غزہ میں بہیمیت کا ایک سال
غزہ پر اسرائیلی حملے کو ایک سال مکمل ہو گیا۔ ان 365 دنوں میں اسرائیل کی جانب سے انسان اور انسانیت کے خلاف اتنے اخلاقی، سیاسی، بین الاقوامی اور مذہبی جرائم کیے گئے جن کو شمار کرنا بھی دشوار ہے، اس ایک سال میں غزہ کے باسیوں پر کیا کیا قیامت نہیں ٹوٹی، ان پر کیا کیا آفت نازل نہیں کی گئی۔ اسرائیلی حملوں سے اس ایک سال میں 42 ہزار شہادتیں ہو چکی ہیں، یعنی غزہ کے ہر 55 میں سے ایک فرد مارا گیا ہے، ان شہیدوں میں کم از کم 16756 بچے اور 11346 خواتین شامل ہیں، جبکہ 17ہزار بچے ایسے ہیں جو والدہ یا والد یا پھر دونوں سے محروم ہو چکے ہیں، ایک سال میں اسرائیلی حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 97303 ہے، یعنی غزہ کا ہر 23 میں سے ایک باسی اس وقت زخمی ہے یا پھر جزوی یا کلی طور پر معذور ہو چکا ہے، اندازہ لگایا گیا ہے کہ کم از کم 10ہزار افراد اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں منہدم ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے دب چکے ہیں، غزہ کے عوام کے پاس اس ملبے کو ہٹانے کے لئے مناسب آلات نہیں ہیں اور وہ اس مقصد کے لئے دستیاب چھوٹے اوزاروں اور آلات کا استعمال کر رہے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح ٹنوں ملبہ ہٹانا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ پر 75ہزار ٹن بارودی مواد گرایا، جس کے نتیجے میں پورا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ یہ ملبہ 42 ملین ٹن ہے اور اس کو صرف اس جگہ سے ہٹانے میں کئی سال لگ جائیں گے، جبکہ ملبے میں ایسے بم بھی موجود ہو سکتے ہیں،جو ابھی پھٹے نہ ہوں اور جو ملبے کو ہٹانے کے عمل کے دوران پھٹ سکتے ہیں، کسی بھی جنگ میں میڈیکل سینٹرز پر حملے نہیں کیے جاتے، لیکن اسرائیلی فوج نے یہ روایت توڑ دی ہے۔ غزہ میں ہسپتالوں، پناہ گاہوں، میڈیکل سینٹرز حتیٰ کہ سکولوں تک کو گولہ باری اور بموں سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 80 ہیلتھ سینٹرز غیر فعال ہو چکے ہیں، 34 ہسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، 131 ایمبولینسز کو تباہ کر دیا گیا ہے،162 ہیلتھ انسٹیٹیوشنز کو نابود کر دیا گیا ہے۔ مناسب علاج اور کھانے پینے کے مناسب وسائل نہ ہونے کی وجہ سے غزہ کی آبادی کا 75 فیصد، یعنی کل2.3 ملین آبادی میں سے 1.7 ملین آبادی متعدی بیماریوں کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ اس آبادی کا 96 فیصد خوراک کی قلت کا شکار ہے اور مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے اموات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ Integrated Food Security Phase Classification (IPC) کے مطابق غزہ کی 2.1 ملین آبادی قحط جیسی صورت حال کا شکار ہے۔
جب سے یہ ڈیٹا میرے سامنے آیا ہے،مسلسل اس سوچ میں ہوں کہ کسی جانور کو تکلیف اور مشکل میں دیکھ کر دکھی ہو جانے والے ممالک، لوگ اور تنظیمیں (خصوصاً مغربی ممالک اور تنظیمیں) غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں؟ یاد آیا ایک ایلان کُردی ہوتا تھا،جو 2015ء میں اپنی فیملی کے ساتھ میڈیٹیرین سمندر پار کرتے ہوئے کشتی ڈوب جانے کی وجہ سے جان بحق ہو گیا تھا۔ یہ لوگ شام میں خانہ جنگی سے نجات کے لئے یورپ جانا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لئے ایان کے والد نے انسانی سمگلروں کو بھاری رقم بھی ادا کی تھی۔ وہی ایان کُردی جس کی لاش ترکیہ کے ایک ساحل پر اوندھی پڑی ملی تھی اور ایک ٹرکش فوٹوگرافر کی طرف سے کھینچی گئی ایان کی تصاویر نے پورے یورپ میں زلزلہ سا برپا کر دیا تھا، اس تصویر کے منظر عام پر آنے کے بعد ہی یورپ نے شام سے آنے والے پناہ خواہوں کے لیے اپنی سرحدیں وا کی تھیں۔ میں حیران ہوں کہ 16 ہزار سے زیادہ بے گناہ‘ معصوم فلسطینی بچوں کی بہیمانہ ہلاکت نے ان ممالک‘ اقوام اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیموں پر لرزہ کیوں طار ی نہیں کیا؟
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا ادارہ اس سوچ کو پیش نظر رکھ کے بنایا گیا تھا کہ آئندہ اس طرح کی جنگوں اور اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی سے بچا جا سکے، اور دنیا میں پائیدار امن قائم کیا جا سکے، لیکن مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ اس طرح کا پائیدار امن قائم نہیں ہو سکا، جس کی توقع کی جا رہی تھی اور میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ بعض ممالک کو دیا گیا ویٹو کا حق ہے۔ دور کیا جانا ہے اسرائیل کا معاملہ ہی لے لیں، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اسرائیل کے خلاف جو بھی قرارداد منظور کی جاتی ہے اس کو امریکہ ویٹو کر دیتا ہے اور اگر امریکہ کی جانب سے کسی قرارداد کو ویٹو نہ کیا جائے اور وہ پاس ہو جائے تو اسرائیل اس پر عملدرآمد سے یکسر انکار کر دیتا ہے اور عالمی برادری کے پاس کوئی ایسا طریقہ باقی نہیں رہ جاتا جس کو بروئے کار لا کر وہ اپنی قرارداد پر عملدرآمد کروا سکے۔یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ جب کسی ملک پر پابندیاں عائد کی جانا ہوتی ہیں تو وہ فوری طور پر عائد ہو جاتی ہیں، لیکن جب اسرائیل کا معاملہ آتا ہے تو پچھلے ایک سال میں اس نے کیا تباہی مچائی ہے اس کا کچھ ذکر میں نے سطورِ بالا میں کیا ہے، لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ حد یہ ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا ہے اور ان کے اپنے ہاں آنے پر پابندی لگا رکھی ہے اس کے باوجود کچھ ممالک ایک طرف امن اور یکجہتی کا واویلا کرتے ہیں تو دوسری طرف اسرائیل کو اسلحہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے اور اسے ہر طرح کی طاقت بھی فراہم کی جا رہی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔ تو کیا یہ حق فلسطین یا غزہ کے لوگوں کو حاصل نہیں ہے؟ کیا وہ اس دنیا کے باسی نہیں ہیں؟ کیا اقوام متحدہ انہیں کسی قسم کا کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتی؟ جس معاملے کی بنیاد ہی بے انصافی پر رکھی گئی ہو وہاں سے انصاف کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ اقوام عالم اگر مشرق وسطیٰ میں جنگ کی آگ کو بجھانا چاہتی ہیں تو اس کا ایک ہی حل ہے، اسرائیل کو اسلحے اور مالی امداد کی مکمل بندش اور اس کی پروڈکٹس کا مکمل بائیکاٹ۔