انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 34
نیوزی لینڈ انسانی سمگلنگ اور حکومتی اقدامات کے تنا ظر میں
انسانی سمگلنگ کے لیے نیوزی لینڈ ایک منزل قرار دیا جا تاہے ۔ جس میں یہ جرم معمولی پا یا جا تا ہے ۔ جسم فروش عورتوں سے پا سپورٹس کی ضبطگی اور سفری اخراجات کی مد میں ان پر اضافی قرضوں کے بو جھ کے چند واقعات رونما ہونے کے علاوہ وہاں پر یہ جرم زیادہ نہیں پنپ سکا ۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ ایسا ملک ہے جہاں ہا نگ کا نگ ، ملا ئیشیا ، چین اور کچھ ایشیائی ممالک سے سمگل ہونے والی عورتون کی منزل ہے۔ ان میں سے کچھ عورتوں کو جنسی کاروبار میں استعمال بھی کیا جا تا ہے ۔ غیر جانبدار تحقیق رپورٹس میں 2001ء کے بعد نیوزی لینڈ میں نما یا ں طور پر انسانی سمگلنگ کا جرم نہیں پھیل سکا ۔ اکادکا واقعات رونما ضرور ہوئے جن کا اس سے قبل ذکر کیا گیا ہے ۔ کچھ رپورٹس میں ایشیا ئی چیک جمہوریہ اور برازیلی جسم فروش عورتوں کے ساتھ زیادتی کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو غیر قانو نی طو رپر اس دھندے میں ملوث ہیں ۔ ’’جسم فروشی کے قانون کی نظر ثانی کمیٹی ‘ کے ایک انداز ے کے مطابق 18سال سے کم عمر بچوں جن کی تعداد 2سو کے لگ بھگ ہے جسم فروشی میں ملوث ہیں۔ یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہ اعدا دو شمار 2004ء کی سالانہ رپورٹ میں بھی بیان کیے گئے ہیں ۔ مو ریز باشندوں نے 2003ء میں آک لینڈ کی بندر گا ہ پر کام کرنے والی سینکڑوں کم عمر غیر ملکی لڑکیو ں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جس پر بہت جلد حکومت نے قابو پا لیا ۔ ان واقعات کو پورے 5بر س تک دہرایا گیا ۔ لیکن مجمو عی طو رپر نیوزی لینڈ میں بیرونی اور اندرونی انسانی سمگلنگ کی صو رتحال تسلی بخش ہے ۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 33 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حکومتی اقداما ت
نیوزی لینڈ کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے انسانی سمگلنگ کے خاتمے کے لیے مطلو بہ اقدامات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور اس جرم کے شکا ر افراد کو مکمل تحفظ دینے پر سر کل 1میں رکھا ہو ا ہے۔ سر کاری افسران کے اس جرم میں ملوث ہونے کے قطعی شواہد سامنے نہیں آسکے اور نہ ہی کو ئی اہل کا ر ا س میں ملوث ہے۔ نیوزی لینڈ میں سمگلر ز کے خلاف قانونی کا رروائی کرنے کے لیے ایک سے زیادہ قوانین استعمال کیے جا تے ہیں 1961ء کے کر ائم ایکٹ کے 5ویں حصے میں جنسی مقاصد اور جبری مشقت کے لیے انسان کو سمگل کرنا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اسی طر ح دیگر قوانین مقامی باشندوں کو سیکس ٹو رازم سے منع کر تے ہیں اور بچوں کے جنسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی سز ا 20سال قید مقرر کی گئی ہے۔ نیوزی لینڈ میں جبری مشقت اور غلامی کے متعلق قوانین اور ’’جسم فروشی کی اصلاح کا ایکٹ ‘‘اند رون ملک سمگلنگ کو جرم قرار دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت انسا نی سمگلنگ کے خلاف لڑنے کے لیے اس جرم کے خلاف عوام کی مد د سے کا روائی کے منصو بے بنانے میں مصر وف ہے۔
عدالتی کا رروائی اور حکومتی اقدامات
نیوزی لینڈ میں 2006ء میں آٹھ افراد کے خلاف 18سال سے کم عمر بچوں کے جنسی استحصال کے جرم میں جسم فروشی کی اصلا حا ت کے ایکٹ کے تحت مقد مہ چلاگیا او ران پر فرد جرم عائد کی گئی ۔ اس کے علا وہ تین قحبہ خانہ چلانے والے اور ایک گاہک کے خلاف مقدمہ بنا یا گیا اور ان کو سزا سنائی گئی ۔ اس مقدمہ میں گاہک کو 2سال قید کی سز ا سنا ئی گئی اور ایک آپر یٹر کو 3سو گھنٹے کمیونٹی خدمات سر انجا م دینے کی سز ا دی گئی ۔ دوسرے آپریٹر کو 21ماہ کی قید کی سزا دی گئی۔ ا س سے معلوم ہو تا ہے کہ نیوزی لینڈ میں انسانی سمگلنگ کا جرم بہت ہی کم وقوع پذیر ہو تا ہے ۔ اس کے مقابلے میں ایشیا ئی ممالک میں سمگلر ز اور ایجنٹ ما فیاز کے ارکان سے جیلیں بھری ہوئی ہیں اور لا کھوں کی تعداد میں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ نیوزی لینڈ کی حکومت نہ صر ف مقامی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی انسانی سمگلنگ کے خلاف جنگ جاری رکھے ہو ئے ہے۔ وہ سیا حت میں بچوں کی جنسی مقاصد کے حوالے سے شمولیت کے متعلق کئی ایک آگاہی پر وگرام کے لیے فنڈ ز مہیا کر چکی ہے۔ یہ ان ممالک میں جہا ں سے افراد کو سمگل کیا جا تا ہے اس جرم کی روک تھام کے لیے اپنے ادارے ’’نیوزی لینڈ انٹر نیشنل ایڈ اینڈ ڈویلپمنٹ ایجنسی ‘‘ کے ذریعے فنڈز مہیا کر تی ہے ۔ امر یکی اسٹیٹ ڈیپا رٹمنٹ نے نیوزی لینڈ کے لیے اپنی سفارشات مر تب کر تے ہوئے اس پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں قائم قحبہ خانوں اور ان میں غیر ملکی کام کرنے والی عورتوں کے متعلق حقائق جمع کر نے کے لیے سو ل سوسائٹی کے مد د حاصل کر ے اور اس جرم میں ملوث افراد خصو صاًایسے افراد جو بچوں کو سیکس انڈسٹری میں لا کر مالی فوائد حاصل کر تے ہیں ،کے خلاف کا رروائی کر کے ان کو سخت سزائیں دلوانے کے قانونی طریقہ کار کوموثر اور یقینی بنائے۔
براعظم افریقہ میں انسانی سمگلنگ
براعظم افریقہ دنیا کا دوسرا بڑابر اعظم ہے۔ اس کی آبادی اور رقبہ بھی ایشیاء کے بعد سب سے زیادہ ہے ۔ یہ براعظم 30.2ملین مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے جس میں چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی واقع ہیں ۔ اس کی آبادی ایک ارب22لاکھ افراد تک پہنچ چکی ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 14.72فیصد حصہ ہے ۔ آبادی میں اضافہ گذشتہ 60بر سو ں میں تیز ی کے ساتھ ہواہے۔ براعظم افریقہ کا زیادہ تر علاقہ ریگستان اور بے آب و گیا ہ صحراپر مشتمل ہے جو پانی کی شدید قلت کے باعث زراعت کو ترقی نہیں دے سکا ۔ اس میں 54 آزاد اور خود مختار ریاستیں جبکہ 9آزاد علاقے شامل ہیں ۔ تین ریاستوں کو ابھی تک مکمل خو د مختار ی حاصل نہیں ہو سکی ۔ جغرافیائی طور پر افریقہ کے شمال میں بحیرہ عرب اور نہر سویز اور شمال مشرق میں سرخ سمندر (Red Sea )واقع ہے ۔ براعظم افریقہ جنوب مشرق میں بحیرہ ہند اور مغرب کی طرف سے بحیر ہ اٹلانٹک میں گھرہوا ہے ۔
براعظم افریقہ میں انسانی سمگلنگ کی صورتحال
ماضی میں اگرچہ تمام دنیا میں انسانوں کی خرید و فروخت کا رواج رہا ہے جس میں افریقی غلاموں کو ایک خاص اہمیت دی جاتی تھی ۔ افریقہ میں عصرِ حاضر میں بھی حالات تبدیل نہیں ہوئے ، بلکہ آج صورت حال زیادہ گھمبیر ہے جس میں وہا ں کے معاشی و سیاسی حالات کا زیادہ عمل دخل ہے ۔ بر اعظم افریقہ میں اندرونی اور بیرونی سطح پر انسانوں کی سمگلنگ او ر خرید و فروخت جاری ہے ۔ ایشیا ء کی طرح افریقہ میں بھی انسانوں کا کاروبا ر کیا جاتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق آج لاکھوں افراد جبری مشقت کرنے پر مجبو رہیں ۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ ’’ماریو‘‘کا کہنا ہے کہ ’’دنیا میں انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کی صیح تعداد کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ بحر حال یہ ایک جرم ہے جس سے ہم سب شرمندہ ہیں ۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ دنیا میں ہر سال کتنے افراد سمگل ہوتے ہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس سے کتنے لوگ متاثر ہوتے ہیں ؟ ۔اور وہ کون لوگ ہیں‘‘ ؟۔ اس فعل کو جدید ددورکی غلامی کہا جائے یا وسائل کی غیر متوازی تقسیم ۔ یہ انسانی روئیے کے اس بے رحم پہلو کی عکاسی کرتا ہے جو اپنے ہی ہم جنسوں کا استحصال کرکے تسکین حاصل کرتا ہے ۔ تعجب کی بات ہے کہ دنیا کی خوبصورتی میں جن لوگوں نے زیادہ محنت کی اور اپنے اوپر جبر برداشت کیا ان کو ہی اس کی بد صورتی کا الزام دیا جاتا ہے۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں