جان اللہ کو دینی ہے

جان اللہ کو دینی ہے
جان اللہ کو دینی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رانا ثناءاللہ پر اس وقت منشیات کا کیس بنایا گیا جب وہ اپوزیشن میں تھے اور اپوزیشن رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ کو شدید عروج حاصل تھا تو تب بھی لکھا گیا کہ سیاسی اختلافات پر حساس نوعیت کے جھوٹے اور من گھڑت کیس بنانا سراسر غلط ہے.ہمارے ہاں "جھوٹے کیسز" بنانے کا پرانا رواج چلا آ رہا ہے جس میں کمی واقع ہونے کی بجائے بدقسمتی سے روز بروز اضافہ ہورہا ہے.

بنیادی انسانی حقوق صرف آئین کی تیس شقوں میں موجود ہیں لیکن یہ حاصل شاید کسی کو بھی نہیں."جھوٹے کیسز" سیاسی انتقام، نظریاتی اختلافات اور اپنے ذاتی معاملات کو سلجھانے کے لیے سب سے آسان رستہ سمجھا جاتا ہے.رانا ثناءاللہ کی حکومت آ گئی اور وہ وفاقی وزیر داخلہ بن گئے جس کے بعد انہی کے ماتحت اداروں میں ملازمت کرنے والے گواہوں نے عدالت میں جاکر بیان حلفی لکھ دیا کہ ہم نے تو بوقت گرفتاری کچھ برآمد ہوتے نہیں دیکھا. یہ مقدمہ تو بلاوجہ ہی قائم کردیا گیا تھا جس پر رانا ثناءاللہ کو 15 کلو ہیروئن کے کیس میں آخر کار عدالت نے بری کردیا.

سوال یہ ہے کہ جن لاکھوں لوگوں پر جھوٹے کیس بنتے ہیں اور وہ بعد میں وزیر نہیں بن پاتے ان کے مقدمات میں گواہان ڈنکے کی چوٹ پر جھوٹی گواہی دے دیتے ہیں. انکی زندگیاں کیسے برباد ہوجاتی ہونگی؟ جیلوں میں ایڑیاں رگڑتے کتنے بے گناہ مر جاتے ہوں گے؟

ہمارا فوجداری نظام 1861 کا ہے اور پولیس ایکٹ 1860 کا ہے جس کو انگریزوں نے 1857 کی جنگ آزادی ناکام ہونے کے بعد جنگ آزادی لڑنے والے مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے پوری محنت سے بنایا تھا.انگریزوں نے تو غلامی سے بغاوت کرنے کے جرم میں انکے لیے یہ سزا چنی تھی لیکن ہم آزادی کے بعد بھی پچھتر سال سے اس پیچیدہ ترین پونے دو سو سالہ نظام کو کیوں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں؟

قومی اسمبلی کے مقدس ایوان میں کھڑے ہوکر اس وقت کے متعلقہ وزیر صاحب نے اللہ کو گواہ بنا کر کہا تھا کہ جان اللہ کو دینی ہے لیکن رانا ثناءاللہ پر بننے والا یہ مقدمہ سچا مقدمہ ہے.انہوں نے قسم اٹھا کر کہا تھا کہ انہوں نے خود اس کی ویڈیوز دیکھی ہیں اور ان کے پاس ہیروئین برآمدگی کے تمام ثبوت ہیں.ہے کوئی پوچھنے والا کہ کہاں ہیں وہ ثبوت اور ویڈیوز؟ 

عدالت میں وہ پیش کیوں نہیں کیے گئے؟

ڈی جی انٹی نارکوٹیکس کو کوئی پوچھ سکتا ہے کہ آپ نے اپنی ذمہ داری پر اتنا بڑا اور حساس مقدمہ قائم کروایا تھا تو اب عدالت میں ثابت کیوں نہیں کرسکے؟
گرفتاری کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی تو اس میں 21 کلو تھی لیکن جب عدالت میں چالان پیش کیا گیا تو وہ 15 کلو کیوں رہ گئی؟ 

کوئی ان گواہوں سے جواب طلب کرنے کی ہمت رکھتا ہے کہ جب رانا ثناءاللہ اپوزیشن میں تھا تو تب آپ اس کے خلاف بیان حلفی جمع کروارہے تھے اور آج اگر وہ طاقت ور ہے تو اس کے حق میں بیان جمع کروانے کیوں پہنچ گئے ہیں؟

یہ ایمان صرف طاقت ور کو بچانے اور کمزور کو پھنسانے کے لیے ہی کیوں حلفاً گواہیاں دینے پر مجبور کرتا ہے؟

جب مقدمہ سرے سے تھا ہی جھوٹا تو اس کو قائم کرنے والوں، کروانے والوں اور سہولت فراہم کرنے والوں کو کون سزا دے گا کہ جنہوں نے قوم کا سرمایہ اور عدالت کا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بے گناہ شہری کو ذہنی جسمانی اور مالی تکلیف دی.جہاں مقدمہ درج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں لوگ چکر لگا لگا کر چپلیں توڑ لیتے ہیں لیکن ان کا مقدمہ درج نہیں کیا جاتا کیونکہ آگے یا کوئی تگڑا ہوتا ہے یا کسی تگڑے کی سفارش اور جہاں کوئی ضرورت نہیں ہوتی وہاں تھوک کے حساب سے جھوٹے مقدمات بن جاتے ہیں تو کیوں؟؟؟


کل پی ڈی ایم جب اپوزیشن میں تھی تو ان پر جھوٹ سچے مقدمات کی بھرمار تھی، گرفتاریوں کا زور تھا  اور جو پھر بھی باز نہیں آتا تھا اس کی پراپرٹی ضبط یا عمارات غیرقانونی ہونے کی آڑ میں اڑا دی جاتی تھیں.آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے لیکن کل کرنے والی پی ٹی آئی اور سہنے والی پی ڈی ایم تھی اور آج کرنے والی پی ڈی ایم اور سہنے والی پی ٹی آئی ہے.

اب تو یوں لگتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام ہی اس ملک کا مقدر ہے کیونکہ یہاں اپنی ذات اپنی جماعت اور اپنے مفادات سے ذرا سا آگے بڑھ کر سوچنے کے لیے کوئی تیار نہیں....مہذب دنیا میں کہیں کوئی زیادتی ہوجائے تو وہاں کے عمائدین اس کے محرکات، اسباب اور وجوہات کا تعین کرکے تدراک کے لیے قانون سازی کرتے ہیں اور ہماری پارلیمان قانون سازی تو کرتی ہے مگر کسی کی ذات کے لیے یا پھر جماعت کے لیے....

قوم وہی پرانے پونے دو سو سالہ غلاموں کے لیے بننے والے قوانین بھگتے کیوں کہ اس کی یہی سزا ہے.

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطۂ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -