فنی محاسن سے معریٰ شاعری
وہ دن لد گئے جب دبستانِ دہلی، دبستانِ لکھنؤ، دبستانِ آگرہ اور دبستانِ دکن ہوا کرتے اور جہاں کئی اطفالِ مکتب کہنہ مشق اساتذہ کے ہاں زیر تربیت رہتے سالوں اساتذہ کی صحبت میں وہ اذہان سخنوری کے ماحول میں نمو پاتے تب کہیں جا کر وہ اس قابل ہوتے کہ کسی مشاعرہ میں کوئی ایک آدھ شعر پڑھ سکیں،مگر ہمارے ہاں تو اب سوشل میڈیا کی برکت سے صورتِ حال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہر دوسرا نوجوان شاعر اور ہر تیسری دوشیزہ شاعرہ بن چکی ہے گوگل کے فیض سے مستفید ہونے والی یہ نئی پود اب شاعری کے نام پر صرف شغل میلہ ہی لگا رہی ہے میں نام نہیں لوں گا، کیونکہ شخصیت پر تنقید میرا وتیرہ نہیں، مگر آج کے ایک انتہائی معروف نوجوان شاعر کا ایک شعر پیش کرتا ہوں
تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھا گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
اُردو اَدب کی تمام تر نْدرت چھچھورے پن اور غیر مرسّم تخاطب میں کود چکی ہے مزید لچر پن ملاحظہ فرمائیے
اگر تْو یوں شرماتی رہے گی
محبت ہاتھ سے جاتی رہے گی
یہ جنگلی پھول میرے بس میں کب ہے
یہ لڑکی یونہی جذباتی رہے گی
تجھے میں اس طرح چھوتا رہا تو
بدن کی تازگی جاتی رہے گی
اب ذرا شرمانے کی صفت سے محبت کی رخصتی کا معنوی ربط تلاش کیجئے اگر مل جائے تو بسم اللہ لیکن ملے گا نہیں کیونکہ ہم نے تو یہی سنا تھا اساتذہ سے کہ عورت جب شرمانے لگے تو سمجھ لو محبت ہاتھ لگ گئی مگر یہاں تو شاعر موصوف کچھ اُلٹا ہی کہہ گئے مزید غور فرمائیں کہ عورت کو کس بھدے پن سے تشبیہ دی جنگلی پھول، اوّل تو مجھے اس ترکیب پر ہی اعتراض ہے کہ وہ کونسا نفیس و خوشبودار پھول ہوتا ہے،جو جنگل میں پایا جاتا ہے میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی گلاب یا چنبیلی کسی جنگل میں نہیں دیکھے کیونکہ جنگل میں جو چیز اْگتی ہے وہ خودرو ہوتی ہے اور وہ عام طور پر حس ِ جمالیات سے کوسوں دور ہوتی ہے تشبیہات کا اب یہ معیار رہ گیا ہے اس سے اگلے بند میں جو واہیات مضمون باندھا گیا ہے اْس پر تنقید ضروری نہیں، کیونکہ شعر کا مطلب واضح ہے تشبیہ کا یہ معیار بھی دیکھ لیا اور تشبیہ کا وہ معیار بھی دیکھ لیں جو میر تقی میر کے ہاں پایا جاتا ہے
گْل کے دیکھے کا غش گیا ہی نہ میر
منہ پہ چھڑکا میرے گلاب بہت
یہ ہوتی ہے تشبیہ، خیر معاملہ یہ ہے کہ ہمیشہ ذہنی اقدار کے مطابق مارکیٹ میں اشیاء دستیاب ہوتی ہیں چونکہ آج کل ساری کہانی عورت پر آ کر مْک جاتی ہے اس لئے آج کا شاعر نسوانیت کو بنیاد بنا کر انسانی نفسیات سے خوب کھیل رہا ہے اصل میں اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں عورت کے متعلق عموماً وہ جذباتی دباؤ پایا جاتا ہے، جس کا نکاس اسی طرح کے شعراء حضرات اپنی شاعری میں کرکے عوام کو ایک غیر مرئی چسکے کی جانب لے جاتے ہیں دبستانِ فیس بک کا یہ انتہائی معروف شاعر مزید کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے۔میں اُس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا ہوں
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
شعر میں شاعر کہنا کیا چاہ رہا اب اس مضمون کو ہماری نئی نسل خوب سمجھتی ہے، ہمارے ہاں دبستانِ دہلی کے عظیم المرتبت شاعر میر تقی میر کو ہی دیکھ لیں زندگی، محبت، اقدار کی بے ثباتی اور لامحدود کرب پر خوب لکھا ہے ایک بند میں فرماتے ہیں
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
بالکل اسی طرح دبستانِ دہلی ہی کے فقید المثل شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب نے زندگی اور انسانی نفسیات کو ایک کھلی کتاب کی طرح شاعری میں پرو دیا قنوطیت کا یہ عالم طاری رہا کہ
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اور رجائیت کے معاملے ایسے جذباتی کہ
سنبھلنے دے مجھے اے نااُمیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
ہمارے جنوبی پنجاب کی ایک انتہائی معروف نوجوان شاعرہ کچھ یوں رقم طراز ہیں
اُداس ہوں پر نیا بہانہ بنا رہی ہوں
سنو میں مصروف ہوں میں کھانا بنا رہی ہوں
اس شعر کی فنی مہارت پر تو اب میں کچھ کہنے سے رہا قارئین خود ہی سمجھ لیں جو بھی سمجھنا چاہیں، دبستانِ فیس بک کی ایک اور معروف شاعرہ کچھ اس طرح سے گویا ہیں
سیدھی کمان کیجئے اور تیر کھینچئے
پنچھی جو پھڑ پھڑائے تو تصویر کھینچئے
لیجئے جناب اب تیر کمان کے ساتھ شکاری کو گلے میں ڈی ایس ایل آر کیمرہ بھی لٹکانا چاہئے تاکہ جب پنچھی پھڑکنے لگے تو وہ جلدی سے تصویر کھینچ کر فیس بک پر اپلوڈ کر دے، میرا تو یہ عالم ہے کہ جب بھی کبھی اُداس ہوتا ہوں تو کمال احمد رضوی اور رفیع خاور کا کامیڈی سیریل الف نون دیکھ لیتا ہوں یا پھر سوشل میڈیا پر کسی بھی نئے شاعر یا شاعرہ کا کلام پڑھ لیتا ہوں دونوں میں حسب ِ ضرورت اچھا مزاح مل جاتا ہے، جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہمارے ایک بزرگ مدرّس ہوا کرتے حضرت مولانا موسیٰ خان روحانی البازی مرحوم جو جامعہ میں عربی علوم کے اْستاد اور شیخ الحدیث تھے علمِ عروض پر اْنہوں نے خلیل ابنِ احمد کے چند شذرات پر مبنی عربی زبان میں ایک کتاب لکھی”محیط الدائرہ“ جس میں آپ نے عروض کو خلیل کے پانچ دائروں میں منقسم کرکے تفصیل سے اُس کے اصول و مبادی بیان کر دیئے ہیں اصولِ شعر کے حوالے سے یہ بڑی ہی عمدہ کتاب ہے شاید آج کل ناپید ہو، مگر میرے پاس اس کا چالیس سال پرانا نسخہ موجود ہے مَیں نے یہ کتاب زمانہ طالب علمی میں مولانا البازی صاحب کے تلمیذ ِ رشید اُستاذی مرحوم مولانا قاضی عبدالحلیم کلاچوی صاحب سے پڑھی تھی بیان کرنے کا مقصد محض یہ ہے کہ شاعری وزن اور تخیل کے باہم معنی خیز ربط کا نام ہے، جس میں بیک وقت شعور، تال، حلاوت اور تحریک موجود ہو، کیونکہ شعر کے لغوی معنی ہی دانائی کے ہیں پس ایسی دانائی جس میں حلاوت بھی موجود ہو اور تال یعنی عروض کے اصولوں پر بھی پورا اْتر رہی ہو ورنہ شعر اور شْغل میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا، ہمارے مرحوم اُستاذ فرمایا کرتے کہ ہر انسان شاعر ہوتا ہے، مگر جسے زبان برتنے کے اسرار و رموز سمجھ آ جائیں وہ شاعر بن جاتا ہے، چنانچہ زبان کی ندرت و نیرنگی، علم الصرف و معانی کے رموز، تال کی حلاوت اور ما فی الضمیر کو بیان کا سلیقہ ہی شعر کے فنی محاسن ہیں۔