سیاسی توازن اور گڈ گورننس (نواں حصہ)
آئیے یہاں ناروے میں آج سے بیس سال قبل کا موازنہ کرتے ہیں۔ آج سے بیس سال قبل آپ فون اٹھاتے تھے اور کسی ادارے یا محکمے کو کال کرتے تھے۔آپکی بات ایک انسان سے ہوتی تھی۔جو آپ کا کام یا مسلہ سنتا تھا اور اسے حل کرتا تھا۔ ہم نے ایک محکمے کی ویب سائیٹ کھولی تو بہت ڈھونڈھنے پر بھی کئی فون نمبر نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک کونے پر نظر پڑی۔ ہم سے چیٹ کریں۔ ہم نے چیٹ باکس کھولا تو ایک مسیج آیا کہ آپ فلاں محکمے کے چییٹ روبوٹ سے بات کررہے ہیں۔ بتائیے آپکی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ تھوڑا آگے چلے تو روبوٹ کہنے لگا مجھے سمجھ نہیں آرہی آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ہم نے اپنا سوال دورایا تو جواب آیا کہ کیا آپ ایک انسان سے بات کرنا چاہتے ہیں؟ہم نے چیٹ باکس کلوز کردیا۔ پھر سے نمبر ڈھونڈھنے لگے۔ کئی سے نمبر مل گیا۔ اور کال کرنا شروع کی۔ چھ سات آپشنز آے۔ کسی ایک کو پرس کیا تو مزید چھ سات آپشنز آے۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد ایک انسان سے بات ہوئی۔ یہ انسان ایک مختص فیلڈ کے لیے کام کررہا تھا۔سب سے پہلے موصوف نے اچھی طرح چیک کیا کہ میں درست لا ئن پر پہنچا ہوں۔ موصوف سے بات ہوئی اور موصوف نے بتایا کہ آن لائن کیا طریقہ کار ہے متعلقہ پرابلم کو اپروچ کرنے کا۔
ہمارے ایک دوست ہمیں بتانے لگے کہ ناروے نے دو ہزار بھارتی آٹی۔ٹی۔ نیشنلز کو صرف ایک بینک میں ملازمت کے ویزے جاری کیے ہیں۔ یہ لوگ بینکنگ سسٹم کا آئی۔ٹی انفراسٹرکچر تعمیر کریں گے۔یہ نظام ایک ایسا آٹومیشن بنانے کی طرف کاوش ہے جو روبوٹ سافٹ وئیرز کے ذریعے کام کرے گا۔ کام کرنے والے انسانوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔سمجھ نہیں آتا اگر کوئی صاحب کمپیوٹر کی اچھی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے تو وہ آج کے دور میں کسی محکمے یا ادارے سے انٹریکٹ کیسے کرتے ہیں؟
چونکہ نظام پر مسلسل کام ہورہا ہے۔ اور نئی سے نئی ٹیکنالوجی اپلائی کی جارہی ہے اس لیے اس ریس کو کیچ کرنا درد سر بنا رہتا ہے۔ہم جس انفراسٹرکچر کی بات کررہے ہیں وہ ایک آٹومیشن یا روبوٹ سافٹ وئیر بیسڈ آئی۔ٹی سسٹم ہے جو محکموں اور اداروں کے فنکشز کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کم سے کم افرادی قوت پر انحصار کررہا ہے۔ میری اپنی فیلڈ انجنئیرنگ ہے۔ لیکن سچ پوچھیں مجھے بھی کوفت ہوتی ہے۔ اس مارڈنائیزیشن کو کیچ کرنے میں۔ اس مارڈنائیزیشن اور آٹومیشن کو تو گویا پر لگے ہوے ہیں۔ بعض اوقات ہم سوچتے ہیں کہ اگر یہ مارڈنائیزیشن ذرا سلو ہوجاے۔ تو کیا فرق پڑے گا۔ یہاں پڑوسی ملک سویڈن، ڈنمارک، فرانس، جرمنی۔ یورپین یونین، امریکہ اور کینیڈا میں نظام بھاگے جارہا ہے۔ایک ملک میں سلو ہوگا تو باقی ممالک کو پہنچنا ناممکن ہوجاے گا۔ ناروے والے اپنے سسٹم کو ریس میں نہیں رکھیں گے تو پیچھے رہ جائیں گے۔
یہ متحمل ہی نہیں ہوسکتے پیچھے رہنا۔ کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ گورننس انفراسٹرکچر کو بین الاقوامی ریس میں رکھنا ایک بہت محنت طلب، اور مسلسل کاوش کا کام ہے۔ آپ اس انفرا سٹرکچر کو تعمیر بھی کرتے ہیں اور اس کی سکیورٹی کا پورا پلان تیار رکھتے ہیں۔ جسطرح ایک عمارت میں نقب لگائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح آپکے سسٹم میں نقب لگائی جاسکتی ہے۔ اپنے تعمیر کیے ہوے انفراسٹرکچر یا نظام کو ہیکنگ سے بچانا ترقی یافتہ دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اپنی انٹلکچل پراپرٹی کو چوری ہونے سے بچانا انکے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ترقی یافتہ دنیا ایک دوسرے کے ساتھ برسرے پیکار رہتی ہے۔ انکی آپس کی جنگ کا فارمیٹ بدل چکا ہے۔پراکسی وارز کے علاوہ ایک دوسرے کے سائیبر سسٹمز کو ہیک کرنا۔ انٹلکچل ڈیٹا چوری کرنا۔ جدید محاذ آرائی کا فارمیٹ ہے۔
پچھلے دنوں آمریکہ کی ایک ریاست میں گیس پائیپ لائین کے کنٹرول سسٹم کو رشین ہیکرز نے ہیک کرلیا۔اور ہیکنگ کو ان لاک کرنے کے لیے بھاری رقم کا مطالبہ کیا۔کسی بین الاقوامی اخبار میں یہ خبر لیک ہوئی تھی کہ ہیکرز کو بھاری رقم ادا کی گئی تب پائیپ لاین سسٹم میں ہیک کو ان لاک کیا گیا۔ لیکن قومی وقار اور پرسٹیج کا بھی کوئی تقاضہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی خبروں کو باہر نہیں لایا جاتا۔
تو اس روبوٹ سافٹ وئیر یا آٹومیشن گورننس سسٹم کا الٹی میٹ مقصد کیا ہے۔ پبلک بہت حد تک اپنے دفتری کام خود کرے۔ یعنی اپنی انفارمیشن خود ڈیلیور کرے۔ اپنے ڈکلریشن خود ڈیلیور کرے۔ اس کے لیے آپکو دفتر میں بیٹھے ایک انسان کی ضرورت نہ ہو۔گویا ہر محکمے یا ادارے نے ہر شہری کو سائیبر سپیس پر ایک آفیس کھول دیا ہے۔ آپ ایک آفس کو ایک یونیک آئی۔ڈی سے ان لاک کریں۔ اس میں اپنے بارے میں معلومات دیں اور متعلقہ محکمے کے ساتھ آپکے سارے رابطے کی تفصیل اور ہسٹری بھی موجود ہے۔ اور محکمے یا ادارے کے ساتھ آپکی اس انٹریکشن کو ایفی شینٹ اور پرابلم فری بنانے کے لیے ریسرچ ادارے مسلسل کام کررہے ہیں۔ اس گورننس سسٹم کے چیلنجز اپنی نوعیت کے ہیں۔ اداروں اور محکمموں کے درمیان ڈیٹا فلیٹ کو آٹومیٹک بنانے کی کاوش جاری ہے۔ ایک ہی ادارے یا محکمے کی مختلف اکائیوں کے درمیان رابطے کو بھی آسان اور آٹومیٹک کرنے کی کاوش جاری ہے۔ اور مارڈنائیزیشن کی ریس میں اگر پڑوسی ممالک سے پیچھے رہ گیے تو گویا آپ ہر معاملے میں ان سے پیچھے رہ گیے۔ اس مارڈن گورننس انفراسٹرکچر کو مزید مارڈن بنانے کا ایک اور بھی مقصد ہے۔ سٹیٹ اور فرد یا شہری کے درمیان فرائض اور حقوق کے توازن کو دستور اور قانون کے مطابق شفاف سے شفاف تر بنانا۔ اگر ایک انسان سٹیٹ کے لیے اجرت پر کام کررہا ہے تو ایک شہری اور سٹیٹ کے درمیان معاملات کو طے شدہ معاہدے کے مطابق حتمی شکل دینا اسکی جاب ہے۔ ایک بات ہم عرض کردیں کہ یہ مارڈن گورننس کی دوڑ اوولوشن کا حصہ تو لگتا ہے۔ لیکن جہاں اس ریس کے فوائد ہیں وہاں اس مارڈنائیزیشن اور لائف سٹایل کے منفی اثرات بھی ہیں۔ خاص طور پر انسان کی نفسیاتی صحت کے چیلنجز ہماری سوسائٹی سے کئی گناہ زیادہ ہیں۔
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.