بائیسویں قسط، شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی
ترجمہ : راحیلہ خالد
خالصہ کالج میں میرے چند ہی دوست تھے۔ راج کپور میرا قریبی دوست بن گیا تھا اور وہ اکثر مجھے ماتُنگا میں اپنے گھر لے جایا کرتا تھا جہاں اس کا باپ پرتھوی راج اور اس کی حلیم الطبع و شائستہ مزاج بیوی اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھتے تھے ۔ پرتھوی راج کے بیٹے اور بھائی اور اس کی بیوی کے بھائی وہاں آئے دن آتے جاتے رہتے تھے۔ پرتھوی راج اپنی متاثر کن و با وقار شخصیت اور گرمجوش اور خوش مزاج طبیعت کی وجہ سے محلے کا ایک مشہور رہائشی بن گیا تھا۔
شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی۔۔۔اکیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دراصل میں راج کے خاندان میں رہ کر بہت پُر سکون محسوس کرتا تھا۔ آزاد خیال اور گھلنے ملنے والی دوستانہ طبیعت کے مالک کپور،کسی بھی شخص کو جو ان میں گھلنا ملنا چاہتا تھا،کسی قسم کی ہچکچاہٹ کے بغیر پورے دل سے قبول کرتے تھے۔ میں ان کی دعوتوں اور خوشی کے لمحات میں،جوان چچاؤں اور بھتیجوں کے درمیان شرمیلے پن کے کسی بھی شائبے کے بغیر خودبخود شرکت کرتا تھا۔ تمام اچھے بھارتی خاندانوں کی طرح،پرتھوی راج کو خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے عزت دی جاتی تھی اور اس کی وہ عزت اس آزادی کی وجہ سے کم نہیں ہوئی تھی جو اس نے اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو ان کی شناخت بنانے کیلئے دی تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو وہ ظاہر کریں جو اس کی خواہش تھی۔ وہ واضح طور پر اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اس کے بیٹے اپنی جداگانہ شخصیت کو برقرار رکھتے ہوئے انفرادی طور پر پروان چڑھیں۔
میں اس تمام تفصیل میں ایک خاص مقصد کے تحت گیا ہوں۔ یہ تمام تفصیل ان تمام پڑھنے والوں کو آگاہ کرنے کے لئے ہے جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ راج کپور اور میری دوستی صرف ہمارے درمیان پیشہ ورانہ مقابلے کے دوران ہوئی جبکہ ایسا نہیں ہے،ہماری دوستی محض دو افراد کی ایک ہی شعبے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہونے والی دوستی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا تعلق ہے جو بھرپور اعتماد اور عزت و احترام کے ذریعے پروان چڑھا۔
راج کے بھائی شمی اور ششی اس وقت اسکول میں تھے۔ راج کی فٹبال میں اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی دوسرے کالج میں موجود لڑکوں کی تھی۔ میرے کالج کے دوستوں کی زیادہ تعداد کرکٹ میں دلچسپی لیتی تھی اور راج بھی فٹبال سے زیادہ کرکٹ کا اچھا کھلاڑی تھا۔ لیکن وہ فٹبال بھی کھیلتا تھا اور جب اس نے فٹبال بارے میرے جوش و ولولہ اور لگن و وابستگی کو محسوس کیا تو وہ میرا بہت ہمت و حوصلہ بڑھاتا تھا۔
اپنی مردانہ وجاہت اور نیلی چمکتی آنکھوں کی وجہ سے اس نے بہت سی لڑکیوں کو دوست بنا لیا تھا اور جب لڑکیاں کھیل کے دوران اس کا حوصلہ بڑھاتی تھیں تو وہ غیر معمولی جوش و جذبے سے کھیلتا تھا۔ وہ ایک پیدائشی دوستانہ طبیعت اور دلکش نین نقش کا مالک انسان تھا۔
جب وہ کالج کی اور اپنی ہم جماعت لڑکیوں سے میرا تعارف کرواتا تھا تو میں خود کم بولتا تھا اور اس بات کو ترجیح دیتا تھا کہ انہیں بات کرنے دوں۔ میں ہمیشہ اس کی اس بات کی تعریف کرتا تھا کہ جس آسانی کے ساتھ وہ لڑکیوں کی صحبت میں رہتا تھا جبکہ میں زیادہ دیر تک لڑکیوں کی صحبت میں رہنے سے ہچکچاتا تھا۔
مجھے وہ موقع یاد ہے جب اس نے یہ کہتے ہوئے میری صلاحیتوں کو آزمایا تھا کہ ایک خوبصورت لڑکی جو کالج میں پڑھتی تھی وہ مجھ سے متعارف ہونا چاہتی تھی اور اس نے ایک لڑکی کی طرف اشارہ کیا تھا جو کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔ اس نے مجھے اکسایا کہ میں جاؤں اور اس لڑکی سے بات کروں۔
اس وقت ہمارے اردگرد چند ایک لڑکے لڑکیاں موجود تھیں اور راج مسلسل مجھے اس بات پر اکسا رہا تھا کہ میں اس لڑکی کے پاس چل کر جاؤں۔ میں بے حد گھبرایا ہوا تھا اور میں نے اس سے کہا تھا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا اس وقت جبکہ بہت سی نگاہیں مجھے گھور رہی تھیں۔ تب اس نے کہا،
’’ ٹھیک ہے،آؤ ہم کینٹین میں چلتے ہیں۔‘‘
اس نے لڑکی کو اشارہ کیا کہ وہ کینٹین میں آ جائے اور میں یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوا کہ وہ لڑکی کینٹین میں اس میز پر بیٹھی تھی جس میز کی طرف راج مجھے لے کر جا رہا تھا۔ مجھے اس لڑکی سے بات کرنا پڑی اور میرے خیال میں اسے اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ وہ مجھے دوست بنا کر اپنا وقت ہی ضائع کرے گی۔ وہ ایک دم اٹھی اور چند منٹوں میں وہاں سے چلی گئی۔