دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر47
سائرہ بانو نے اپنا گھر بھی مرے گھر کے پاس بنایا تو اسکے دل میں میری رفاقت کا خواب تھا،وہ اکثر برسرمحفل بھی گنگا کر کہتی ” میں نے گھر بنایا ہے ۔تیرے گھر کے سامنے “
سائرہ بانو کی وارفتگی اور خلوص پہلے دن سے قائم ہے اور اسکا یہ اعتماد اور خلوص میرا اثاثہ ہے ۔
پھر وہ دن بھی میری زندگی میں آگیا۔ 11اکتوبر 1966 کے دن میری اور سائرہ بانو کی شادی ہوگئی۔
لیکن اس دن سے پہلے مجھے کئی ذہنوں کو تیار کرنا تھا ۔یہ دن میری زندگی کا سب سے بڑا دن تھا ۔میں سوچ رہا تھا کہ اس دن میں کتنا خوش تھا مگر یہ کہ اس دن میرا کنواراپن بھی ختم ہورہاتھا ۔لوگ تو بہت کچھ کہتے رہے لیکں میں نے اپنے کنوارے پن پر کبھی آنچ نہیں آنے دی ۔میری زندگی کا محور چونکہ میرا خاندان تھا،اماں اور آغا جی کی وفات کے بعد اپنے بہن بھائیوں کی کفالت کا ذمہ میں نے اٹھا لیا تھا۔اب میں گھر کا سربراہ تھا ۔تین لوگ مجھ سے بڑے اور باقی چھوٹے تھے لیکن ایک کفیل کے طور میں ان کا سربراہ تھا۔وہ میرے اور میں ان کا عادی ہوچکا تھا۔میں نے بہن بھائیوں کی تعلیم و پرورش کے لئے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ان کے لئے کپڑے خریدنا میرا شوق تھا۔حتٰی کہ میں درزی کے پاس بھی سلائی کے لئے جاتا اور خود اسکو ڈیزائن بتایا کرتا تھا ۔
سال میں ایک بار میں سب کو ایک ماہ کے لئے مہاراشٹر کے پہاڑی علاقہ لونا والا میں لے جاتا۔وہاں ایک گھر کرائے پر لیتا اور سب بچے خوب کھیل کود کرتے۔جب وہ بڑے ہوئے تو ان کی خواہشات پر جس نے جتنا پڑھنا چاہا یا جس نے کہا کہ بیرون ملک جانا چاہتا ہے میں نے ان کی فرمائیشوں کو پورا کیا ۔انکی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے میں نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا بلکہ ان کی توقع سے بڑھ کر ان کے مستقبل کی خاطر زیادہ ہی کام کیا ۔
ایک روز جب میں سائرہ بانو کے ساتھ ساحل سمندر پر گیاتو اسے اپنے خاندان کے بارے بتایاکہ اس کے لئے ممکنہ طور پر کچھ مشکلات ہوسکتی ہیں ۔اسے قبول کرنا خاندان والوں کے لئے مسئلہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ میرے اکیلے کے عادی ہیں۔وہ صرف میری بات سنتے ہیں ۔اگر میں انکے سامنے آسمان سے حور بھی لے آتا ہوںتو اسے قبول نہیں کریں گے ۔وہ مجھے اب تقسیم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ،لیکن یہ مشکل ہے ناممکن نہیں۔
سائرہ بانومیری باتیں سن کر پریشان تو ہوئی لیکن میں نے اسے یقین دلایا کہ ہماری خوشیاں تبھی قائم رہ سکتی ہیں اگر ہم اپنی زندگی الگ گھر میں گزاریں۔یہ بھی مشکل کام تھا ۔بہن بھائیوں کو الگ گھر میں منتقل کرنا اتنا آسان نہیں تھا ۔میری بہنیں جو بیاہی ہوئی تھیں،سعیدہ اور فوزیہ ،وہ بھی اکثر ہمارے پاس ہی آجایا کرتی تھیں اور کئی کئی دن رہتی تھیں۔ہم سب ایک دوجے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے لہذا یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا ۔اس لئے میں نے سائرہ بانو سے کہا کہ وہ مجھے اپنے بہن بھائیوں سے جدا کرنے کی کوشش نہیں کرے گی بلکہ اس خاندان کو مزید مضبوط کرے گی ۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر46
سائرہ بانوبھی یہی سوچ رہی تھی کہ علیحدہ گھر ہی امن کی آپشن ہے ۔اس نے سڑک کے اس پار جو بنگلہ بنایا تھا وہاں اسکا شادی شدہ بھائی سلطان جس کی ایک سال پہلے شادی ہوئی تھی ، وہ اپنی بیوی ،والدہ اور دادی کے ساتھ رہ رہا تھا ۔
سائرہ بانونے سوچا کہ یہ مناسب نہیں کہ ان سے کسی دوسرے گھر میں منتقل ہونے کا کہا جائے۔وہ بزرگوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتی تھی ۔
جہاں تک میرے بہن بھائیوں کی بات تھی ،میں جانتا تھا کہ اکٹھے رہنا مشکل ہوگا،سکینہ آپا کے ساتھ گزارہ کرنا آسان نہیں تھا ۔وہ سخت مزاج تھیں۔جب والد زندہ تھے وہ ان سے بھی تکرار کیا کرتی تھی۔سب پر اس کا رعب تھا ۔اس نے اماں کے بعد پورے گھر کو سنبھال رکھا تھا ۔سکینہ آپا نے ناصر کی شادی پر بھی بڑا شور مچایا تھا۔وہ اس حق میں نہیں تھیں کہ کوئی بہو فلم انڈسٹری سے لائی جائے۔میں نے سائرہ بارے انہیں بتانے کا فیصلہ کرلیا کہ اس سے قبل کہ کوئی بد مزگی ہو ،انہیں اپنے فیصلہ سے آگاہ کردینا مناسب ہوگا ۔
میں نے سکینہ آپا کو سائرہ کے خاندان بارے بتایا کہ اسکے والد انگلستان سے پڑھے تھے ،دادا میونسپل کارپوریشن کے چیف انجینئر تھے۔والدہ نسیم بانو شفاف کردار کی مالک نامور اداکارہ تھی۔دادی شمشاد بیگم اپنے دور کی بارعب مغنیہ تھی۔سائرہ کا اپنا مزاج مشرقی تھا ۔میں نے آپا کو بتایا کہ اگرچہ میں کسی فلمی عورت سے شادی کرنے سے گریزاں تھا لیکن اب میں نے فیصلہ بدل دیا ہے ۔آپا نے خاموشی سے میری باتیں سنیں،کچھ نہیں کہا۔وہ جانتی تھیں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ میں نے جو فیصلہ کرلیا تھا وہ سوچ سمجھ کر کیا تھا اور اٹل تھا ۔
آخر وہ دن بھی آگیا جس نے پورے ہندوستان میں شہرہ پیدا کردیا۔چھ اکتوبر کے دن میری منگنی کی خبر نے سب کو ہلکا کررکھ دیا ،میرے دوست جن میں راجکپور،بلراج جی،پران وغیرہ تھے ان کے لئے یہ خبر ناقابل یقین تھی۔
شادی میں تھوڑے دن باقی تھے اس لئے میں نے اپنی فلم ”رام اور شیام“ کے شیڈول میں تبدیلی کے لئے کولکتہ جانے کا فیصلہ کیا تو سائرہ اور نسیم آپا بھی” جھک گیا آسمان “کے لئے کولکتہ جانا چاہتی تھیں۔ پس ہم نے اکٹھے سفر کا پروگرام بنایا۔
خدا کی پناہ ۔جس وقت ہم ائر پورٹ پر اترے عوام کا ایک سمندر ہمارے استقبال کے لئے ٹھاٹھیں مارہا تھا ۔نہ جانے ان کو کیسے خبر مل گئی تھی۔ہم بڑی مشکل سے گاڑی تک پہنچے تو مداحوں نے گاڑی گھیر لی اور پھر ایسا کام کردیا کہ جس کا کوئی تصوّر بھی نہیں کرسکتا تھا۔انہوں نے گاڑی ہاتھوں میں اٹھا لی اور اونچی اونچی آواز میں ”مبارک مبارک“ گانا شروع کردیا۔مداحوں نے دل سے ہماری جوڑی کو پسند کیا تھا ۔ان کا جوش محبت ہمارے لئے بہت اہم تھا ۔(جاری ہے )