”آپ ہیں مشتاق،تو میں ہوں بیزار“
اگرکبھی کسی انسان کو ایک ہی محکمے میں اپنے پہلے عہدے کی نسبت کوئی دوسرا اچھا عہدہ مل جائے تو بہت سے لوگ اس سے ملنے کے مشتاق ہو جاتے ہیں۔ میرے ایک دوست ایک شہر میں ضلعی انتظامیہ میں ایک ایسے عہدے پر تعینات تھے جس پر عوامی رابطہ نہ ہونے کے برابر تھااورنہ ہی اُس کی کوئی اتنی عوام میں پذیرائی تھی۔اللہ کے کرم سے اسی شہر میں وہ ایک ایسی پوسٹ پہ چلے گئے جو بڑے اثر و رسوخ والی تھی۔ ہر روز کوئی نہ کوئی آدمی اُن کے پاس آجاتا اور بتاتا کہ وہ اُن کو بہت عرصہ سے جانتاہے۔ ایک دن وہ اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک سائل نے ان سے کہاآپ مجھے پہچان نہیں رہے میں ”مشتاق‘‘ ہوں انہوں نے غصے سے جواب دیا آپ نے بھی مجھے نہیں پہچانا میں بیزار ہوں بلکہ اس وقت تو شدیدبیزارہوں۔اگرمیری جگہ غالب بھی ہوتے تو اُس وقت یہی کہتے ”اب اگرکوئی مشتاق ہے تو میں بے زارہوں“۔مشتاق نام کے میرے بھی ایک دوست ہیں اورفضل الہٰی صاحب میرے دفترمیں نائب قاصدہیں۔ مشتاق صاحب جب بھی میرے دفتر تشریف لاتے ہیں عجیب گفتگو شروع کردیتے ہیں۔اُن کی اکثر باتیں بے جا ہوتی ہیں۔ بعض اوقات غیرپارلیمانی زبان میں ایسی گفتگو شروع کردیتے ہیں کہ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ”آپ ہیں مشتاق تو میں ہوں بے زار“ اورباہر کھڑا فضل الٰہی بھی جانتا ہے کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ بہت سے لوگ میرے دفتر میں اصلاح یاانقلاب کوملنے آتے ہیں اورجب ان کو مل نہیں پاتے تو بعض کو غصہ آجاتا ہے تو بعض مایوسی کاشکار ہوجاتے ہیں۔ چند فقط حیرت زدہ رہ جاتے ہیں میں ان کوبتاتا ہوں کہ اصلاح اور انقلاب کی موجودگی کے امکانات آپ کے ہاں بھی اتنے ہی ہیں جتنے امکانات یہاں ہیں۔ایک اوردوست ہردفعہ انتہائی جوش وجذبے کے عالم میں میرے دفتر تشریف لاتے ہیں اوربڑے پُرزورلہجے میں کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرناچاہیئے کچھ نہ کچھ ضرورکرناچاہیئے۔اس کے بعد عموماً وہ لنچ کرکے چلے جاتے ہیں اور دوبارہ جب تشریف لاتے ہیں تو ایجنڈا یہی ہوتاہے۔
ایک اورصاحب تشریف لاتے ہیں انتہائی بلند لہجے میں فرمانے لگ جاتے ہیں یہاں کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔میں انہیں کہتا ہوں کہ بالکل اب آپ آگئے ہیں تو آپ کومل کے مجھے بھی یہی لگتاہے کہ یہاں کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ جب آج تک آپ ٹھیک نہیں ہوسکے تو اورکیا ٹھیک ہو گا؟۔ایک دانشورمیرے دفتر تشریف لاتے ہی سوال کرتے ہیں کہ نظام کو کیسے بہتر کیاجاسکتا ہے؟ جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ نظام بھائی کی بات کررہے ہیں یانظام الاوقات کی بات کررہے ہیں تووہ شدید بُرا مان جاتے ہیں اورغصے کے عالم میں دفترچھوڑ کرچلے جاتے ہیں۔جب وہ دوبارہ آتے ہیں تو نظام بھائی اور نظام الاوقات کا پہلے جیسے ہی ہوتا ہے مگر نظام کو بہترکرنے کی اُن کی لگن پہلے سے بھی بڑھ چکی ہوتی ہے۔ایک اورصاحب میرے دفترآکر مجھے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شرافت کا تو زمانہ ہی نہیں رہا جس پرمجھے انہیں بتانا پڑتا ہے کہ میرے دوست شرافت انتہائی خوبصورت اوراعلیٰ انسان ہیں مجھے تو یہی لگتا ہے کہ ہرزمانہ انہی کا ہے اوروہ زمانے کی قید سے ماوراہیں۔ آپ ہی بتائیں شرافت کس دور میں خوبصورتی کامعیار نہیں رہی؟۔ایک مہربان ہردفعہ آکر بتاتے ہیں کہ ہم اس وقت انتہائی نازک دورسے گزر رہے ہیں ساتھ وہ ہمارے مشترکہ دوست ”نازک“ کوبھی لے آتے ہیں جس کی جسمانی حالت ہروقت نازک رہتی ہے مگر وہ اسی نازک حالت کے ساتھ پنتالیس سال کے ہوچکے ہیں اُمید ہے آئندہ بھی کافی عرصہ نازک حالات کے باوجود زندہ رہیں گے اور اپنے بدخواہوں کو شرمندہ کرتے رہیں گے۔
ایک اوردوست میرے دفتر آتے ہی مجھے بتاتے ہیں کہ وہ میری گفتگو کے پرستار ہیں وہ ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب آپ بہت خوبصورت باتیں کرتے ہیں میں آپ کی گفتگو کا پرستارہوں لیکن آپ یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہ میں آپ کی گفتگو کا پرستار ہوں آپ کاپرستارنہیں ہوں۔ایک دوست جن کی عمر پچپن سال ہوچکی ہے مگروہ ابھی تک کنوارے ہیں میرے دفتر تشریف لاتے ہیں اورباآواز بلند اعلان کرتے ہیں کہ دنیاکے حالات ہمیشہ ایسے ہی رہے ہیں اورمایوس ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔میں انہیں کہتاہوں کہ وہ تو ہم سب کاحوصلہ بڑھاتے ہیں ویسے بھی کنوارے آدمی نے کیوں مایوس ہونا ہے۔؟ کنوارے آدمی کو تو دیکھ کر مایوس سے مایوس انسان پر رجائیت طاری ہوجاتی ہے۔کبھی کبھی مجھے یہ لگتا ہے کہ دنیا اور دفتر کے حالات ابتداء سے ایسے ہی ہیں اور انتہاتک ایسے ہی رہیں گے دنیا ایک دفتر ہے تو ہردفترکی ایک اپنی دنیا ہے۔ دعاہے کہ اس دنیا کیلئے لوگ مشتاق ہوں بے زار نہ ہوں۔