کلام اقبال اور موجودہ صورتحال
ویسے تو شاعری خالصتاً ایک صلاحیت کی محتاج ہے۔ اس میں عمیق مشاہدہ اور حساسیت کا بھی بہت عمل دخل ہے اور اگر کوئی ان اوصاف سے متصف بھی ہو جائے اور پھر اس نے قرآن مجید سے شروع کرکے بے شمار کتابوں کی ورق گردانی بھی کی ہو تو پھر تو سو فیصد علامہ محمد اقبال ہی پیدا ہوتا ہے،بلکہ ایسے شخص کا ہر لحاظ سے اقبال بلند ہو جاتا ہے۔ خیالات کی بلندی اور سوچ کی پاکیزگی اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ کردیتی ہے۔ کسی بھی شخص کا نام اس کے کام کی بدولت ہوتا ہے اور علم و حکمت کی دولت سے ہر کسی کو سرفراز نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ (کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں۔ ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں) کولمبس نے امریکہ تلاش کیا تھا اور امریکہ جب بے تاج بادشاہ بن گیا تو کولمبس اور امریکہ کے تذکرے اور وہ بھی جا بجا۔ اب دیکھتے ہیں ٹرمپ کولمبس کے امریکہ کی مہار کس طرف موڑتا ہے یا مہار کا استعمال شدت سے کرکے امریکہ کو جنونی بناتا ہے۔ جنون کا علاج کرنے کے لئے علامہ محمد اقبال نے بے شمار نظمیں کہی ہیں کاش ہماری نوجوان نسل کلام اقبال پڑھ لیتی، لیکن وہ کیسے پڑھتی ان کو انگریزی زبان کا اتنا اسیر کر دیا گیا ہے کہ علامہ کی شاعری اس کے سر سے گزر جاتی ہے۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ سکولوں کالجوں کی اسمبلی تک ختم ہو گئی ہے جہاں ”لب پہ آتی ہے“ جیسی نظم پڑھا کر ہر طالب علم کے دل ودماغ میں اوج ثریا پر پہنچنے کے خواب دکھا دیئے جاتے تھے۔ خواب بھی تو بینا کو آتے ہیں پیدائشی اندھا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا، کور پن کا خاتمہ نظر کے فیض سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے والد محترم شیخ نور محمد نے ان کو نسخہ کیمیا کا مطالعہ کرنے کا ایک گُر سکھا دیا تھا اور اس گر نے سیالکوٹ کے شیخ محمد اقبال کو گرو بنا دیا تھا۔ انگریزوں سے میل ملاپ رکھنے والے، انگریزی پر مکمل عبور رکھنے والے اور انگریزی بود وباش کے حامل کو بھی دنیا ولی اللہ کہنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ شاید زبان، نسل اور لباس میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ بات تو خیالات میں وسعت کی ہے۔ بات تو سوچ کی پاکیزگی کی ہے بات تو تن من میں پختگی کی ہے۔ بات تو منزل کے تعین کی ہے۔ بات تو نظریے میں کلیریٹی کی ہے۔ بات تو جستجو اور تڑپ کی ہے۔ بات تو کچھ کرنے کی آرزو اور امنگ کی ہے تب جا کربات بنتی ہے اور بات تو پھر کسی بات کی ہے۔(میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں۔۔۔غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ صفات میں)
بتکدہ صفات میں ہر چیز کی ورائٹی ہے اسی لئے ایک وقت تھا جب ورائٹی شو بڑا ہی مقبول ہو گیا تھا اور پھر مذکورہ شو کو نظر لگ گئی۔ بد سے بدکار برا اور پھر دہشت گردی کا خوف۔ خوف کا جن ساری صلاحیتوں کو چاٹ جاتا ہے۔ اسی لئے خوف صرف اللہ کا ہونا چاہئے تب جا کر سر چڑھ کر بات کی جاتی ہے(کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی۔ کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا) اصل چیز تو ہے ہی بے نیازی۔ لیکن اس کے حصول کے لئے جبین نیاز کو ایک ہی در پر رکھنا پڑتا ہے اور پھر دردر کے دھکے ختم ہو جاتے ہیں۔ یکسوئی کا کمال یہ ہے(جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعت سلطانی۔۔۔کملی میں مگن تیری پھرتا ہے گدا تیرا) اور جن کی آنکھوں میں مدینہ و نجف کا سرمہ ڈال دیا جاتا ہے اس کی آنکھ کو ایک کے سوا کوئی نہیں بھاتا اور ایسی نظرکی دور تک مار ہوتی ہے، ایسی نظر نہ تو کسی غیر پر پڑتی ہے، نہ کسی سے مرعوب ہوتی ہے، نہ کسی کو خاطر میں لاتی ہے اور نہ کسی کے ہی سامنے جھکتی ہے۔ یہ تو ہے بے نیازی۔ اقبال اسی صفت کی تخلیق کا متمنی تھا۔ اس نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہی شاید شاعری کی تھی اور پھر اس شاعری سے وہ سوئی ہوئی قوم کو جگانا چاہتا تھا(اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے۔۔۔ مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے) امید کی کرن اور پھر امید کی کرن کے ثمرات پوری طرح سامنے لانے کا جامع پروگرام علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ وہ تسخیر کائنات کی بھی بات کرتا تھا شاید اس کے پیش نظر خطبہ حجتہ الوداع تھا، جس میں آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے باقاعدہ حکم دیا تھا کہ میرا پیغام آپ ان تک پہنچائیں جو وہاں موجود نہیں تھے اور اس طرح ہر ایک مسلمان نے مذکورہ پیغام سن کر آگے پہنچانا تھا اور یہی وہ پیغام تھا جس میں تسخیر کائنات کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں نہ صرف پیغام دیا گیا ہے،بلکہ مسلمان کو خوب جھنجھوڑا گیا ہے تاکہ اس کو کرنٹ لگے اور یہ تڑپنے پر مجبور ہو کر سوچ بچار کرنا شروع کردے(میں کھٹکتا ہو دِل یزداں میں کانٹے کی طرح۔۔۔ تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو)
کہتے ہیں جتنے منہ اتنی باتیں۔ شکوہ جواب شکوہ۔ نئی نویکلی اور منفرد شاعری۔ پڑھنے اور سننے والے کسی نے کوئی رائے دی اور کسی نے کوئی۔ تاہم بادی النظر میں کچھ یوں تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران مسلمانوں کو شکست ہوئی۔سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے ہو گئے۔ مسلمان دشمنی میں غیروں نے من مانی کی اخیر کردی اور جا بجا زیادتی، دھونس اور من مرضی۔ مسلمان پہلے ہی آپس میں ذہنی خلفشار کا شکار تھے۔ سوچ کے اعتبار سے توکّل کو اپنے معنی پہناتے تھے۔ تقدیر اور تدبیر کے فلسفے کو پوری طرح بھول چکے تھے۔ لہٰذا ان حالات میں ہر ایک کے ذہن میں مختلف سوال اور خیالات پنپنا شروع ہو گئے تھے۔ شاعر اور ادیب اپنے دور کے لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔لہٰذا اقبال نے اپنے ہم عصر مسلمانوں کے دِل اور دماغ کا مطالعہ کیا اور اللہ کا نام لے کر شکوہ لکھ دیا(تیرے کعبے کو جبینوں سے سجایا کس نے۔۔ تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے۔۔ پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں۔۔ ہم جو وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں) راہنما کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قوم کا مورال بلند رکھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ شاعر مشرق نے جواب شکوہ لکھ کر پوری امت کو شیشہ دکھا دیا اور ان میں غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنے کا تحرک کیا۔ خضر راہ اور طلوع اسلام جیسی نظموں نے بھی تن مردہ میں جان ڈالنے میں اساسی کردار ادا کیا تھا۔ آفاقی شاعری ہر دور کے لوگوں کے لئے مشعل راہ ہوتی ہے۔ آج بھی جو کچھ غزہ فلسطین میں ہورہا ہے۔ کشمیر میں جس طرح دن دیہاڑے ڈاکہ مارا گیا ہے۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے۔ اوپر سے مسلمانوں کی بے حسی۔ خدا پناہ۔ غیروں کی بولی بولنا ہمارا شعار بن چکا ہے۔ ایک دوسرے سے دست وگریبان ہو کر ہم ممتاز ہونے کی کوششوں میں ہیں۔ ان حالات میں علامہ محمد اقبال کی پوری تخلیقات نہیں تو کم از کم ری کنسٹرکشن آف ریلیجئس تھاٹ ہمارے لئے چراغ راہ ہے۔ آئیے فکر اقبال کی روشنی میں اپنی منزل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ منزل دور نہیں ہے ذرا ہمت کیجئے۔