بلاول بھٹو آزاد ہو گئے؟

 بلاول بھٹو آزاد ہو گئے؟
 بلاول بھٹو آزاد ہو گئے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیانے تو سیانے ہی تھے اور ان کا کہا بھی درست ہوتا اور آج بھی سچ ہے، انہیں میں سے ایک سیانے نے کہا تھا اگر گڑ (میٹھا) دینے سے کام بن جائے تواس سے بہتر کچھ نہیں۔ اس لئے قیمتی شے کا خرچ بچا لینا چاہئے، ہماری سیاست میں بھی جو لوگ یہ نسخہ استعمال کرتے ہیں خوش رہتے ہیں۔ آج کے اس دور کی مثال ملک میں جاری صدارتی انتخابات ہیں، رائے شمار ی کا عمل جاری ہے اور اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق آصف علی زرداری بڑی اکثریت سے منتخب ہو جائیں گے اور یوں وہ دوسری بار یہ اعزاز حاصل کر لیں گے۔ تمام تر رکاوٹوں، احتجاج اور اعتراض کے بعد بہر حال یہ عمل مکمل ہونے کو ہے آج (ہفتہ) کے مرحلے کے بعد سینٹ کے انتخابات کی باری آئے گی اور پھر معمول شروع ہو جائے گا حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماسوا خیبرپختونخوا باقی تینوں صوبوں میں اتحادی ہی برسر اقتدار ہیں اور وفاق کے بعد اب سینٹ میں بھی اکثریت حاصل کر لیں گے توقع ہے کہ حزب اختلاف کے مزاج میں بھی فرق آئے گا اور جو اب احتجاج کے طور پر جمہوری عمل میں حصہ لے رہے ہیں وہ بھی اپنے جوش پر قابو پا کر ہوش کا رویہ اختیار کریں گے اور ایسا ماحول بن جائے گا جس کے باعث ملک کی معیشت سنبھل سکے کیونکہ اس کے لئے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے یہ ممکن تھا اور ہے لیکن تحریک انصاف اپنی شکایات کے حوالے سے برہم ہے اور جس قومی اتفاق رائے کی حقیقی ضروت ہے اس کے لئے سب فریقوں کے درمیان خوشگوار تعلقات ہونا ضروری ہیں، اس لئے بہتر عمل تو یہ ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود سب ہی مل بیٹھ کر ملکی معیشت کو سنبھالنے اور عوامی بہبود کے لئے غور کریں اور حالات کو درست کرنے کی غرض سے درست کو درست کہیں اور اصلاح کی ضرورت کے لئے تنقید کریں تحریک انصاف والوں نے جمہوری عمل میں حصہ لیا ہے تو اس عمل کا احترام کیا جانا چاہئے اور ممکن حد تک ان کی جائیز شکایات دور کی جانا چاہئیں۔ اس کے لئے حزبِ اقتدار کو ایک قدم پہلے بڑھانا پڑے تو حرج نہیں۔ تحریک انصاف والے حضرات کو بھی اب اپنے عمل پر غور کر کے نئی حکمت عملی بنانا چاہئے کہ کہتے ہیں۔جب آپ سے کچھ ہوا نہیں اور عمل جاری ہو کر تکمیل پذیر ہونے کو ہے تو اور کیا ہو گا اس لئے جمہوری عمل اور جدوجہد جاری رکھیں۔ تاہم کام چلنے دیں کہ اسی میں سب کی بھلائی ہے تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیں۔

بات میٹھے سے شروع کی تو اس طرف نکل گئی بلاول بھٹو زرداری کو ہم پیشگی مبارک باد دیتے ہیں کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہونے جا رہے ہیں۔ ان کے والد (ماشاءاللہ) صدر منتخب ہو کر ایوان صدر میں منتقل ہو جائیں گے اور ان کے انتخاب سے ایک اور نئے دور کا آغاز ہوگا جس میں وہ حکومت اور ریاست کے درمیان پل کا کام دیں گے اور ان کی مفاہمانہ سیاست ملکی مفاد کے لئے بہتر ثابت ہو گی اور وہ بزرگانہ کردار ادا کر سکیں گے۔

اب ذرا پیپلزپارٹی اور اس کے نوجوان قائد بلاول بھٹو کی بات کر لیں کہ وہ جو چاہتے تھے ان کو حاصل ہو گیا اور اب وہ مکمل طور پر جماعت کو اپنے ویژن اور خیال کے مطابق چلا سکیں گے کہ صدارتی انتخاب مکمل ہوا آصف علی زرداری ایوان صدر میں مقیم (مقید) ہو جائیں گے اور بلاول آزاد ہو کر سیاست کریں گے۔ آصفہ ان کی معاون ہوں گی۔ ابھی تک تو آصف علی زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین کے مدار الہمام تھے اور ٹکٹ ان کے دستخطوں سے جاری ہوتے تھے۔ ملک کی صدارت کے بعد وہ پارٹی کے ان عہدوں سے مستعفی ہوں گے بلکہ پارٹی کی رکنیت چھوڑ کر غیر جانبدار ہوں گے اور یوں بلاول آزاد ہو کر پارٹی کے تمام امور سنبھالیں گے۔ ابھی تک تو ہر اجلاس کی مشترکہ صدارت ہوتی اور آخری ہدایت زرداری کی ہوتی کہ تجربہ والا سرخاب کا پر بھی تو لگا ہوا تھا۔ مخالف تو کسی اور انداز میں بات کریں گے، لیکن حقیقت مختلف ہے پالیسی کے حوالے سے باپ بیٹے کے درمیان سوچ کا تصادم ہوتے ہوئے بھی۔ فکری حد تک ہی اختلاف رہتا اور بلاول کو احترام کرنا پڑتا تھا۔ کئی مواقع آئے جب آصف علی زرداری کے بعض یکطرفہ فیصلے نا پسندیدہ قرار پائے، لیکن اختلاف کی نوبت نہیں آئی اور بلاول کو ایک سعادت مند بیٹے ہی کا کردار ادا کرنا پڑا۔

اب صورت حال مختلف ہو گی۔ گو سر پر بزرگ کا سایہ رہے گا لیکن بلاول پارٹی امور میں آزاد ہوں گے۔ پارٹی کے بعض خیر خواہوں کو یقین ہے کہ بلاول پارٹی کو اس کے اصلی منشور کے مطابق چلائیں گے اور قوت کا سرچشمہ عوام ہوں گے۔ جبکہ سوشلزم (مساوات) معیشتی نظام ہوگا۔ اس کے علاوہ پارٹی میں نوجوانوں کی آمد بھی ہو گی۔ اس سلسلے میں بے نظیر بھٹو کا ذکر برمحل ہوگا۔

ماضی میں جب پیپلزپارٹی بھٹو کی قیادت سے محروم ہوئی اور قیادت کا بوجھ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر آ گیا تو ایک وقت وہ آیا جب بے نظیر بھٹو بھی زرداری، بلاول والی صورت حال سے دو چار ہوئیں۔ پھر اس کا حل کرنے یا ان سے اختیارات منتقل کرنے کے لئے راستہ نکالا گیا اور اسلام آباد میں پارٹی کے ایک اجلاس میں محترمہ کو تا حیات چیئرپرسن قرار دے دیا گیا اس کے بعد محترمہ ہی سیاہ و سفید کی مالک ہوئیں اور چار کے ٹولے کا مقابلہ کر کے پارٹی پر گرفت مضبوط کی اس کے بعد پارٹی نے ترقی بھی کی۔ محترمہ تمام تر مسائل کے باوجود دو بار وزیر اعظم بنیں۔ اس طرز کے حوالے سے آج بھی اعتراض ہوتے ہیں، تاہم محترمہ حالات کا مقابلہ کرتی چلی گئیں اور ان کی شہادت کے باوجود پارٹی قائم رہی اور آج پھر اس پوزیشن میں ہے کہ آصف علی زرداری دوسری مرتبہ صدارت کا اعزاز حاصل کرنے جا رہے ہیں اور یہ عمل میٹھے سے ہوا، زہر کی ضرورت نہیں پڑی۔

بلاول بھٹو ذہین ہیں، تاہم کچھ روایات کے حامل بھی ہیں اور فطری طور پر جھگڑالو نہیں۔ بھائی، بہنوں میں بہت پیار ہے کہ محترمہ نے تینوں بچوں کی پرورش کی۔ بختاور تو شوہر اور بچوں والی ہو گئیں۔ تاہم آصفہ کا رجحان سیاست کی طرف ہے اور وہ والدہ کے نقش و قدم پر چلنا چاہتی ہیں۔ اس لئے یہ بہن بھائی یہ فریضہ مل کر انجام دے سکتے ہیں۔ گو بلاول کا رجحان سیاست کی طرف نہیں تھا لیکن اب وہ مکمل سیاست دان ہیں اس لئے بہتری کی توقع رکھیں ان کو بھی پارٹی میں نیا خون شامل کرنا اور نوجوانوں کو شامل کرنا ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -