انتخابی مہم شائستہ اور آزادانہ منصفانہ انتخابات
ایک سابق وفاقی وزیر چودھری برجیس طاہر ایم این اے نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے سخت فیصلے ہمارے رویوں کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے آئی ایم ایف کو غلط اعداد و شمار پیش کر کے گمراہ کیا جس کا برا منایا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہر کام کا عدالتوں سے ریلیف لینا جمہوری نظام کا فیل ہوتا ہے اور جمہوریت کے لئے عوام کے فیصلے عوامی فورم پر ہونا چاہئیں اگر کسی اور طرف دیکھا گیا تو یہ جمہوری نظام کے لئے بہتر نہیں ہوگا۔ جمہوری اقدار کے حامی سیاسی بیانات آئے روز جاری کرتے رہتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس طرز عمل سے کسی اور سمت دیکھ کر ان کو مداخلت کی دعوت دینے کا وتیرہ اپنانے والے رہنماؤں اور نمائندوں کو اپنی اس غیر جمہوری روش کو ہمیشہ کے لئے ترک کرنے کا پختہ عزم کرنا ہوگا کہ اکثر و بیشتر سیاسی نمائندوں اور غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ وطن عزیز میں معاشی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے اہداف، جمہوری نمائندوں کی محنت و دیانت پر مبنی کارکردگی کی بنا پر ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ اگر ملک میں کسی سطح کے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ کرانے کا کوئی قابل اعتماد اور شفاف طریقہ طے کر لیا جائے تو جمہوری نظام کے تحت مقتدر لوگوں کی کارکردگی سے متعلقہ علاقوں کے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں خاصی پیش رفت ہو سکتی ہے مگر بدقسمتی سے یہاں تا حال آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد اور شکست خوردہ امیدواروں کی جانب سے ان کے نتائج تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں ہو سکا۔ کیونکہ انتخابی نتائج میں ہارنے والے کئی امیدوار حضرات الیکشن کمیشن اور برسر اقتدار حکومت کی کارکردگی پر جانبدارنہ حربوں کو بروئے کار لا کر حتی الوسع دھونس دھاندلی اور بد دیانتی کے الزامات عائد کرتے ہیں بدقسمتی سے یہ روایت یہاں سالہا سال سے جاری ہے حالانکہ انتخابی سلسلہ نصف صدی سے زائد عرصہ ہو گیا ہے۔ سندھ 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کی مثال سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کہ وہاں انتخابات سے قبل ایم کیو ایم نے اپنے مختلف منتشر دھڑوں کو متحد کر کے اجلاس و اجتماعات منعقد کئے لیکن انہوں نے حلقہ بندیوں کی تقسیم پر الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام کو ذمہ دار قرار دے کر انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔
بلدیاتی انتخابات کو کئی روز گزرنے کے باوجود نتائج کو دھونس اور دھاندلی زدہ قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہیں۔ اب وہ الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہو کر اس ادارے کے فیصلے کی منتظر ہیں۔ سطور بالا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وطن عزیز میں تا حال ایسے انتخابی نتائج کا غیر جانبدارانہ معیار نہیں بن سکا کہ ان نتائج کو انتخابی امیدوار منصفانہ تسلیم کرنے پر رضا مند ہو جائیں۔ یہ روایت یا روش ایک افسوس ناک اور پریشان کن رجحان ہے اس بارے میں سیاسی رہنماؤں کو خلوص نیت سے انتخابی غلطیوں اور خامیوں سے پاک اور مبرا انتخابات کے لئے مثبت تجاویز و اصلاحات کے ذریعے قابل اعتماد لائحہ عمل منظر عام پر لانا چاہئے۔ جب حریف نمائندوں پر عدالتوں میں مقدمہ بازی کی نوبت آ جائے تو پھر فیصلوں تک پہنچنے کے لئے عدالتی کارروائی میں مہینوں اور بعض اوقات سالوں بھی لگ جاتے ہیں۔ منصفانہ انتخابات کے نتائج کے بارے میں ہمسایہ ملک بھارت سے کچھ سبق لیا جا سکتا ہے جہاں پارلیمینٹ کے انتخابات مختلف ریاستوں میں تقریباً ایک ہفتہ کے وفقوں کے بعد ہوتے ہیں لیکن نتائج کا اعلان آخری انتخابات کے مرحلہ کے چند روز بعد ایک ساتھ کر دیا جاتا ہے اور ان نتائج کو امیدوار حضرات درست اور صحیح جان کر عموماً تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس لحاظ سے بھارتی کارکردگی کو یہاں بھی آزمانے کی سعی کرنے سے بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں تو یہ معاملہ کسی بڑے سیاسی فورم پر زیر غور لا کر جلد کوئی فیصلہ کر کے اعلان کر دیا جائے نقائص کی درستی کے لئے ہمیشہ ذہن کھلا رکھنا چاہئے۔
غیر جمہوری اور غیر سیاسی عناصر کی سیاست میں مداخلت روکنے کا تقاضا یہ ہے کہ انتخابات کا عمل آزادانہ اور منصفانہ بنانے کے لئے انتخابی اصلاحات کے نفاذ میں مزید کوئی تاخیر نہ کی جائے۔ بڑی سیاسی جماعتیں جلد مشترکہ طور پر یا الگ حیثیت میں اس فیصلہ کا اعلان کریں کہ کوئی جماعت یا اتحاد غیر جمہوری عناصر کو اس میدان میں مداخلت کی دعوت اور اجازت نہیں دے گی اگر ایسی کوئی مہم جوئی کی گئی تو تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر اس غیر جمہوری کارروائی کو ناکام بنانے کی کوشش کے علاوہ اس کی مہذب انداز میں حوصلہ شکنی کریں گی امید ہے کہ اس طرح جمہوری نظام حکومت تسلسل سے جاری رکھنے میں خاصی مدد ملے گی۔
معیشت کی بہتری کے لئے ملک بھر کے لوگوں کو ضرورت کی اہمیت و افادیت کو مد نظر رکھ کر خلوص نیت سے اپنے شعبوں میں محنت، دیانت اور کفایت شعاری کے اصولوں کی پاسداری کر کے اپنی ماہانہ کارکردگی اور آمدنی میں 50 فیصد اضافہ کرنا ہوگا، حکومت کو زراعت، صنعت اور تجارت کی بہتری پیداوار اور ان کی برآمدات بڑھانے کے لئے ممکنہ سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔ وزراء مشیروں اور معاونین کی تعداد اور مراعات میں بھی 50 فیصد کمی کی جائے بجلی اور گیس کے استعمال میں بھی احتیاط کر کے غیر ضروری نقصان سے گریز کیا جائے۔ مصنوعی مہنگائی پر قابو پانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے تو اس بارے میں وفاقی حکومت بھی مشاورت کی ضروری ہدایات جاری کرتی رہے۔ ایک وفاقی وزیر کا حالیہ بیان یہ ہے کہ تھوک اور پرچون کی قیمتوں میں 40 سے 50 فیصد تک فرق ہوتا ہے اس طرح مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کر کے عوام کو تقریباً 20 فیصد کمی سے کچھ ریلیف دینے کی کارکردگی موثر اور قابل عمل بنانے پر توجہ دی جائے۔