دعا ہے کہ باصلاحیت مخلص، قائد و اقبال کا وژن رکھنے والی قیادت میسر آئے جو گلے سڑے سیاسی، تعلیمی نظاموں اور اداروں کی اصلاح کر سکے

دعا ہے کہ باصلاحیت مخلص، قائد و اقبال کا وژن رکھنے والی قیادت میسر آئے جو گلے ...
دعا ہے کہ باصلاحیت مخلص، قائد و اقبال کا وژن رکھنے والی قیادت میسر آئے جو گلے سڑے سیاسی، تعلیمی نظاموں اور اداروں کی اصلاح کر سکے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:رانا امیر احمد خاں 
قسط:4
اظہار تشکر
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں 
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ 
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے (76) سال ہوچکے ہیں۔ راقم ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اپنے ہوش و حواس میں اپنے بزرگوں کے ساتھ 1947ء میں بھارت سے پاکستان ہجرت کی۔ اس طرح آج تراسی (83)سال کی عمر میں راقم کو پاکستان کی تاریخ کا عینی شاہد ہوتے ہوئے اپنی یادداشتوں کو  کہنہ مشق لکھاری  نہ ہوتے ہوئے بھی ضبط تحریرمیں لانے میں کامیابی ہوئی ہے۔ جس پر میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں جس نے مجھے صاحب کتاب ہونے کا شرف بخشا۔ میں اْن احباب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے لکھنے پر اْکسایا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ ان دوستوں میں میرے کلاس فیلو اور سابق جج لاہور ہائی کورٹ جناب شیخ محمد رشید، محترم قیوم نظامی جیسے لکھاری، دانشوراور چیئرمین جاگو تحریک، معروف قلم کار وقانون دان ظفر علی راجا اور شاعر و ادیب جناب نذیر قیصر شامل ہیں۔ میری آپ بیتی ”امیر نامہ“ کو کتابی شکل دینے کے لئے میرے قریبی دوستوں جناب احمد وسیم، پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیق جالندھری، ڈاکٹر صاحبزادہ انوار احمد بگوی (ر) ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور شاہدمحمود وڑائچ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے اس مسودہئ کتاب کی نوک پلک درست کرنے میں دن رات ایک کیا ہے۔ اس کے لیے میں اپنے دوستوں کا جو بڑے انسان بھی ہیں، ذاتی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی بدولت میں یہ کتاب منظرِعام پر لانے میں کامیاب ہوا ہوں۔ میں کمپیوٹر آپریٹر کمپوزر جناب محمود یونس کا بھی ممنون ہوں جو گزشتہ تین سالوں 2020ء سے کتاب کو مکمل کروانے کی عرق ریزی میں میرے ساتھ برابرکے شریک رہے ہیں۔ میں نے آدھی سے زیادہ کتاب کو اپنی یادداشت کے بل بوتے پر مکمل کیا ہے کیونکہ وکالت میں آنے سے پہلے 1990ء تک میرے پاس گزشتہ 50 سالوں 1941-1990ء  کی کوئی ذاتی ڈائری اور ریکارڈ نہ تھا۔ بعدازاں بھی،اپنی مصروف زندگی کے باعث، میں کبھی بھی اپنی یاداشتیں مرتب نہ کر سکا۔ البتہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن لاہور اور سٹیزن کونسل آف پاکستان کے ریکارڈ اور ظفر علی راجا کی کتاب ”بھارت درشن“ سے کتاب ھذا مکمل کرنے میں مجھے یقیناً بڑی مدد ملی ہے۔ 
یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میری یہ پیشکش مکمل تاریخ پاکستان نہ ہے۔ یہ تو مجھے پیش آئے واقعات، میرے مشاہدات و تاثرات اور پاکستان کو گزشتہ 76 سالوں میں درپیش سیاسی، سماجی، اقتصادی مسائل اور ان کا حل پیش کرنے کی ایک کاوش ہے جو سٹیزن کونسل آف پاکستان کے ارکان، احباب کی اجتماعی دانش اور ان کے بے لوث وقت دینے کی مرہون منت ہے۔ افسوس! صد افسوس ہمارے حکمران اس دوران قومی وسائل اور صلاحیتوں کے مطابق پاکستان کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ حکمرانوں کی اکثریت عوامی نمائندے نہیں بلکہ اشرافیہ، دولت مند طبقات اور خاندانی سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد و تعاون اور دولت کے سہارے ایوانوں میں براجمان چلے آرہے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان کو ایسی باصلاحیت مخلص، قائد و اقبال کا وژن رکھنے والی قیادت میسر آئے جو ہمارے گلے سڑے سیاسی، سماجی، اقتصادی، تعلیمی، نظاموں اور اداروں کی اصلاح کرکے پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی منازل سے ہمکنار کر سکے۔ یہ سب کچھ کیونکر ممکن ہے؟میں نے اپنی تصنیف میں سوال ھٰذا کا جواب اور لائحہ عمل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
میری یہ کتاب ان لاکھوں مخلص اور دانش ور کارکنوں کے لیے ہے۔ جنہوں نے دل و جان سے پاکستان کی بہتری کے لیے خود کو وقف کیا ہوا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ پاکستان کے تمام بہی خواہوں کا حامی و ناصر ہو۔ 
رانا امیر احمد خاں 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -