جیسا ہونا تھا، ہو گیا، اب قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان!
سابق وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ تجربہ کار اور فہم و ادراک والے منتخب رکن ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا والوں نے قائد مسلم لیگ (ن) محمد نوازشریف کی 8مئی والی تقریر کے حوالے سے ردعمل لیا تو ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب کی طرف سے مشاورت کی تجویز قابل فہم اور اچھی ہے تاہم وہ پہلے ہی خود کو وزیراعظم بنا لیں تو ان کے ساتھ بات کرنے میں مشکل ہوگی۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جلسوں کی زبان مختلف ہوتی ہے اور جب ملاقات ہو تو گفتگو کا انداز الگ ہوتا ہے۔ ان کے یہ الفاظ ابھی فضا ہی میں تھے کہ نوازشریف کی ہدایت پر محمد شہبازشریف بلاول ہاﺅس بحریہ ٹاﺅن پہنچ گئے۔ آصف علی زرداری اسلام آباد اور بلاول بھٹو سکھر سے لاہور پہنچے تھے ان کی آمد ہنگامی طور پر ہوئی کہ شہبازشریف کی آمد کی اطلاع دے دی گئی تھی ، لہٰذا یہ ملاقات جمعہ کی شب ہو گئی اور ایک ہی روز بعد مشاورت کا عمل شروع ہو گیا۔ خبریں تو یہ ہیں کہ یہ بڑی خوشگوار ملاقات تھی اور ابتدائی خاکہ بھی منظور ہو گیا کہ پیپلزپارٹی وفاق میں تعاون کے بدلے ، وفاق کے علاوہ پنجاب میں بھی حصہ لے گی یہاں پیپلزپارٹی کی مصدقہ 10نشستیں ہیں تاہم آج (ہفتہ) آزاد اراکین سے جو ملاقات ہوئی اس کے نتیجے میں ان میں اضافہ ہوگا، وفاق تو اپنی جگہ پنجاب میں حالات بڑے اہم بن گئے کہ مسلم لیگ (ن) کو واضح برتری تو ملی ہے تاہم آزاد اراکین (بھاری اکثریت تحریک انصاف کے حمائت یافتہ کی ہے) اور مسلم لیگ (ن) میں ایک نشست کا فرق اور یہ برتری مسلم لیگ (ن) کو ملی یوں یہاں بھی دوسری جماعت کی ضرورت موجود ہے۔
یہ کوئی حیران ہونے والی بات نہیں کہ انتخابی مہم میں بلاول کیا کہتے رہے ہیں اور اب کیا ہوا کہ اتنی جلدی ملاقات بھی ہو گئی تو قارئین ہمارے ملک کی سیاست یہی ہے اور روایت ہی کے پیش نظر بعض دوست ان دونوں کی انتخابی مہم اور لفاظی کو ”نوراکشتی“ بھی کہتے اور لکھتے رہے حالانکہ یہ پہلے سے طے شدہ امر تھا جو کچھ انتخابی مہم میں ہوا وہ نششتوں کی فکر کا معاملہ تھا کہ زیادہ بہتر سودے بازی ہو سکے اور ایسا ہی ہوا کہ اب وفاق میں آزاد اراکین اور مسلم لیگ (ن) کے بعد پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر ہے، مسلم لیگ (ن) دوسری بڑی پارلیمانی جماعت بن جانے کے بعد بھی از خود حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آزاد اراکین کا تعلق، تحریک انصاف سے ہے اور تحریک نے جو حکمت عملی بنائی اس کے مطابق آزاد پنچھی اس کی چھتری سے اڑ کر نہیں جا سکیں گے کہ حمایت یافتہ حضرات کی اکثریت ثابت قدم رہے گی اور پھر وکلاءسرگرم ہیں جہاں وہ کئی نتائج کو چیلنج کر رہے ہیں وہاں تحریک انصاف کی ورکنگ کے لئے بھی سوچ بچار کررہے ہیں۔ مجبوری ہوئی تو ان کے پاس ایک سے زیادہ رجسٹرڈ پارٹیوں کی آپشن موجود ہے اور ان میں کسی جماعت میں با جماعت شرکت کرکے تحفظ حاصل کیا جائے گا اور جماعتوں کے ناموں کے سوا کوئی بات مخفی بھی نہےں رکھی گئی چنانچہ یہ امر اب مسلم لیگ (ن) کو بھی مخلوط حکومت بنانے پر مجبور کررہا ہے۔ ایک بات اور عرض کروں کہ محمد نوازشریف کلی اختیار کے قائل ہیں اور وہ اس کا اظہار بھی کررہے ہیں، جبکہ جماعت معہ شہبازشریف وزیر اعظم نوازشریف کی بات کر رہے ہیں۔ ایک ذریعے کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالات حاضرہ میں یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ محمد نوازشریف از خود دستبردار ہو کر نگران قیادت کا فرض ہی انجام دیں اور وزیر اعظم کے لئے محمد شہباز شریف کو نامزد کر دیں ایسی صورت میں مریم نوازشریف کو پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہو سکتا ہے کہ حمزہ شہباز کو قومی اسمبلی کی نشست رکھنے کے لئے کہا جائے گا، یوں معاملات باہمی اتفاق رائے سے طے ہوں گے۔ دیکھتے ہیں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ابھی تک تو حکمت عملی ہی کے مطابق سب نظر آ رہا ہے۔
قارئین! کہتے ہیں کہ نگار خانے میں طوطی کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ہم نے بھی مختلف تجاویز پیش کی تھیں۔ ایک تو یہ کہ 1988ءکا تجربہ نہ دہرائیں اور پیپلزپارٹی والے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جائیں، یا پھر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر وسیع تر حکومت بنا لیں تاکہ اتفاق رائے ہو اور مسائل پر یکساں فوکس کیا جائے، دوسری تجویز ہی منظور ہوتی لگتی ہے کہ بات چیت شروع ہوئی اور مثبت انداز میں آگے بڑھی ہے اور اب فریقین اپنی اپنی جگہ غور کر ہے ہیں۔ جو سوال و جواب ہوئے اسے کیا کہا جائے گا کہ بات حصہ بقدر جثہ والی تو خود رضا مندی حاصل کر جاتی ہے تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں پر بھی تحفظات سامنے آئیں اور مذاکرات طویل ہوں۔
عام انتخابات کے بعد چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کی روح کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے جہاں انتخابات کے انعقاد پر اطمینان کا اظہار کیا وہاں انہوں نے اتفاق رائے پر بھی زور دیا ہے اور یہی بہتر عمل ہے کہ ملک کے اندر استحکام ضروری ہے۔ اسی استحکام سے معاشی حالات میں بہتری آئے گی۔ توقع ہے کہ کان دھرے جائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی کے سوا ایم کیو ایم اور بعض دیگر جماعتوں کی حلیف بھی ہے۔ تاہم یہ تعداد حکومت سازی کے لئے بہت کم ہے۔ ایم کیو ایم کا یہ اعلان بھی ہوا میں رہ گیا کہ اس کی حمایت کے بغیر حکومت سازی ممکن نہیں کہ ان کو ملا بھی لیا جائے تو پیپلزپارٹی کی ضرورت موجود ہے۔ ورنہ پیپلزپارٹی اور حمایت یافتہ آزاد مل کر حکومت سازی کے اہل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اب بھی مخلوط یا وسیع تر حکومت کی ضرورت ہے جسے اپنے لئے قومی حکومت کہا جا سکتا ہے۔ یہ سب فیصلے ایک دو روز میں ہو جائیں گے۔ عوام تو یہ توقع کرتے ہیں کہ جو بھی ہونا ہے جلد ہو حکومت سازی ہو جائے تاکہ ان کی مشکلات پر توجہ مبذول ہو کہ مہنگائی نے مار دیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران اس طرف کوئی توجہ نہیں تھی اور مہنگائی بڑھتی گئی۔ برائلر مرغی کا نرخ چھ سو روپے فی کلو (گوشت) سے تجاوز کر گیا۔ دالیں، سبزیاں بھی مہنگی کر دی گئیں۔ حتی کہ بکرے کے گوشت کی قیمت میں ایک سو روپے فی کلو اضافہ کر دیا گیا۔ سیاستدانوں کو بجا طور پر چیف آف آرمی سٹاف کے کہے کا لحاظ رکھنا چاہئے اور مہنگائی کم کرنے پر توجہ مبذول کرنا چاہئے۔
یہ وقت ذاتی انا اور مفادات کا نہیں قومی مفادات کا ہے کہ کوئی اکثریت میں نہیں معلق پارلیمان ہے،اس لئے ہوش کی ضرورت کہیں زیادہ ہے،ویسے بھی ہونا تو وہی ہے جو باہمی ہو گا کہ صیاد کی مرضی بھی تو کوئی چیز ہے ؟