میں وہی ہوں مومن مبتلا
ایک صاحب کا معمول تھا کہ عام حالات میں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کرتے کہ پروردگار مجھے اس وقت کوئی غم کوئی پریشانی نہیں۔ میں نہ بیمار ہوں اور نہ تنگ دست۔ یہ وہ حال ہے جس میں اکثر لوگ تجھے بھول جاتے ہیں۔ مگر میرے مولیٰ میں اس حال میں بھی تجھے یاد رکھے ہوئے ہوں اور کسی بیمار اور پریشان حال شخص سے بڑھ کر تجھے پکارتا ہوں اور تیری تعریف، تسبیح اور شکر کرتا ہوں۔
کچھ عرصے بعد ان صاحب کو ایک بہت شدید مسئلے کا سامنا ہوگیا جس کا حل کرنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ اب انہوں نے پروردگار سے صبح و شام اس طرح دعا کرنا شروع کر دی کہ پروردگار میں وہی خوشحال شخص ہوں جو آسانی و راحت میں تجھے نہیں بھولا تھا۔ تیری یاد اور عبادت میری زندگی رہی۔ تیرے بندوں پر خرچ کرنا اور ان کی خدمت میری عادت رہی۔ اب میں مشکل میں گھر گیا ہوں۔ میری مدد فرما۔ کچھ ہی عرصے میں معجزانہ طور پر ان کا مسئلہ حل ہو گیا۔
میں نے یہ واقعہ سنا تو مجھے اردو کے کلاسیکل شاعر مومن کا ایک بے مثال شعر یاد آگیا۔ یہ شعر ان کی ایک انتہائی خوبصورت غزل کا مقطع ہے جس میں وہ اپنے محبوب سے کہتے ہیں:
جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومن مبتلا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
حکیم مومن خان مومن کی غزل کا محبوب شاید انہیں بھول گیا تھا۔ مگر پروردگار عالم کچھ نہیں بھولتا۔ خاص طورپر جن لوگوں کو وہ ایک دفعہ باوفا کہہ دے اور جن کو وہ اپنے وفاداروں میں گن لے، ان کی ہر مصیبت اور دکھ میں وہ ان کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ زندگی کی ہر مشکل وہ ان پر آسان کر دیتا ہے۔ ہر حال میں ان کی مدد کرتا ہے۔ کبھی حکمت کا تقاضہ یہ ہو کہ سختی آبھی جائے تب بھی وہ ان کے قلب پر سکینت نازل کر کے انہیں ذہنی سکون سے محروم نہیں ہونے دیتا۔
پروردگار مصیبت میں پکارنے والے ہر شخص کے ساتھ یہی معاملہ کرتے ہیں، مگر ان لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ خصوصی طور پر کیا جاتا ہے جو خوشی اور آسانی کے لمحات میں رب کریم کو نہیں بھولتے۔ ایسا مومن جب کسی سختی میں ’’مبتلا‘‘ ہوجاتا ہے تو اسے پروردگار سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی:
جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومن مبتلا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
بلکہ اس کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ہر مشکل کو پروردگار پیدا ہونے سے پہلے ہی حل کرنے کا بندوبست کر دیتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ان کی حکمت کہ تحت اس مومن کی بھلائی ہی میں وہ مسئلہ حل ہونے میں کچھ وقت لے، لیکن ایسے کسی شخص کو بے آسرا اور بے سہارا نہیں چھوڑا جاتا۔ اور یہ ممکن بھی کیسے ہے۔ جو مہربان بے وفاؤں اور احسان فراموش لوگوں پر عنایت سے نہیں رکتا وہ اپنے وفاداروں کو کیسے بھول سکتا ہے۔
خدا کی یہی صفت ہے جو اسے اپنے بندوں کی نظر میں کائنات کی محبوب ترین ہستی بنا دیتی ہے۔ بے شک خدا ہی اس قابل ہے کہ اس سے سب سے بڑھ کر محبت کی جائے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔