نوٹ اور ووٹ دے کے بھی محکوم

ووٹ دے کے بنائے گئے حاکم اور نوٹ دے کے پالے ہوئے افسر مخلوقِ پاکستان کے ٹوٹے دلوں پہ چوٹ پہ چوٹ لگا رہے ہیں۔ ائرپورٹ پہ جب میں نے ایک شہری پٹتا دیکھا تو خیال آیا کہ جب یہی آپ کے لوگ آپ کو پھولوں کی مالا پہناتے ہیں اور جھوٹی تعریفوں کے ڈونگرے برساتے ہیں تو آپ پھولے نہیں سماتے ہیں لیکن اگر کوئی تنقید کرے تو آپ کے لئے یہ رویہ اتنا ہتک آمیز ہو جاتا ہے کہ آپ کا ہاتھ ہی اٹھ جاتا ہے۔ اگر آپ اور آپ کی ماتحت افسر شاہی نے اس ملک اور اس کی عوام کے ساتھ رحم و کرم کا سلوک کیا ہوتا تو شاید آج ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے لیکن نوالا چھین لینے کے بعد آپ اس بات کے قطعی مجاز نہیں ہیں کہ کسی پہ ہاتھ اٹھایا جائے۔ آپ کے ظلم سہتے سہتے ابھی تو اس قوم کو شعور آیا ہے کہ اس نے دنیا کے خداؤں کو مسند سے اتار کر اپنے جیسے بنایا ہے۔ آپ اربوں پتی آپ کے نیچے بیوروکریسی کھربوں پتی 150 آپ کی بنائی کمپنوں اور کمپنیوں میں لوٹ مار اس پر پھر ڈنڈے سوٹے کا استعمال شاید درست نہیں ۔ ربّ نے آپ کو زبان دی ہوئی ہے ،آپ بھی اسی سے کام لیں۔
ماضی کے جھروکوں سے دیکھوں تو بہت سی باتیں ہیں ۔ جی بات کوئٹہ کے چوراہے پہ کچلے کانسٹیبل کی ہو یا کسی شاہراہ پہ خون میں نہائے زین کی 150 بات اس کی دکھی ماں کی ہو یا اس افسر شاہی کی کہ جس کے سامنے ممتا بے بس کہہ رہی تھی کہ میری جوان بیٹیاں ہیں۔ بات شاہ زیب کی کروں یا اس کے قاتلوں کی جو ہسپتال میں جیل کاٹتے ہیں اور کمر درد کے ساتھ یوں بھاگتے ہیں کہ جیسے درد بھی ان کی تمناؤں اور خواہشوں کا غلام ہو اور ان کے اشارے پہ جب ہو اور جب ضرورت نہ ہو تو نہ ہو۔ بات ایک سابقہ وزیر اعظم کی کروں یا اس کے بچوں کی 150 بات قید میں مہیا سہولتوں کی ہو یا اس مشقتی کی کہ جس کا جرم نہایت کم اور سزا بہت سخت ہے لیکن وہاں بھی ایک حاکم کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔
دفاتر میں چلے جائیں سائل اپنے کام کے سلسلے میں چاک و چوبند اور استادہ ہے کہ کچھ نظرِ عنائت ہو اور اس کا مہینوں سالوں کا پھنسا ہوا کا م تمام ہو۔ سامنے خالی کرسیاں پڑی ہیں لیکن سائل کا کام کھڑے رہنے پہ ہی منحصر ہے کیونکہ کرسی کھینچ کے بیٹھنے کا جرم اس کے کام سے بھی کہیں بڑا ہے۔ مجال ہے صاحب نظر اٹھا کے بات بھی کریں بعض دفعہ تو ہاتھ کا اشارہ ہی کافی ہے اس چپڑاسی کے لئے جو اس کو باہر کی راہ دکھانے پہ ذرا بھی نہیں چوکتا۔ دیہات سے آئیں مستورات کے سامنے سگریٹ چائے بھی چلے گی اور اس کی شکل غور سے دیکھ لینے کے بعد دستخط بھی ہوں گے 150 لیکن اگر کام کروانے والا بااثر ہے تو یہی مہر اور کاغذ اس کے گھر بھی شام کو پہنچ سکتے ہیں کہ جیسے شناخت بھی مقصود نہیں۔ یہ ہے مساوات اور یہ ہے اخوت کا جذبہ ،ملی بھائی چارہ اور اپنے بیگانے کی پہچان کا بین ثبوت۔ افسر شاہی کے حسنِ سلوک کے تو سب ہی معترف ہیں کہ شیخ رشید جیسا زیرک اور کہنہ مشق سیاست دان درس دے رہا ہے کہ جج ، جرنیل، جرنلسٹ ، سرکاری سرجن اور پٹواری سے کبھی نہ بگاڑی جائے 150 اگر اس کے ماتھے پہ شکن آئی تو آپ خسارے میں ہیں۔ کیونکہ رب ناراض ہو تو آپ کو کسی قانونی مسئلے میں ان کے پاس بھیج دیتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی ناراض ہو تو واپس رب کے پاس بھیج دیتا ہے 150 بیوروکریسی یا افسر شاہی 150 سیاست دان یا ممبر اسمبلی کا عہدہ شاید کسی فرد کے لئے نہیں اس کیفیت کے لئے مختص ہے جو کرسی پہ بیٹھتے یا اسمبلی کی سیٹ پکی ہونے کی صورت میں اچھے بھلے جیتے جاگتے پہ طاری ہو جاتی ہے 150 تبھی تو اپنے آپ کو خادم کہنے والااپنے مجبور و معذور آقا پہ ہاتھ چلانے یا اٹھانے سے بھی نہیں چوکتا 150 کل تک اس کے گھر کی چوکھٹ اکھاڑ دینے والا دانت اکھیڑ دینے تک جاتا ہے۔
اگر ہم غور کریں تو سیاسی اور فوجی حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ،نہیں بدلتا تو آفس کا بابو۔ اس کا فائلوں سے پھیلایا ہوا گورکھ دھندا اور پھر اس دھندے میں الجھایا ہوا نظام، وہ جب چاہے مفلوج کر دے۔ یہ تو ایک وباء ہے جس کے زیرِ اثر اقربا پروری اور کرپشن کا جرثومہ نہایت تیزی سے پھلتا پھولتا ہے۔ نئی حکومتیں آتی ہیں کچھ تبادلے ہوتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے بعد وہی کام اور لین دین شروع ہو جاتا ہے کہ جس میں اصل حاکموں کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہوتا کیونکہ قوانین اور ضابطوں کا استعمال تو کام نہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ آسانیاں پیدا کرنے کیلئے۔ ہماری افسرشاہی کی مجموعی سوچ آج بھی نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتی ہے۔اب جب کہ تبدیلی کے دعوے دار مسندِ حکومت پہ بٹھا دیے گئے ہیں تو ان سے یہی گذارش ہے کہ عام شہری اور اس کی عزت کو بھی اپنی ایک ترجیح بنایا جائے کیونکہ اگر سیاست دان اور سول سرونٹس اپنی سروس کے حقیقی معنوں کو سمجھتے ہوئے کام کریں تو ملک میں انقلابی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اپنی انفرادی سوچ میں بہتری لاتے ہوئے ملک کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے 150۔ قانون سازی کے ساتھ ساتھ اگر انسان سازی پہ بھی زور دیا جائے تو عزت پاتا آپ کا شہری آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا اور آنے والے کل میں ہم ایک قوم بننے کی پوزیشن میں ہوں گے لیکن اگر یہی کچھ رہا تو یہ طبقاتی اونچ نیچ اور ہمارے بدلتے رویے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔
وقت بدل گیا ہے اور بدلتے وقت کا تقاضا ہے تبدیلی ، مساوات ، برداشت اور ایک دوسرے کا احترام۔ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے کہ اسے غلامی سے نکال کر اس صف میں کھڑا کیا جائے جس میں احترامِ آدمیت کا درس پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔