انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 33
ترقی پسند سماجی قانون سازی میں نیوزی لینڈ کو اول درجہ حاصل ہے ۔ یہ پہلا ملک تھا جس نے سب سے پہلے (1883) عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا ۔ سو شل سیکورٹی کا ایک جامع نظام 1898ء میں بوڑھو ں کو پینشن دینے کے قانون کے پاس ہونے پر وجود میں آیا ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں نیوزی لینڈ نے اتحاد ی افواج کا ساتھ دیا جن کی کمانڈ بر طانیہ کے ہا تھ میں تھی ۔ اس نے کو رین جنگ میں امریکی افواج کی مدد کے لیے فوج بھی بھیجی ۔ 1960ء میں امریکہ و یتنام جنگ میں وہ امریکہ کا ساتھی بنا اور اس کی ہر ممکن مدد کی ۔ 1951ء میں نیوزی لینڈ نے امریکہ اور آسٹریلیا کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کیا لیکن یہ معاہدہ 1986ء میں اس وقت ختم ہو اجب ڈیوڈ جیمز کی لیبر پارٹی کی حکومت نے ہتھیا روں سے بھرے امریکی بحری جہازوں کو اپنی بند گاہو ں میں داخل ہونے سے روک دیا ۔ 1997ء میں جینی شپلی جو نیشنل پارٹی کی سر براہ تھی نے حکومت بنائی اور نیوزی لینڈ کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہو ئیں جس کی حکومت 1990ء تک قائم رہی۔ اس کے بعد لیبر پارٹی کو دو دفعہ حکومت بنانے کا مو قع ملا لیکن یہ مخلوط حکومت کہلائی جس میں دیگر چھوٹی پا رٹیو ں کے ساتھ الحاق کر نا پڑا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نیوزی لینڈ کے مو ریز باشندوں نے ساحلی علاقوں کو اپنے استعمال میں رکھنے کے لیے عدالت میں پٹینشن دائر کی جس کا فیصلہ ان کے حق میں ہو گیا ۔ حکومت نے پا ر لیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے ان علاقوں کو قومیانے کا قانون پا س کرانے کی کوشش کی جسے مو ریز ارکان نے نا کام بنا دیا اور اپنی سیاسی جماعت قائم کر لی ۔ اس طر ح لیبر پارٹی کے خلاف مو ریز ایک اہم مخالف فریق کے طور پر سامنے آئے ۔ اس کے نتیجے میں لیبر پارٹی کو اینٹی ایمگریشن نیوزی لینڈ فرسٹ پا رٹی ، جیسی جماعتوں سے الحاق کرنا پڑا ۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نیوزی لینڈ درجنوں جزیروں پر مشتمل ملک ہے جسم کی آبادی صر ف ساڑھے چا ر ملین یعنی 45 لاکھ کے قریب ہے۔ اس کا رقبہ 270,534 مر بع کلو میٹر پر محیط ہے ۔ یہ جنوبی پیسفک سمندر سے آسٹریلیا کے ساتھ 1600کلو میٹر لمبی سر حد کے ساتھ جڑا ہو ا ہے ۔ دارلخافہ والنگٹن اور سب سے بڑا شہر مشہور بندرگاہ آک لینڈ ہے ۔ معیشت میں زراعت ایک اہم اور روایتی ذریعہ ہے ۔ آج کل اگر چہ ٹو ٹل آبادی کا 10فیصد اس سے وابستہ ہے اور سماجی خدمات اور صنعت کا جی ڈی پی میں سب سے زیادہ حصہ ہے۔ آج یہ گوشت ، اون ،مکھن اور پنیر درآمد کرنے والا ایک بڑا ملک بن چکا ہے ۔ شروع میں نیوزی لینڈ نے اپنے ملک کو صرف گوروں کا ملک بر قرار رکھنے کی پالیسی اپنائی لیکن بعد ازاں اس نے کئی جزیروں سے لوگوں کو اپنے ملک آنے کی اجازت دیدی ۔آجً دنیا کے سینکڑ وں ممالک کے لو گ نیوزی لینڈ میں روز گا ر سے وابستہ ہیں ۔ نیوزی لینڈ میں انسانی سمگلنگ کے متعلق سوسان گلیز بروک نے 2004ء میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک رپورٹ مر تب کی جو متنا ز ع قرار دی جاچکی ہے ۔
ا س رپور ٹ کے متعلق نیوزی لینڈ میں کئی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ اس رپورٹ میں مذ کو ر اعدادو شمار کا مختصر ذکر ذیل میں بیان کیا گیا ہے۔ جسٹس سوسان کے مطابق انسانی سمگلنگ کے ذمہ دار وہ افراد یا ممالک ہیں جو منڈیو ں کے بین الاقوامی پھیلاؤ میں اضافہ کر تے ہیں ۔ ان کے مطابق دنیا میں صر ف جسم فروشوں کے استحصال سے 27.8 ملین ڈالر سالانہ کما ئے جاتے ہیں ۔ اس دھندے کے لیے سمگل ہونے والوں میں 80فیصد عورتیں اور لڑکیا ں شامل ہو تی ہیں ۔ اس جرم کے شکار افراد سمگلر ز اور مافیا ز کے زیر اثر ہو تے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ ایک ایسا ملک ہے جو ہانگ کانگ ، تھائی لینڈ ، تائیوان ، چین ، مشرقی یو رپین ممالک جبکہ جمہو ریہ اور ایشیا ئی مما لک سے سمگل کی جانے والی عورتوں کی منزل ہے۔ ایسی عورتوں کو جبری جسم فروشی کے لیے یہاں لایا جا تا ہے۔ کچھ ایشیائی عورتیں رضاکارانہ طو رپر ینوزی لینڈ کے سرکاری قحبہ خانوں میں ’’کام ‘‘کرنے کے لیے آتی ہیں ۔ ایسی عورتیں سمگلرز کے رحم و کرم پر ہو تی ہیں ان کو جیل بھیجنے یا وطن واپسی کا خو ف دلا کر بلیک میل کیا جا تا ہے۔ نیوزی لینڈ میں سر کا ری سر پر ستی میں چلنے والے جسم فروشی کے اڈے سمگلنگ کا سب سے اہم عنصر تصور کیے جاتے ہیں ۔ رپورٹ میں حکومت پر الزام لگایا گیا ہے کہ اگر یہ اڈے نہ ہوں جن میں عورتیں اپنی مر ضی سے آتی ہیں تو جسم فروشی کے متعلق قانون ساز ی یا حکومتی پر وگرام تر تیب دئیے جا سکتے ہیں ۔
سر کا ری اقدامات کے نفاذ اور احتیاطی تدابیر کے نفاذ میں حکومت خو د ہی رکاوٹ بنی ہو ئی ہے ۔ عوام میں یہ مو ضو ع زیر بحث ہے کہ سر کا ری اور غیر سر کاری جسم فروشی کے مراکز ہی دراصل نیوزی لینڈ میں انسانی سمگلنگ کا سبب بنے ہو ئے ہیں ۔ مقامی ما ہرین کا مو قف ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی سیا حوں کی ملک میں مو جو د گی اور جسم فروشی کا آپس میں تعلق ہی کچھ جرائم کا با عث بنتا ہے ۔ وہ اس کو 2001ء میں نیوزی لینڈ میں ہونے والے رگبی ورلڈ کپ کی مثال سے واضح کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ 2001ء میں سمگلر ز نے غیر ملکی تما شائیوں اور سیاحو ں نے غیر قانونی طو رپر ملک میں داخل ہونے والوں کی شنا خت میں رکاوٹ ڈالی تھی ۔ اگر چہ پو لیس نے اس دوران بڑی جا نفشانی اور سر گرمی کا مظاہر ہ کیا لیکن پھر بھی کچھ لو گ اس کی نظروں سے بچنے میں کا میا ب ہو گئے ۔ جسٹس سو سان گلیز بروک نے دو واقعات کا حوالہ بھی اپنی رپورٹ میں دیا جس میں تھائی عورتیں گرفتا ر ی سے قبل اپنے ملک واپس جانے میں کا میا ب ہو ئیں ۔ رپورٹ کے مطابق ایک تھائی عو رت نے چند دیگر عورتوں کے ساتھ مل کر ’’با رڈر انوسٹٹیگیشن گروپ‘‘جو نیوزی لینڈ ایمگر یشن کاایک ذیلی ادارہ ہے سے رابطہ کیا اور نیوزی لینڈ جانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ ان عورتوں کو مذکو رہ ادارے کے اہل کا روں نے بتا یا کہ اگر وہ 10ہزار نیوزی ڈالر ادا کر یں تو ان کو آک لینڈ کے ایک ریسٹوران میں ملازمت مل سکتی ہے ۔ ان عورتوں نے تھائی لینڈ میں ایک ریکرو ئنگ ایجنٹ کو 36 فیصد سو د پر رقم کی ادائیگی کر دی ۔ جب یہ عورتیں نیوزی لینڈ کی ائیرپورٹ سے باہر نکلیں تو ان سے پا سپورٹ اور رقم لے لی گئے ۔ ان کو ایک ایسے مکان میں لے جا یا گیا جہاں پہلے ہی 14 تھائی عورتیں رہائش پذیر تھیں ۔ ان عورتوں کو ایک کمرے میں سلایا گیا۔ جس میں 6عورتیں بمشکل سوسکتی تھیں ۔ اس مکان کا کل کر ایہ 450 ڈالر فی ہفتہ ادا کیا جا تا تھا جبکہ سمگلر ان سے فی عورت 150ڈالر فی ہفتہ فی عورت وصول کرتے تھے ۔ ان کو دن کے ایک بجے اس مکان سے قحبہ خانے لے جا یا جا تا اور رات تین بجے واپس چھوڑ دیا جا تا ۔ یہ عورتیں جتنے پیسے کما تی تھیں اضافی قر ض کے نا م پر ان سے لے لیے جا تے تھے ۔ ان کے واپسی کے ٹکٹ بھی سمگلر ز نے چھین لیے تھے اور ان کے پاس پیسے نہ ہو تے تھے کہ وہ با ہر نکل کر کسی اہل کار سے رابطہ کر سکیں ۔ ایک دن ا ن میں سے ایک عورت ایمگریشن حکام سے شکایت کر نے میں کامیاب ہو گئی۔ ایمگر یشن والے وارنٹ لے کر پولیس کے ہمراہ مطلوبہ مکان پر پہنچے تو معلوم ہو ا کہ دو دن قبل عورتوں کو نہ صرف مکان سے منتقل کر دیا گیا بلکہ ان کو واپس تھائی لینڈ بھیج دیا گیا تھا ۔ قحبہ خانے کے مالکوں سمیت کسی کے خلاف مقدمہ درج نہ کیا گیا ۔ پو لیس کا خیال تھا کہ ان عورتوں کو اضافی قر ض یا کسی دیگر غیر قانونی رکاوٹ کا سامنا نہ تھا جس سے وہ ان کو قحبہ خانے آنے یا جانے سے رو ک سکتی تھی ۔ لہذا ان پر مقدمہ چلانے کا کو ئی جواز نہ تھا ۔ جسٹس سوسان کا کہنا تھا کہ پولیس غلط مو قف اختیار کیے ہو ئے تھی ۔ پولیس کو ان افراد کے خلاف جو ان عورتوں کو ور غلا کر نیوزی لینڈ لا ئے تھے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے قانون میں ترمیم کرنے کی ہر گز ضرورت نہ تھی۔ نیوزی لینڈ کے قانون کے مطابق ہی ان پر فراڈ ،دھوکہ دہی،اغواء اور رقم کی چوری کے جرائم کے تحت مقدمات قائم ہو سکتے تھے ۔ پولیس کی غفلت سے اس واقعہ کے گواہ یعنی تھائی عورتیں بھی مو قع سے فرار ہو چکی تھیں جو اہم ثبو ت فراہم کر سکتی تھیں ۔
اس طرح رپورٹ میں ایک دوسرے واقعہ کا حوالہ دیا گیا جس میں ایک سیکس ور کر نے نیوزی لینڈ کی عدالت ’’Dis puets Triunal ‘‘ میں دیوانی مقد مہ دائر کر کے سمگلر سے رقم واپس حاصل کی ۔ نیوزی لینڈ میںیہ اپنی نو عیت کا پہلا واقعہ تھا جس میں کسی سمگلر سے رقم واپس لی گئی۔ اپنی رپورٹ میں جسٹس سو سان نے مزید کہا کہ نظام عدل کے اہل کاروں کو سمگلر ز اور سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کے رویے اور سر گرمیوں سے لا تعلق نہیں رہنا چاہیے ۔ ان کے مقامی قوانین میں ان افراد کو سز ا دینے کی گنجائش مو جو د تھی جو تھائی عورتوں کو سمگل کر کے یہا ں لا ئے اور پھر ان کو تھائی لینڈ بھیجنے میں کا میا ب ہو گئے ۔ ایمگر یشن اور محکمہ پو لیس کا آپس میں رابطے کے فقدان کی وجہ سے یہ واقعہ قانون کی گر فت میں نہ لا یا جا سکا ۔
نیوزی لینڈ حکومت نے امر یکی اسٹیٹ ڈیپا رٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ 2004 ء اور 2005ء کو مستر د کر تے ہوئے مو قف اختیا ر کیا کہ یہ جھوٹ اور بے بنیا د الزاما ت کا پلندہ ہے ۔ امور خارجہ کے تر جمان ونسٹن پیٹر اور بچوں کے حقوق کے کمشنر بھی ان الزاما ت کو مستر د کر چکے ہیں ۔ نیوزی لینڈ میں اس رپورٹ کے ردِعمل میں امر یکی اسٹیٹ ڈیپا رٹمنٹ سے رابطہ بھی کیا گیا ۔ دراصل امریکہ نیوزی لینڈ میں الجبرین با شندے احمد زاوز کی پنا ہ لینے کے خلاف تھا ۔ ا س نے آک لینڈ میں ایک ٹین ایجر لائم اپشلے کی پو لیس حراست میں مو ت اور آک لینڈمیں زیر سماعت پولیس زیادتی کے واقعہ کو بنیا دبنا کر تین سالوں تک نیوزی لینڈ کو پر یشان کیے رکھا ۔ نیوزی لینڈ میں انسانی سمگلنگ کی صورتحال ، حکومتی اقداما ت ، اس جرم کے شکا ر افراد کے تحفظ او رسرکاری شعبوں کی کا ر کرد گی کے متعلق ذیل میں مختصر طو رپر ایک جا ئزہ پیش کیا گیا ہے جس سے وہا ں کے حالات مزید واضح ہو جائیں گے۔ (جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 34 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں