”ڈیوٹی“ پر ہیں!
پاکستان کے ہر شہری کی خواہش اور اُمید ہے کہ ملکی حالات بہتر ہوں اور امن،چین سے زندگی گزرے کہ حالات کی بہتری پر روز گار اور گذر اوقات کا تعلق ہے، لیکن بدقسمتی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن حضرات نے یہ ذمہ داری اپنے اپنے کاندھوں پر اٹھائی اور ملکی بہبود کے حلف لئے وہ حالات کو سدھارنا نہیں چاہتے، میرے جیسے بہت سے لکھنے والے یہ گذارش کرتے چلے آ ہے ہیں کہ آپس میں بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے مسائل حل کر لو، لیکن یہاں یہ ممکن نظر نہیں آ رہا کہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اصولوں کی لڑائی نہیں،سب یہ سمجھتے اور کہتے بھی ہیں کہ معاشی استحکام سیاسی استحکام ہی سے ممکن ہے اور اسی پر عمل نہیں کرتے،اُلٹا حالات کو خراب سے خراب تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں،میں نے کبھی اعتدال کی راہ نہیں چھوڑی،لیکن اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اعتدال ہی سب سے مشکل کام ہے کہ اس میں کوئی فریق بھی مطمئن نہیں ہوتا،لیکن میں مجبور ہوں،میرے بابے کہا کرتے تھے کہ تمہارے ذاتی نظریات کچھ بھی ہوں،لیکن بطور صحافی تمہاری تحریر پر ان کا غلبہ نہیں ہونا چاہئے۔رپورٹنگ کے دور میں تو عمل بہت ہوا کہ خبر دیتے وقت غیر جانبداری کی کوشش کرنے کی گنجائش موجود تھی تاہم کالم نویسی میں یہ عمل ضروری تو ہے،مجبوری یہ ہے کہ اپنی رائے دینا ہوتی ہے ورنہ کالم بے مقصد ہو جاتا ہے،میری مسلسل یہ کوشش رہی کہ واقعات کا ذکر کروں تو اس میں ڈنڈی نہ ماری جائے اور اپنے یقین کے مطابق درست لکھتا ہوں، لیکن کسی بھی موضوع کے حوالے سے اپنی رائے تو دینا ہوتی ہے کوشش ہوتی ہے کہ یہاں بھی جانبداری کا احساس نہ ہو۔
اِس وقت جو صورتحال ہے اس نے پوری قوم کو خوف اور مستقبل کی فکر میں مبتلا کر رکھا ہے،پریشانی یہ بھی ہے کہ یہاں سیاسی استحکام کی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی،بلکہ ہر روز خطرے کی کوئی نئی گھنٹی بج جاتی ہے،اب اگر بانی کے بڑے ٹائیگر کی بات نہ کی جائے تو مشکل ہو گی۔مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ معتمد ٹائیگر بھی بعض دوسرے حضرات کی طرح ”ڈیوٹی“ پر ہیں،قارئین!ڈیوٹی کے لفظ سے الجھیں نہ یہ میرے دوست اور ساتھی سید انور قدوائی (مرحوم) کی لغت ہے اور وہ عمومی طور پر یہ لفظ ایسے حضرات کے لئے استعمال کرتے تھے جن کی سمجھ نہ آتی یا جو حضرات ہر طرف گھوم جاتے تھے اور اسی حوالے سے میرے خیال میں وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور (ایک دوست نے گنڈہ لکھ دیا،جو پنجاب میں پیاز کو کہتے ہیں)۔ بہرحال گنڈا پور بھی ڈیوٹی پر ہی نظر آئے کہ ایک بار نہیں،تین بار اسلام آباد اور پنجاب پر دھاوا بولنے،بلکہ معنی لئے جائیں تو اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے آتے ہوئے راستے ہی سے قافلہ چھوڑ کر چلے آتے رہے،آج کا دور کسی امر کو خفیہ نہیں رہنے دیتا، ان کی پہلی ہی کشیدگی پر چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور پھر سوشل میڈیا والے حضرات نے سراغ لگا لیا کہ محترم حساس شخصیات سے ملے جن کو انہوں نے خفت مٹانے کے لئے سکیورٹی پر مائل کیا اور عذر پیش کیا کہ وہ امن و امان اور اپنے مطالبات کے حق میں میٹنگ کر رہے تھے اور پشاور واپس جا کر پھر سے بڑھک بازی شروع کر دی۔
اس مرتبہ انہوں نے ہر قیمت پر ڈی چوک اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کیا اور یہ کچھ ایسا تھا کہ ماضی کے دور میں کہا جاتا تھا خون کا دریا پار کر کے پہنچوں گا اور انہوں نے متبادل الفاظ ڈھونڈ کر کہا تمام رکاوٹیں توڑ کر بھی ڈی چوک پہنچوں گا اور حضور ایک بار پھر قافلے سے جدا ہو کر پشاور ہاؤس پہنچ گئے اور یہاں سے پُراسرار طور پر غائب ہو کر نیا تماشہ بنا دیا،حکمران ان کی گرفتاری سے لاعلمی کا اظہار کرتے رہے، ان کی جماعت والے ان کی تلاش میں گھوڑے دوڑاتے اور دھمکیاں دیتے رہے،حتیٰ کہ رٹ درخواست کی تیاری کر لی،چوبیس گھنٹے سے زیادہ عرصہ تک یہ معمہ رہا اور الزام، جوابی الزام کا سلسلہ جاری رہا۔دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومت/وزیراعلیٰ کے ترجمان بیرسٹر سیف نے یہ دعویٰ کر دیا کہ علی امین ڈی چوک پہنچ گئے ہیں، جبکہ ایسا کچھ نہ ہوا، چند کارکن پیدل چل کر وہاں تک پہنچے تو ان کو پولیس کا بھی سامنا کرنا پڑا اور پھر الٰہ دین کے چراغ والے جن کی طرح علی امین گنڈا پور خیبرپختونخوا اسمبلی کے اس اجلاس میں پہنچ گئے جو ان کی گمشدگی کے حوالے سے ہنگامی طور پر بلایا گیا تھا اس کا وقت دو بجے بعد ظہر رکھا گیا، لیکن شروع مغرب کے بعد ہوا اور پھر اسی اجلاس میں علی امین گنڈا پور شریف لے آئے اور ایک بار پھر ایک زبردست تقریر پھڑکا دی،حالانکہ ان کی روانگی اور گمشدگی کے حوالے سے بات چیت اور شبہات کا سلسلہ جاری تھا۔ علی امین گنڈا پور نے اسی پر اکتفا نہ کیا،بلکہ گذشتہ روز(بدھ) ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا،اب ان کا مطالبہ ہے کہ اسلام آباد پولیس کے آئی جی پولیس خیبراسمبلی میں آ کر معافی مانگیں،ان کو فارغ کیا جائے، ورنہ…… ورنہ…… ورنہ وہ پھر سے اسلام آباد پر چڑھائی کر دیں گے، قارئین! میں نے واقعات لکھے جو سب آپ کے بھی علم میں ہیں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ ان سارے واقعات سے آپ خود ہی نتیجہ اُخذ کر لیں، میں تو صرف یہ عرض کروں گا کہ تاریخ کی کتابوں میں ایسے بہت سے افراد کا ذکر ہے جو ”اِدھر کے رہے نہ اُدھر“ اور انجام بُرا ہوا۔
بات صرف اتنی نہیں،اصل مسئلہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی حکمت عملی پر نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے،وہ خود ایسے سامان اور حالات پیدا کرتے ہیں کہ مخالفین کے الزام سچ لگنے لگتے ہیں،برسر اقتدار حضرات کا کہنا ہے کہ2014ء میں چین کے صدر پاکستان آ رہے تھے، اپیل کے باوجود دھرنا ختم نہ کیا گیا اور دورہ منسوخ ہو گیا اور اب پھر ایک بڑا ایونٹ ہے کہ شنگھائی تنظیم کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔یہ 15،16 اکتوبر کو ہو گا اور یہاں مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اس اجلاس میں بھارت کی طرح وزیر خزانہ کو نمائندگی کے لئے مقرر کیاگیا ہے اور یہاں محترم بیرسٹر سیف نے جوش خطابت میں انہی کی آمد پر الزام، جواب الزام کا سلسلہ شروع کرا لیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھارتی میڈیا جی بھر کے بھڑاس نکال کر طنزیہ اور مزاحیہ پروگرام پیش کر رہا اور لکھ رہا ہے، ان کی طرف سے ایسا ”واجب“ بھی ہے کہ ہم خود ان کو موقع دے رہے ہیں اگر احتجاج کا یہ سلسلہ16،18اکتوبر کے بعد تک موخر کر دیا جاتا تو حالات میں کیا تبدیلی آ جاتی،جو اب نہیں آئی۔اُلٹا یہ ہوا کہ برسر اقتدار حضرات کا حوصلہ بلند ہوا کہ انتظامی نوعیت کے باعث یہ ”حملہ“ ناکام ہو گیا اور الزام کی زد میں آ گئے۔
میں تو یہ عرض کروں گا کہ اگر مقتدرہ سے بات ہی کرنا ہے تو پھر یہ حربہ درست نہیں جو اختیار کیا گیا۔ ایسا ممکن نہ تھا کہ دباؤ کے تحت مقتدرہ کو مجبور کر لیا جاتا،وہ لوگ اپنی حکمت عملی کے مالک ہیں اور دباؤ کے سامنے جھکنا ”سرنڈر“ جانتے ہیں اور یہاں ایسے حالات نہیں کہ وہ سرنڈر کریں، اس لئے بہتر عمل غیر مشروط بات چیت کا تھا اور ہے،بلکہ حقیقت میں تو سیاسی جماعتوں کو سیاسی جماعتوں ہی سے بات کرنا چاہئے،لیکن یہاں یہ صفحہ یہ پھاڑ دیا گیا،حالانکہ آج بھی ایک صفحہ پر نظرآنے والی قوتوں سے بات کے لئے سیاسی عمل ہی ہونا چاہئے تھا۔ ضد اور اَنا کو ترک کر کے ملکی مفاد عزیز ہے تو مذاکرات کریں اور جو لوگ ”ڈیوٹی“ پر ہیں،اُن سے بچ کر رہیں۔