سپر سیڈ جج، سپر سیڈ فوجی افسر، ممکنہ آئینی بحران

     سپر سیڈ جج، سپر سیڈ فوجی افسر، ممکنہ آئینی بحران
     سپر سیڈ جج، سپر سیڈ فوجی افسر، ممکنہ آئینی بحران

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جناب چیف جسٹس صاحب، آپ کی اس مروت کے سہارے چل چکی عدلیہ! لیکن پہلے کچھ اور۔ گزشتہ ہفتے ججوں کے غیر ملکی دورے پر لکھا تو پروفیسر امان نے لکھا: "شام بھائی کیا یاد کروا دیا ہے"؟ وہ ہمارے گروپ لیڈر تھے۔ پوچھا:؛ "امان بھائی، کوئی خلاف واقعہ چیز تو نہیں لکھی؟" جواب آیا: "بالکل بھی نہیں ". پروفیسر طاہر منصوری بھی ایک دفعہ ججوں کے گروپ لیڈر بنے تھے۔ کالم پڑھ کر فون پر بولے: "لاجواب ظرف ہے کہ پھر بھی آپ ان لوگوں کے ساتھ جاتے رہے. میں تو ایک ہی دفعہ جاکر بال نوچ رہا ہوں کہ گیا کیوں تھا". خیال تھا کہ چند اور واقعات سے قارئین کو آگاہ کروں لیکن 26 ویں آئینی ترمیم زیادہ اہم پائی۔ جن خطوط پر عدلیہ کے متعلق 7 سال سے لکھ رہا ہوں، الحمدللہ اس کا عکس کسی حد تک اس ترمیم میں موجود ہے۔ تفصیل پھر کبھی. 9 جون 2024 کو میرے کالم کے کچھ حصے ان الفاظ میں تھے:

 "غروب آفتاب پر فوراً اندھیرا نہیں ہو جاتا، گھنٹہ بھر دھندلکا رہتا ہے۔ جنرل ضیا 17 اگست 1988 کو مرحوم تو ہو گئے پر 12 اکتوبر 1999 تک  ہر ادارے پر ان کا دھندلکا موجود تھا۔۔۔ یہ نکتہ عمران کو ہر مقدمے میں بری کرنے والے معزز ججوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی شکل میں پرویز مشرف کی سڑاند 29 نومبر 2022 کو تحلیل ہو چکی ہے۔۔۔مقتدرہ  دنیا بھر میں موٹی کھال والے کچھوے کی مانند ہوا کرتی ہے جس کی پشت پر سینکڑوں بچھو ڈنگ مارتے رہیں، اسے احساس تک نہیں ہوتا۔۔غروب باجوہ اور غروب فیض کے بعد عدلیہ پر ان دونوں کا گھنٹے بھر کا عدالتی دھندلکا حق نمک ادا کرتا رہے گا۔ 29 نومبر 2022 کو نمودار نئے آفتاب کی تمازت اور حدت کو 35 سالہ عمراناءئزڈ ادارے میں طاقت پکڑنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔۔۔ باجوہ اور فیض کی عدالتی باقیات سابق وزیراعظم کو ابھی کچھ سہولتیں دیں گی۔۔ باجوائی دھندلکا گھنٹہ بھر باقی رہے گا۔ لیکن مقتدرہ نے کچھ فیصلے کرلیے ہیں جن پر وہ بخوبی عمل کر رہی ہے"۔

 پی ٹی ائی کے فریق مقدمہ نہ ہونے کے باوجود آٹھ ججوں نے جب اس کے حق میں فیصلہ دیا تو مجھے تعجب نہیں ہوا۔ باجوائی ظلمت شب کا گنج بخش فیض عدلیہ ختم ہو چکا ہے لیکن ابھی کچھ فیصلوں میں ہم آئینی ملہار کی جگہ برہا سنتے رہیں گے۔ الیکشن کمیشن وضاحت لینے سپریم کورٹ گیا: "41 ارکان, سنی اتحاد کونسل کا حلف اٹھا چکے ہیں. ان کی گنتی  پی ٹی آئی میں کیسے ہو"۔ المیہ کہوں یا لطیفہ چیف کو علم نہ رجسٹرار باخبر، آٹھ جج کہیں جمع ہوئے اور کسی کو سنے بغیر ایک مشترکہ اعلامیہ بشکل فیصلہ ذرائع ابلاغ کو بھیج دیا۔ کون کہہ رہا تھا کہ جسٹس فائز کے بعد عدلیہ میں پڑی دراڑ ختم ہو جائے گی؟ جناب چیف جسٹس صاحب چل چکی آپ کی یہ کمپنی!

بعد میں بھی وہی ہوا جو پہلے ہوتا تھا۔ آزاد عدلیہ کا مفہوم ہمیشہ یہ رہا: " وہ عدلیہ جو کارروائی چلانے, فریقین کو سننے اور فیصلہ کرنے، سنانے میں مطلقاً خود مختار ہو". لیکن باجوائی چشمہ آب حیات سے "فیض" یاب معززین اس آزادی کو  نظم و ضبط سے ماورا آزادی سمجھے۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ  آرمی کے آٹھ فارمیشن کمانڈر پوری فوج کے بارے میں وہ فیصلہ کرلیں جس کا آرمی چیف کو علم ہی نہ ہو؟ ہے کوئی یونیورسٹی جس کے آٹھ ڈین مل کر یونیورسٹی پر وہ فیصلہ نافذ کر دیں جس کا وی سی کو پتا ہی نہ ہو؟ چل چکی وہ کمپنی جس کے آٹھ بورڈ ارکان فیصلہ کریں اور سی ای او باخبر ہی نہ ہو؟ جناب چیف جسٹس صاحب چل چکی آپ کی سپریم کورٹ!

چیف جسٹس کے بارے میں گلیاروں، کمروں میں وکلا سے مل کر میری یہ رائے بنی: "چیف آئین و قانون سے باہر کبھی نہیں نکلیں گے. حکومت کو زچ کریں گے نہ رس ملائی کھلائیں گے، تحریک انصاف کے لیے جسٹس بندیال بنیں گے، نہ اس کی ٹرولنگ سنیں گے"۔ اس کے ثبوت انہوں نے فراہم کر دیے۔ جسٹس منصور نے کہیں سے تین محققین لے رکھے تھے۔ سابق چیف جسٹس نے انہیں واپس کر دیا تھا۔ جسٹس آفریدی نے چیف بنتے ہی تینوں کو بلا کر انہیں جسٹس منصور کے حوالے کر دیا۔ کیا اتنی دلجوئی کافی نہیں تھی؟ سینیارٹی میں سے تیسرا جج چیف جسٹس نامزد ہونے پر معذرت کرے تو چوتھا چیف بنے گا ورنہ اگلا۔ گویا نئی سینیارٹی لسٹ بن چکی ہے۔ سپر سیڈ جج اب لسٹ سے نکل چکے ہیں۔ بینچ کمیٹی میں اب چیف کے بعد سینیئر موسٹ جج جسٹس امین، جسٹس مندوخیل اور جسٹس مظہر ہوں گے. سپر سیڈ جج اب کمیٹی میں نہیں ہو سکتے۔ وہ اب صرف نوکری کریں ورنہ استعفیٰ دیں۔ آئین جسٹس امین کو جسٹس یحیی کے بعد سینیئر موسٹ قرار دے رہا ہے تو سپریم کورٹ کی سائٹ پر  چیف کے بعد جسٹس منصور اور جسٹس منیب کے نام کیوں ہیں؟

چیف جسٹس آفریدی نے ازراہ مروت، نہ کہ ازراہ آئین، دو سپر سیڈ ججوں کو بینچ کمیٹی میں شامل کر لیا کہ شاید تناؤ کم ہو۔ مگر دونوں نے پھر وہی حرکت کی۔ بحیثیت کمیٹی ممبر انہوں نے "حکم" دیا  کہ 26 ویں ترمیم پر فل کورٹ بلائی جائے۔ یہ خبر انہوں نے بذریعہ ذرائع ابلاغ عوام کو بھی دی۔ چیف کی "حکم عدولی" پر جسٹس منیب کے چیمبر میں "کمیٹی اجلاس" میں فیصلہ کیا گیا کہ فل کورٹ اجلاس 4 نومبر کو ہوگا. وہ اجلاس کیوں نہیں ہوا؟ حکم سپریم کورٹ کے ججوں کا تھا یا تھیٹر کا اشتہار؟عالی مقام جناب چیف جسٹس صاحب مسئلہ مروت کا نہیں بلکہ مقدس ادارے میں نظم و ضبط کے کچھ تقاضے ہیں۔ آپ سینیئر موسٹ تھے، انکار کرتے تو جسٹس امین چیف ہوتے وہ انکار کرتے تو جمال مند و خیل ہوتے۔ آپ نے بینچ کمیٹی میں جسٹس منصور اور جسٹس منیب کو کیوں شامل کیا؟ کیا یہ ابھی تک آپ سے سینئر ہیں؟ افواج پاکستان کے سپر سیڈ افسر اپنے سینئر کو کبھی ایسا حکم نہیں دیتے۔ چل چکی یہ کمپنی!

یہ سنجیدہ آئینی مسئلہ ہی نہیں، سنگین آئینی خلاف ورزی بھی ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ پہلی دفعہ سامنے آیا ہے، اس لیے لازم ہے کہ اسے آئینی بینچ کے سامنے رکھا جائے۔ وہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی سینیارٹی کیسے ہو۔ بہتر ہے کہ خود چیف یہ سوال آئینی بینچ کو بھیجیں۔ ورنہ جسٹس امین سے جونیئر کوئی بھی جج وہاں جا سکتا ہے، وفاقی حکومت جا سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ یہ مسئلہ کل کی بجائے آج حل کر لیا جائے۔ عدالتی نظم و ضبط سے ماورا جج اگلے تین سال بھی یہی کچھ کریں گے۔ مسلح افواج کا سپر سیڈ افسر ترقی کے لیے دوبارہ کبھی زیر غور نہیں آتا کہ وہ سنیارٹی لسٹ سے نکل چکا ہوتا ہے۔جسٹس منصور اور جسٹس منیب یونہی "سینیئر" رہے تو اس نظیر (precedent) کے سہارے مسلح افواج کے سینکڑوں ہزاروں سپر سیڈ افسر رٹ پٹیشنیں دائر کر دیں گے۔ کیا مسلح افواج اس نئے ہول ناک بحران سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟

مزید :

رائے -کالم -