ناکام کھلاری اور دورہ نیوزی لینڈ؟

   ناکام کھلاری اور دورہ نیوزی لینڈ؟
   ناکام کھلاری اور دورہ نیوزی لینڈ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پے درپے میچ ہارنے کے بعدہماری کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی نیم بے ہوشی کے عالم میں ہیں،انہوں نے سینئر کھلاڑیوں کے ہوتے ہوئے تمام میچوں میں بدترین شکست کھائی تو اب نا تجربہ کار اور بالکل نئے کھلاڑیوں کو نیوزی لینڈ بھیج کرملک اور عوام کو مزید بدنام کیا جائے گا۔؟ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی کرکٹ کے میدان میں اتنے خوش نظر نہیں آتے،جتنے وہ ٹی وی کی سکرین پر ایڈورٹائزمنٹ میں خوش دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے کہاجا سکتا ہے کہ وہ کرکٹر سے زیادہ اداکارہیں جن کو ہر مرتبہ کرکٹ ٹیم میں شامل کرکے پاکستانی قوم کے ساتھ زیادہ کی جاتی ہے۔بہت اچھا ہوتا کہ ان اداکاروں کو بہت پہلے ہی ٹیم سے نکال دیا جاتا لیکن پھر خیال آتا ہے کہ ان کے بعد ٹیم میں بچے گا کیا؟جو نہ پہلے کبھی کامیاب رہے ہیں اور نہ آئند ہ کبھی کارنامہ انجام  دے سکتے ہیں۔ہمارے بچوں کو قرآن پڑھانے کے لیے قاری محمد افضل صاحب تشریف لاتے ہیں،کالم لکھتے ہوئے مجھے دیکھ کر انہوں نے پنجابی زبان میں فرمایا کہ لودھی صاحب آپ میری جانب سے لکھ دیں کہ "جنے پہلے چھتر کھالے نئیں۔ اونے ہور چھتر کھان  لئی  نیوزی لینڈجارے نیں "۔(مطلب اپنے ملک میں کھیلتے ہوئے تو تم بری طرح ہار چکے ہو۔اب نیوزی لینڈ میں جا کر بھی کونسی توپ چلاؤ گے۔؟)۔"پھر انہوں نے مزید فرمایا کہ ٹیم پوری قوم کی نمائندگی کرتی ہے، جب کو ئی ٹیم شکست سے ہمکنار ہوتی ہے تو پوری قوم کے چہرے لٹک جاتے ہیں "۔ لیکن ٹیم کے کوچ عاقب جاوید فرما تے ہیں کہ شکست کی وجہ سے اگرپاکستانی قوم نڈھال ہے تو  ٹیم کے کھلاڑی بھی سخت نادم اوردل برداشتہ ہیں لیکن عاقب جاوید کی یہ بات اس وقت غلط ثابت ہوتی ہے جب نسیم شاہ پیپسی کولاکی ایڈورٹائزمنٹ میں چشمہ پہن کر قہقہے لگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ابھی نسیم شاہ کے قہقہے دیکھ کر میں پریشان ہوتا ہوں تو بابر اعظم کسی موبائل کمپنی کے اشتہار میں گردن ٹیڑھی کرکے مسکراتے ہوئے پوری قوم کے دل پر چھریاں چلاتے ہیں۔رہی سہی کسر شاہین شاہ آفریدی اپنے ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی کی تعریف کرکے غم سے نڈھال قوم کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ قومی ٹیم کے جوکھلاڑی بھی ایڈورٹائزمنٹ میں شریک ہوتے ہیں،ان کھلاڑیوں کو ہمیشہ کے لیے کرکٹ ٹیم سے نکال دینا چاہیئے۔جہاں تک نیوزی لینڈ کے دورے کا تعلق ہے۔ اس کو فی الحال یہ کہتے ہوئے ملتوی کردینا چاہیئے کہ ہماری ٹیم ابھی اس قابل نہیں ہے کہ انٹرنیشنل میچزکھیل سکے۔اس طرح چند ماہ کا التوا ء مانگ کر قومی سطح پر سکول، کالجز اور یونیورسٹی سطح پر کرکٹ ملک بھر میں میچزکا فوری طور پر انتظام کرنا چاہیئے۔ان میچز کے نتیجے میں جن نوجوان کھلاڑیوں میں قدرتی ٹیلنٹ نظر آئے،ان میں سے کھلاڑی منتخب کرکے تین چار ٹیمیں بنائی جائیں۔ ٹیسٹ ٹیم، ون ڈے ٹیم اور ٹی ٹوٹنٹی کی ٹیمیں بناکر ان کے آپس میں میچز کروائے جائیں۔ پھر ایک شہرکا مقابلہ دوسرے شہر کے منتخب کھلاڑیوں سے ہو توکچھ عرصے بعد جو نوجوان اور نئے کھلاڑی ابھر کر سامنے آئیں، انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہائی پرفارمنس کیمپ میں شامل کرلیاجائے۔ایک دوماہ ان کی خوب تربیت کرکے ان کے ٹینلٹ کو مزید نکھارا جائے۔باؤلنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ کوچ کرکٹ کے انٹرنیشنل رولز سے ان کو آشنا کریں۔ان کھلاڑیوں کو Bٹیم کے نام پر کھیلنے والے تمام ممالک کا دورہ کروا کر وہاں ان کے میچز ارینج کیے جائیں۔ پھر ان کو پاکستان پریمیئر سپر لیگ میں حصہ لینے والی ٹیموں میں شامل کرکے آپس میں میچز کروائے جائیں۔ان تمام میچزمیں جو فاسٹ باؤلر، بلے باز،وکٹ کیپر اور بہترین فیلڈر ابھر کر سامنے آئیں، ان کو قومی ٹیم میں شامل کر کے نیوزی لینڈ سمیت تما م انگلش ممالک میں میچز کھیلنے کے لیے بھیجا جائے۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان گھسے پٹے کھلاڑیوں کو (جو پہلے بھی ہزار بار ناکام ہوچکے ہیں) ہی اگر نیوزی لینڈ جانے والی ٹیم میں شامل کیا گیا تو وہاں ان کی اتنی چھترول ہوگی کہ پوری قوم کو کرکٹ سے مکمل طورپر نفرت ہوجائے گی بلکہ قوم یہ کہنے پر مجبور ہو گی کہ خدارا قومی خزانہ ان گھٹیا اور ناکام کھلاڑیوں پر خرچ نہ کیا جائے۔ اس سے تو بہتر ہے،کرکٹ سے ہی توبہ کرلی جائے۔کئی لوگ تو یہ بھی کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ چین، جاپان، فرانس،جرمنی اور امریکہ میں کرکٹ نہیں کھیلی جاتی۔ وہ ممالک پھر بھی  ترقی یافتہ  ہیں اور پوری دنیا میں ان کی عزت اور وقار محفوظ ہے۔ جو سرمایہ ناکام کھلاڑیوں اور  میچز پر خرچ کرنا ہے،وہی سرمایہ غریب عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے خرچ کردیا جائے۔ اگر مذکورہ بالا ممالک کرکٹ کے بغیر زندہ ہیں تو مرتے ہم بھی نہیں ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ کچھ وقت بین الاقوامی کرکٹ نہ کھیل کر ایک ایسی ٹیم تیارکی جائے جس کو کوئی دوسری ٹیم شکست نہ دے سکے۔اس طرح میچز پر خرچ ہونے والا سرمایہ بھی بچ جائے گا اور پاکستانی قوم کا وقت بھی ضائع نہیں ہوگا جو ریڈیو پر کمنٹری سننے اور ٹی وی پر میچ دیکھنے میں ضائع ہوتا ہے۔ آپ نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ،بھارت، آسٹریلیا کی ٹیموں کو دیکھ لیں، سب کے سب کھلاڑی  نوجوان اور باصلاحیت ہیں۔اگر ان کے ایک دو کھلاڑی آؤٹ ہو جاتے ہیں تو بعد میں آنے والے کھلاڑی میچ کو سنبھال کر کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ میری اس بات کی بہترین مثال بھارت اور آسٹریلیا کا میچ ہے۔ جب آسٹریلیانے بیٹنگ شروع کی تو ان کا انداز خاصا جارحانہ تھا، ڈیڑھ دو سو تک ان کے سکور کی شرح بہت زیادہ تھی توقع کی جارہی تھی کہ تین سوا تین سو سکور ہوگا لیکن جب میں نے دوبارہ ٹی وی آن کیا تو آؤٹ ہونے والے آسٹریلوی کھلاڑی کی تعداد بھی زیادہ ہوچکی تھی اور سکو ر کی رفتار بھی خاصی حدکم تھی۔کل سکور 264تک محدود ہوچکا تھا۔ میں سمجھتا ہوں یہ بھارتی باولروں کی نپی تلی باولنگ کا نتیجہ تھا۔ بیٹنگ کا آغاز تو بھارتی ٹیم کا بھی اچھا نہ تھا لیکن چوتھے نمبر پر بیٹنگ کے لیے آنے والے کوہلی (جسے بابر اعظم کے ہم پلہ قرار دیا جاتا ہے) نے نہ صرف صورت حال کو سنبھالا بلکہ ایسی شارٹ بھی کھیلیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص تالیاں بجانے پر مجبور ہوگیا۔انگلینڈ اور آسٹریلیا کا میچ بھی اس کی بہترین مثال بن سکتا ہے، جس میں انگلینڈ نے 352سکو ر کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا لیکن اگلے دن جب میں نے اخبار دیکھا تو آسٹریلوی ٹیم میچ جیت چکی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ خبر پڑھ کے میں حیران رہ گیا۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ ٹیسٹ،ون ڈے اور ٹی ٹوٹنٹی میچز کے تمام کھلاڑیوں پر ایڈورٹائزمنٹ میں حصہ لینے پر سختی سے پابندی لگنی چاہیئے ۔

مزید :

رائے -کالم -