں لایا جاتا ہے اور بعد میں ان کو غائب کر دیا جا تا ہے ۔ 20ویں صدی کے آغاز میں بر طانیہ میں ایسے بے سہار اافراد کے لیے محفوظ رہائش گاہیں تعمیر بھی کی گئی تھیں ۔اس کے باوجود لاوارث بچوں کا خفیہ ٹھکانوں پر جنسی استحصال کیا جاتاہے جس میں ان کی فحش فلمیں بنائی جاتی ہیں ۔ اس رپورٹ میں مذکور ہے کہ صرف برطانیہ میں آنے والے بچوں کی آدھی تعداد غائب کردی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں کتابچے اور پمفلٹس بھی شائع ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود غیر ملکی بچوں کا تحفظ نہیں کیا جاتاہے۔
براعظم افریقہ کے کئی ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر دیگر ممالک چلے جاتے ہیں ۔ ان کی اکثریت نہ صرف سمگلروں کے دےئے گئے لالچ میں آکر ان کو بھاری رقوم اداکرتے ہے بلکہ پیدل چل کر راستے کی تکالیف بھی برداشت کرتے ہے۔ایسے واقعات میں عورتوں کے ساتھ بچوں کو بھی کٹھن حالات سے گذرنا پڑتا ہے ۔ کئی ایک راستے میں دم توڑ دیتے ہیں ۔ جنوبی افریقہ پہنچنے والوں سے سونے کی چھوٹی صنعتوں اور ماہی گیری کے شعبوں میں جبری مشقت لی جاتی ہے ۔ براعظم سے باہر سمگل ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد کو لیبیا اور عراق جہاں بحالی کا کام شروع ہے میں بہت ہی کم اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 20ویں صدی کے پہلے عشرے میں عالمی اقتصادی بحران نے سب سے زیادہ افریقی ممالک کو متاثر کیا ہے جو پہلے ہی اپنی کمزور معیشتوں کو سہار ا دینے کے لیے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ۔ دوسرا یوں لگتا ہے کہ دنیا کے گلوبل تصور کے ساتھ ہی ہر فرد دنیا میں گھومنا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے ۔ خواہ اسے غیر قانونی طور پر ہی سفر کیوں نہ کرنا پڑے ۔ سوسائٹی برائے انسداد غلامی کی ایک تحقیق کے مطابق ، افریقہ میں انسانو ں کی خرید و فروخت اور غیر قانونی سمگلنگ کا بغور جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جرم کے پھیلاؤ میں وہاں کے اقتصادی و سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں ہونے والی اندرونی خلفشار اور باہمی جنگوں نے اہم کردار اداکیا ۔جیسا کہ 1994ء میں روانڈہ میں ہونے والی قتل و غارت کے دوران ہوا جس میں 10 لاکھ افراد قتل ہوئے۔
افریقہ میں جنسی مقاصد اور جبری مشقت کے لیے انسانی تجارت
سوڈان ، جنوبی افریقہ ، لائبیریا ، سیرہ لیونے ، شمالی یو گنڈہ ، کا نگو، نا ئیجر یو اور مو یطانیہ میں بچوں اور عورتوں کا جنسی استحصا ل معمول بن چکا ہے۔ آج گھانا ، ٹوگو اور بنین میں ’’ٹرو کو سو‘‘ کے نام سے ہزاروں لڑکیو ں اور عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے ،’’ٹرو کو سو‘‘اس رسم کو کہا جاتا ہے ۔ جس میں روایتی مزاروں یا مندروں پر جوان لڑکیوں کو دیوتا ؤ ں کی بیویا ں بنا کر چڑھاوے کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ مذکو رہ ممالک میں ایسی لڑکیوں سے ’’دیو تاؤ ں کی بیویوں ‘‘کے نام سے جبری طور پر جسم فروشی کرائی جاتی ہے ۔ اس رسم کے مطابق خا نقاہوں، مز اروں یا مندروں کے مجاور اور راہب ان لڑکیوں سے دیوتاؤں کی جگہ جنسی عمل کرتے ہیں ۔ گھانا ،ٹو گواور بنین میں مذہبی مقاما ت پر انسانوں کے چڑھاوے کی رسم بہت پرانی ہے ۔ ان مقاما ت پر جوان کنواری لڑکیوں کو خرید کر بھی منت پوری کرنے کے لیے متولیوں کے حوالے کی جاتاہے ۔ ان کو بطور ’’خدمت گار ‘‘رکھا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک دوسری رسم کے نام پر بھی عورتوں کا استحصال کیا جاتاہے۔ اس رسم کے مطابق ، خاندان کے کسی مرد فردنے اپنے گناہوں کا کفارہ اداکرنا ہو تو وہ بھی خاندان کی جوان کنواری لڑکی کو ایسے مقا ما ت پر لے جا کر راہبوں یا متولیوں کے حوالے کر دیتا ہے ۔ اسے نذرانہ کہا جاتا ہے ۔ بعض مقامات پر غیر ملکی عورتوں کو خریدکر لایا جاتاہے ۔ یہ رسم ٹوگواور گھانا میں وولٹا کے علاقے اور بنین میں فوون کے علاقے میں کثرت سے ادا کی جاتی ہے ۔ براعظم افریقہ میں اندرونی انسانی سمگلنگ کی یہ ایک اہم وجہ تصور کی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ چین سے عورتوں کوریستورا نوں میں کام کرنے کا لالچ دیکر لایا جاتا ہے اور ان کو ٹوگو اور بنین کے مز اروں پر رکھا جاتا ہے ۔
براعظم افریقہ کے ملک کا نگو میں لیو پولڈ کے دور میں جبری مشقت اپنے عروج پر تھی ۔ یہ کانگو کے علاوہ پر تگال میں بھی کئی دہا ئیوں تک انسانو ں کی تذلیل کا ذریعہ بنی رہی ۔ آج بھی عوامی جمہوریہ کانگو میں ہزاروں افراد بانؤں باشندوں جو ان کے ہمسائے ہیں کے ہا تھوں جبری مشقت کا شکار ہیں ۔ یہ بانؤں اپنے آپ کو یورپی باشندوں کے برابر سمجھتے ہیں ۔کانگو کے عام باشندوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے آجروں کا حکم بجانہ لائیں تو ان پر تشدد کیا جاتاہے ۔ ان کے مالک مزید کام کا تقاضا پورانہ ہونے پر ناراض ہوجاتے ہیں جن کا نتیجہ تشدد کی صورت میں نکلتا ہے ۔ ان میں سے ایک باشندے ڈینونے بی بی سی کو بتا یا ’’ہمیں سارا دن کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے ۔ دن ختم ہونے پر ہم اپنے مالک سے پو چھتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے ، ان کے لیے شکار کرنا یا آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنی ہیں ، وہ ہمیں دس دن تک کام کرنے کے عوض پھٹے پرانے کپڑے کا ایک ٹکڑا دیتے ہیں ۔ ڈینونے مزید بتایا کہ ہمیں ان کے لیے دن رات کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے پا س کوئی دوسراراستہ نہیں ہوتا ۔ ‘‘ اس رپورٹ سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ افریقہ میں آج بھی انسانوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے؟ افریقہ میں بچوں کی باقاعدہ تجارت جاری ہے ۔ یہ دوممالک (نائیجر یا اوربنین )میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
غریب اور پسماندہ علاقوں سے بچوں کو اغواکرکے یا خرید کر لایا جاتا ہے ۔ عام طور پر ان کی 20 سے 70امریکی ڈالر قیمت اداکی جاتی ہے ۔ ایسے بچوں کو امیر ریا ستوں (گبن وغیرہ ) میں بطور غلام رکھا جاتاہے یاان کو جسم فروشی کے اڈوں پر فرو خت کر دیا جاتا ہے ، ان اغوا کرد ہ یا خرید ے گئے بچوں کو 4 سو امریکی ڈالر کے عو ض مذکورہ بالا جگہوں پر فروخت کردیا جاتا ہے ۔ گذشتہ 6بر سوں سے امریکی محکمہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جنوبی افریقہ سمیت ان ممالک کو واچ لسٹ کے سرکل 2میں رکھا ہو اہے ۔ جنوبی افریقہ کو بر اعظم کی قدرے امیر یا خو شحال ریا ست تصور کیا جاتا ہے ۔ اس نے اگر چہ انسانی سمگلنگ کی روک تھا م کے لیے کئی ایک اقدامات کیے ہیں لیکن ان کو کا فی قرار نہیں دیا جاسکتا۔جنوبی افریقہ کی سر حد زمبیا ، بو ئسورنا ، زبمبا وے ، لیو ستھو، موز مبیق اور سو ئز ر لینڈ سے ملتی ہے۔5ہزار کلو میٹر طویل سر حد عبور کرنے کے لیے 72سرکاری راستے ہیں جبکہ ایجنٹ مافیا نے کچھ راستے اپنے طور پر بھی بنا رکھے ہیں ۔ ان راستوں کے ذریعے سمگلرز لوگوں کو ملک سے باہر نکالتے اور اند ر داخل کرتے ہیں ۔ اس قدر طویل سر حد کی سیکورٹی بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کے لیے تربیت یا فتہ اہل کا ردرکار ہیں ۔ ان سیکور ٹی اہل کا روں، جن کی اکثر یت کر پٹ ہے کااس سر حد کی نگرانی کرنابہت مشکل ہے۔ جنوبی افریقہ کی پولیس نے ساحلی علاقے کے ایک بہت بڑے حصے پر اپنے طو ر پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پولیس جو کر پشن کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے ہزاروں افراد کو افریقی سر حد عبور کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ان راستوں سے افریقی بچوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعدا دکو یو رپ ، اور مڈل ایسٹ کے مما لک سمگل کیاجاتا ہے ۔ بچوں کی سمگلنگ کا سلسہ ، دیگر افریقی ممالک ا تھوپیا ، چاڈ، مالی ، مو ریطانیہ ، سوڈان ، گھانا ، ٹوگو، اوربنین میں بھی جاری ہے بنین میں بچوں کو مستقل طو ر پر جبری مشقت اور غلامی کے لیے خریدا اور فروخت کیا جاتا ہے ۔اتھو پیا کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ملک کے 6 چھوٹے شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو مڈل ایسٹ کے ممالک سمگل کیا جاتا ہے۔ ان میں ایک اہم تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے ۔ ان لڑکیوں کو مڈل ایسٹ کے ممالک میں جبری طو رپر جسم فروشی کے دھندے پر لگادیا جاتاہے ۔
سرکاری ذرائع کے مطابق 2003ء میں ایک ہزار سے زائد بچوں کو مڈل ایسٹ سمگل کیا گیا ۔ انٹر نیشنل لیبر آر گنا ئزیشن ،اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے جسم فروشی کو جبری مشقت کی بد ترین شکل قرار دے چکے ہیں ۔ ہر ملک میں اس پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود یہ انسانوں کی تذلیل اور رسوائی کا ذریعہ بن چکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اتھو پیا میں بچوں سے محض کھانے کے عو ض کا م لیا جاتا ہے یا ان کو برائے نام معاوضہ دیا جاتاہے ۔ بلکہ 10 سے 18 سال کی عمر کے بچوں سے جنسی دھندے کے ذریعے پیسے کمائے جاتے ہیں ۔ جو بچے جنسی دھندے کے لیے مو زوں نہ ہوں ان کو بھکاری بنا دیا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو دیہی علاقوں سے شہروں میں لاکر رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی غیر ممالک سمگلنگ سے قبل سر کار ی اداروں یا والدین کی طرف سے بازیابی کی تصدیق کی جا سکے ۔ جب مافیا ز کو یقین ہو جاتا ہے کہ ان بچوں کے ورثا ان کا پیچھا نہیں کریں گے تو پھر ان کو بین الاقوامی ایجنٹ مافیا کے حوالے کیا جاتا ہے ۔ مڈل ایسٹ پہنچ کر کچھ اونٹ بھیڑ اور بکریوں کی دیکھ بھال پر لگادیے جاتے ہیں جبکہ باقی ماندہ کو عدیس ابابا میں کپڑے کے کار خانوں میں معمولی اجرت پر کام پر رکھا جاتا ہے ۔ خوبصورت اور جاذب نظر لڑکیوں سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے یا ان کو قحبہ خانوں میں فرو خت کر دیا جاتا ہے ۔ مشر ق وسطیٰ کے ہو ٹلوں اور محلوں میں افریقی لڑکیوں کو جسم فروش کرتے ہوئے آج بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ مشر ق وسطیٰ (مڈل اسیٹ )کے مما لک میں ایسے بچوں پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ان ممالک میں چروہواں کی 60 فیصد تعداد سے چاڈ سے لائے گئے بچوں کی ہے۔ افریقی بچے چونکہ فطری طو رپر دیگر خطوں کے بچوں کے مقابلے میں سخت مزاج اور موسمی تبدیلیوں کو بر داشت کرنے کے عادی ہوتے ہیں اس لیے ان کو چر واہوں کے طو رپر رکھا جاتاہے ۔ ان بچوں سے سارادن بھیڑ، بکریا ں او راونٹوں کو صحرا ؤ ں میں چرانے کا کام لیا جاتاہے جو بغیر کچھ کھائے پیئے سارادن سخت گرمی میں گزارتے ہیں(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 36 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں