”چادر چار دیواری اور چاندی“ بشریٰ رحمن

7فروری 2023ء کے دن مجھے صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کی برسی کے موقع پر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا پروگرام جاری تھا، میرے فون پر گھنٹی بج رہی تھی میں ایسی پوزیشن میں نہیں تھی کہ فون سن سکتی مگر کچھ ہی دیر میں میرے سامنے بیٹھے شوہر آغا شاہد کے فون کی گھنٹی بجی وہ فوراً اٹھ کر ہال سے باہر چلے گئے، دو بجے پروگرام ختم ہوا میں تمام فارسی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسرز کے ساتھ فارسی ڈیپارٹمنٹ جا رہی تھی کہ راستے میں میرے شوہر نے بتایا کہ ابھی فون آیا ہے رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگے بشریٰ رحمن آپا ابھی تھوڑی دیر پہلے انتقال کر گئی ہیں۔ میں چلتے چلتے رُک گئی اپنے احساسات کو قابو میں نہ رکھ سکی۔ جنازہ کا وقت 4بجے تھا۔بشریٰ رحمن ایک ماہ سے بحریہ ٹاؤن ہسپتال میں زیر علاج تھیں اور بڑی بہادری سے پہلے ڈینگی اور پھر کورونا (Covid) کی بیماری سے مقابلہ کررہی تھیں اس بیماری نے ان کی جان نہ چھوڑی اور آخر کار وہ ہار گئیں۔ کچھ ہی ماہ پہلے ان کے چھوٹے بھائی اچانک ہارٹ اٹیک سے وفات پا گئے تھے بڑی آزردہ تھیں مجھے کہنے لگیں میرا چھوٹا بھائی تھا نجانے مجھ سے پہلے کیوں چلا گیا۔ ہم سب نے اپنی بشریٰ رحمن کو اس دن آہوں اور سسکیوں میں رخصت کیا۔ وہ جب تک حیات تھیں تو مجھے بھی گھریلو ذمہ داریوں اور سروس کی وجہ سے ان سے ملنے کے مواقع بہت کم ملتے،میں جب بھی وقت نکال کر فون کرتی تو وہ ہمیشہ ناراضگی کا اظہار کرتیں کہ تم دونوں کہاں ہو مجھے فون بھی نہیں کرتی ہو اور ملنے بھی نہیں آتی ہو۔ ہم جب بھی ان سے ملنے جاتے وہ اپنی زندگی کی کتاب سے کوئی ایک ورق الٹتی اور کوئی نہ کوئی اَنہونی داستان سنایا کرتیں۔ ہم ان کے واقعات کو سمجھتے، سوچتے اور یوں ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہماری سمجھ میں آنے لگتے۔ بشریٰ رحمن دیندار اور تصوف سے بے حد لگاؤ رکھنے والی خاتون تھیں۔انہیں پاکستان اور اسلام سے بھی بے حد لگاؤ تھا۔ رمضان میں باقاعدگی سے روزے رکھتیں ہر سال دس دن کے لئے اعتکاف پر بیٹھتیں، اپنے کمرے میں رات دن عبادت میں گزارتیں۔ میں ہمیشہ فون کرتی اور دعاؤں کی خواستگار ہوتی۔ وہ بے حد غریب پرور تھیں۔ ہر رمضان وہ غریبوں میں راشن کپڑے وغیرہ تقسیم کرتی تھیں۔میرے والد 5جولائی 2010ء کو وفات پا گئے تو انہوں نے مجھے افسوس کا فون کیا کہ اس وقت غم کی گھڑی میں مجھے تمہارے پاس ہونا چاہیے تھا مگر کیا کروں سیشن چل رہا ہے بس میں جلد تمہارے پاس آؤں گی، فکر نہ کرنا میں تمہارے غم میں برابر کی شریک ہوں۔ وہ جمعرات کو بہت سے تکلفات کے ساتھ میرے والد کے گھر تشریف لائیں اور سارا دن میرے ساتھ گزارا، میرا بھائی جو میرے والد کے ساتھ رہتے تھے،میری بھابھی نے ہماری خاندانی رسومات ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ میں نے بشریٰ رحمن سے اس کا ذکر کیا تھا کہ کیا کروں۔بشریٰ آپا نے انتہائی سمجھداری سے باتوں ہی باتوں میں ایسی مثالیں پیش کیں جس میں ہر مسئلے کا حل اور تجاویز تھیں اور ہماری مذہبی عقیدت اور احترام وفات کے بعد کی رسومات پر ایسا خطاب کیا کہ میں بھی دنگ رہ گئی۔ مجھے اپنی بھابھی سے کوئی بات نہیں کرنی پڑی اور میں نے اپنے خاندانی طریقے کے مطابق تمام رسومات کو نبھایا۔ اس دن میں ان کی عقل اور دانش کی قائل ہو گئی۔ کاش میں ان کی گفتگو ریکارڈ کر سکتی، ان کی باتوں سے واقعی پھول جھڑتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہیں بلبل پنجاب کہا جاتا ہے۔ میں ان کے کالم چادر چار دیواری اور چاندنی کی گرویدہ تھی اور بے حد شوق سے پڑھتی۔ میری افسانوں کی کتاب مکمل ہوئی تو میں نے انہیں فون کیا کہ میں آپ کو اپنی افسانوں کی کتاب کا مسودہ بھیجنا چاہتی ہوں انہوں نے بڑی محبت سے مجھے بتایا کہ میں اسلام آباد ہوں،میں ایڈریس بھیجتی ہوں تم مجھے فوراً بھیج دو۔ ان کے پاس بالکل وقت نہیں ہوتا تھا مگر انہوں نے مجھے بتایا کہ تمہاری کتاب میں نے اسمبلی کے ڈیسک میں رکھ کر پڑھی ہے اور پھر مجھے اپنی رائے بھی بروقت بھیج کر نوازا۔میری شاعری کی کتاب پر بھی انتہائی خوبصورت پیرائے میں میرے لئے تاثرات لکھے جو میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔
بشریٰ رحمن اکثر اپنی دوست بلقیس ریاض کا ذکر ضرور کرتیں جو معروف ناول نگار، افسانہ نگارہیں، میری بلقیس ریاض سے دوستی بھی انہیں کی مرہونِ منت ہے وہ آخری ایام میں مجھے جب بھی گھر بلاتیں اس بات کا شکوہ ضرور کرتیں کہ آج کل دوستیاں صرف مطلب کی ہیں۔ انسان بیمار ہو جائے تو کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا سب دوست اپنی اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ کسی کے پاس بھی دوستوں کے لئے وقت کہاں مجھے ان کے یہ الفاظ سن کر بے حد افسوس اور دکھ ہوتا۔ بشریٰ رحمن کے شوہر کی وفات پر دوست احباب آئے، انہوں نے اسلم کمال سے بھی شکوہ کیا، بشریٰ رحمن کی وفات پر ان کے جنازے پر قریبی پرانی سہیلیاں نہیں تھیں، میں اور سعدیہ قریشی دونوں اس انتظار میں تھے کہ سب ضرور پہنچیں گے، سب دوست موبائل پر بشریٰ رحمن کی وفات کی خبر پڑھ کر فیس بک پر ان کے ساتھ بنائی گئی پرانی تصاویر کو پوسٹ کررہے تھے جبکہ ہماری مخلص پیاری دوست آپا سفرِ آخرت کی تیاری میں تھیں، یہ وہ وقت تھا جب ان کے خاندان کی تمام بیبیاں، بھانجیاں کثرت سے بآواز بلند درود شریف کا ورد کررہی تھیں ہر شخص کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ آج بشریٰ رحمن کو دنیا سے رخصت ہوئے دو سال بھی بیت گئے۔ بشریٰ رحمن نے ایک دن مجھے بتایا کہ بچپن ہی سے گھر میں میرا حافظہ سب سے تیز تھا اس وجہ سے گھر والے مجھے ”جننی“ کہتے تھے۔ گھر میں کوئی بات کسی کو یاد نہ آتی تو سب کہتے بشریٰ سے پوچھیں وہ جب کبھی کوئی بات سن لیتی یا دیکھ لیتیں تو کبھی نہ بھولتیں۔ بشریٰ رحمن بے انتہا خوبیوں کی مالک تھیں انہوں نے اپنی زندگی کو ہمیشہ متوازن رکھا وہ ہر دل عزیز، خوش شکل، خوش اخلاق، خوش لباس تھیں، وہ ایک شفیق ماں، ایک مخلص بیوی اور زمانہ شناس دلیر خاتون تھیں۔ معروف شاعرہ، افسانہ نگار، کالم نگار، ڈرامہ نگار، ناول نگار اور سفرنامہ نگار تھیں۔ وہ ہمیشہ بتاتیں کہ مجھے زمانے میں جینے کا طریقہ مردوں میں کھڑے ہو کر بات کرنے کا سلیقہ اور اعتماد میرے والد محترم نے سکھایا۔ ان کے والد حکیم عبدالرشید انہیں کہتے کہ اگر تم نے زمانے کا مقابلہ ڈٹ کر کرنا ہے تو پھر مرد کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرو۔وہ 29اگست کو بہاولپور میں پیدا ہوئیں ان کے والد عبدالرشید حکیم تھے ان کی پورے شہر میں بے حد عزت تھی۔ بشریٰ رحمن نے ابتداء میں بشریٰ رشید کے نام سے لکھنا شروع کیا۔ ایک عرصہ وہ بیسویں صدی دہلی کے شمارے میں بشریٰ رحمن ایم اے کے نام سے لکھتی رہیں۔ بشریٰ رحمن دراصل میاں عبدالرحمن سے شادی کے بعد بشریٰ رحمن ہو گئیں۔ بشریٰ رحمن نے سترہ ناول لکھے جن میں خوبصورت، پارسا، پیاسی، شرمیلی، اللہ میاں جی، لگن، بت شکن، کس موڑ پر چلے ہو، لازوال شامل ہیں ان کے سفر ناموں میں ٹک ٹک، دیدم ٹوکیو قابل ذکر ہیں۔ ان کا کالم چادر چار دیواری اور چاندی کے نام سے بے حد پسند کیا جاتا تھا۔ انہیں حکومت پاکستان نے 2007ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا ئ۔ پنجاب اسمبلی کی رکن بھی رہیں اسمبلی میں خوب بولتی تھیں جس کی وجہ سے انہیں بلبل پنجاب کہا جاتا تھا۔ انہوں نے وطن دوست کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا تھا جس کے تحت و رسالہ بھی نکالتی تھیں انہوں نے اپنے اشاعتی ادارے میں اپنی اولدہ کا نعتیہ مجموعہ بھی شائع کیا۔بشریٰ رحمن بلبل پنجاب ہی نہیں بلکہ وہ ادب کی دنیا کا چمکتا ستارہ تھیں ان کے بغیر ادب کی دنیا نامکمل ہے ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بشریٰ رحمن کے ساتھ ایک عہد بھی رخصت ہو گیا۔
کسی مانوس سی دستک کو ترستے ہیں کواڑ
شہر میں یوں تو بہت اپنی شناسائی ہے
بشریٰ رحمن