ہم کب بدلیں گے؟
کوئی خواہ مخواہ خود کو پریشان کئے بیٹھا ہو تو اُس کے لئے ضروری ہے کسی ہسپتال یا کچہری کا چکر لگا کے افاقہ حاصل کرے،اِن دو جگہوں پر جا کے اندازہ ہوتا ہے زندگی کتنی دُکھی ہے۔اتفاق سے دونوں مقامات میری دسترس میں یوں رہتے ہیں کہ وہاں میرے دوست اور شاگرد بیٹھے ہیں۔آنا جانا لگا رہتا ہے،میرے ایک پرانے دوست لندن میں رہتے ہیں، پانچ دہائیوں سے زیادہ ہو گئے وہاں رہتے ہوئے اُن سے جب کبھی کچہریوں اور ہسپتالوں کی بات ہو تو ایسی کہانیاں سناتے ہیں کہ سیدھا سادہ جھوٹ لگنے لگتی ہیں۔ ہسپتالوں میں وہ ہڑبونگ اور نفسا نفسی نہیں،جو ہمارے ہاں موجود ہے اور کچہریوں میں تو ایسا پرسکون ماحول نظر آتا ہے، جیسے کچہری جائے قیامت نہیں جائے رحمت ہے۔ سب کچھ ایک طریقہ کار اور نظم و ضبط کے ساتھ ہوتا نظر آئے گا۔ خیر یہ آج کا موضوع نہیں کہ تقابل کیا جائے،اصل بات یہ ہے ہم نے معاشرے کو نظم و ضبط سکھایا ہی نہیں۔آپ یہ دیکھیں کہ ریلوے کا پھاٹک بند ہو تو انتظار کرنے کی بجائے پٹڑی عبور کرنے میں جلدی نظر آئے گی، حتیٰ کہ سائیکلیں کندھے پر اُٹھا کر ریلوے لائن کراس کرنے والے بڑی تعداد میں نظر آئیں گے۔ایک طرف یہ جلد بازی ہوتی ہے تو دوسری طرف لائن کے اُس پار اگر کوئی تماشا لگا کے بیٹھا ہو تو اُسے دیکھنے کے لئے ہم گھنٹہ ضائع کر دیں گے،جہاں جو کچھ لکھا ہو گا اس کے برعکس کام کرنا ہم اپنا حق سمجھتے ہیں۔ایک بار میں نے اپنے بھائی رائے فاروق سے پوچھا جو فلم ڈائریکٹر رہے کہ مولا جٹ فلم اتنی ہٹ کیوں ہوئی تھی۔کہنے لگے یہ شریف آدمی کو جوتے مارنے والا معاشرہ ہے اِس کے سامنے آپ بدمعاش کھڑا کر دیں یہ اُس کے پاؤں دھو دھو کے پیئے گا۔مولا جٹ کیونکہ ایک طاقتوروں کو للکارنے والا کردار تھا اس لئے ہٹ ہو گیا کہ لوگ اپنی محرومیاں اور کمزوریاں ایسے کرداروں کو سوچ کر دور کرتے ہیں۔کہنے لگے اس ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جتنی عزت کی گئی وہ سب کے سامنے ہے،لیکن اُن کے مقابلے میں بلا ٹرکاں والا کا کردار لوگوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔معاشرہ جس انداز سے سوچے گا اُس میں اسی قسم کے کردار پیدا ہوں گے۔یہ فطرت کا اصول ہے اور اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔بات تو سچ ہے کہ ہم لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ سیاست کو اُٹھا کر دیکھ لیں، رشتہ داروں کی ایک کھیپ نظر آئے گی جو نسل در نسل اس ملک پر مسلط ہے۔یہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی انتخابات میں حصہ لیتے تو شاید ضمانت ضبط کرا بیٹھتے، کیونکہ اُن میں مولا جٹ والی صفات ہی نہیں تھیں اب تو لگتا ہے فارم45 اور47 بھی بے کار ہو گیا ہے۔عوام نے دو برائیوں ہی سے ایک برائی کو منتخب کرنا ہوتا ہے یہی ہماری جمہوریت کی سب سے تکلیف دہ حقیقت ہے۔
ازل سے غریب عوام کا رونا ہے کہ یہاں سرکاری محکمے کام ٹھیک نہیں کر رہے اُن میں لوٹ مار اور رشوت ستانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔آج کل آپ کو ڈی سی اور کمشنروں کے دفاتر کی عمارتوں پر پینا فلیکس نظر آئیں گے جن پر وزیراعلیٰ مریم نواز کی بڑی سی تصویر لگا لگا کے لکھا ہو گا ”مریم نواز شریف کے وژن پر عمل کرتے ہوئے آپ کے مسائل کا حل آپ کی دہلیز پر“۔ او بھائی یہ کیا ڈرامہ ہے یہ افسر کیا صرف ہر وزیراعلیٰ کے وژن پر چلتے ہوئے عوام کو گڈ گورننس دے سکتے ہیں، کیا ہماری بیورو کریسی ذہنی طور پر معذور ہے،کیا اس کا اپنا کوئی وژن نہیں،اُس کی تربیت کے لئے جو نیپا شیپا جیسے مہنگے ادارے بنے ہوئے ہیں،اُن میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ جو بھی وزیراعلیٰ آئے،اُس کے نام کی تشہیر کر کے اپنے عیبوں پر پردہ ڈالا جائے۔اندھے کو بھی نظر آتا ہے کہ اس طرح صرف وزیراعلیٰ کو خوشامدانہ طریقے سے خوش کیا جاتا ہے۔زیادہ توجہ فوٹو سیشن پر بھی اسی لئے ہوتی ہے کہ ہر صبح لاہور میں مانیٹرنگ آفس اس قسم کی سرگرمیوں کو نوٹ کرتا ہے اور مریم نواز کو ایسی رپورٹیں مع وڈیوز دکھائی جاتی ہیں یہ تکنیک عثمان بزدار کے دور میں اختیار کی گئی۔جھوٹی سچی رپورٹیں بنا کر لاہور بھیجی جاتیں اور نوکری پکی کر لی جاتی۔ اتفاق سے ملتان ڈویژن کی کمشنر بھی ایک خاتون مریم خان ہیں،اُن کے زیر نگرانی چار اضلاع ہیں، یعنی چار ڈپٹی کمشنر کام کر رہے ہیں وہ روزانہ اپنا ایک فوٹو سیشن ضرور فیس بُک پر شیئر کرتی ہیں،جس میں وہ کسی جگہ کا معائنہ کر رہی ہوتی ہیں،کسی ہسپتال کے دورے پر جاتی ہیں یا پھر صبح سویرے واسا کے افسروں کو لے کر صفائی کے معاملات کا جائزہ لیتی ہیں، بنیادی طور پر یہ اچھی بات ہے،مگر یہ ان کا کام نہیں۔ یہ کام ڈپٹی کمشنروں کو کرنے چاہئیں،صرف دورہ کر کے اپنی ڈیوٹی سے سرخرو ہو جانا کوئی مقصد نہیں نہ ہی اس کا عوام کو کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ہاں اس سے لاہور بھیجنے کے لئے ایک رپورٹ ضرور بن جاتی ہے اسی طرح کا معاملہ کھلی کچہریوں کا ہے۔کل ہی ایک دوست نے مظفر گڑھ سے بتایا ضلعی افسر نے کھلی کچہری کا وقت شام چار بجے کا دیا تھا،لیکن وہ تین بجے آ کر تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد چلے گئے اور عملے نے عذر یہ تراشا کوئی سائل ہی نہیں آیا،حالانکہ وقت مقررہ پر بیسیویں افراد کھلی کچہری کے لئے پہنچے اور مایوس واپس لوٹ گئے۔شعبدہ بازی اور ڈرامہ بازی سے اگر گڈ گورننس قائم ہو سکتی تو دنیا اسی نظام کو اپناتی۔یورپ اور امریکہ میں ایک خود کار نظام ہے جس سے عوام کی فوری داد رسی ہوتی ہے۔اُس میں افسروں کو راجہ اِندر جیسے اختیارات حاصل نہیں ہوتے کہ وہ مغلیہ بادشاہوں کی طرح دربار سجائیں اور لوگوں کو ریلیف فراہم کریں،جو افسر اپنے دفتر کی کرسی پر بیٹھ کر لوگوں کے لئے کچھ نہیں کر سکتا وہ کھلی کچہری لگا کے کون سا تیر مارے گا۔ حیرت ہے کہ سالہا سال سے حکومتیں بدلتی رہیں یہ جعلی نظام نہیں بدلا۔میرے ایک سی ایس پی دوست نے بتایا جو کئی ضلعوں میں ڈپٹی کمشنر، ڈویژنوں میں کمشنر اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر رہے۔اُن کا کہنا تھا ہم افسر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ کرسی میں بہت کشش ہوتی ہے کوئی بھی نہیں چھوڑنا چاہتا اس لئے ہم سب بزدلوں کی طرح مصلحت سے کام لیتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا میں ایک بار اپنے ضلع کے بڑے سرکاری ہسپتال کا دورہ کرنے گیا،خلق ِ خدا کا برا حال تھا، ادویات باہر سے لانے اور ایکسرے تک باہر سے کرانے کو کہا جا رہا تھا۔مجھے ایک ایسی بوڑھی عورت بھی ملی جس کا جوان بیٹا موت و حیات کی کشمکش میں تھا اور اُسے بیڈ تک نہیں دیا گیا تھا۔یہ سب دیکھ کر مجھے غصہ آ گیا، میں نے ایم ایس کی سرزنش کی اور عملے کو جھاڑ پلائی۔ یہ میرا اُس وقت بے ساختہ عمل تھا،کیونکہ حالات بڑے دگرگوں تھے،دفتر آ کر میں نے سیکرٹری ہیلتھ سے بات کی، انہیں رپورٹ بھیجی تو انہوں نے ایم ایس اور تین ذمہ دار ڈاکٹروں کو معطل کر دیا۔اس کے بعد میرے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے، سیاستدان بھی ان کے ساتھ مل گئے نتیجہ یہ نکلا مجھے تبدیل کر دیا گیا اب آپ خود بتائیں کون سا ڈی سی ہسپتالوں کے دورے کا رسک لے سکتا ہے۔ ہاں البتہ وہ فرینڈلی دورے ضرور کرتا ہے تاکہ اوپر رپورٹ جاتی رہے۔
پہلے مافیاز بہت اوپر کی منزل پر ہوتے تھے اب بہت نیچے کی منزل پر آ گئے ہیں، قانون، ضابطے، قاعدے اور روایات ہوا ہو گئی ہیں اب اکٹھے ہو کر نظام کو جام کر دو اور ہر اُس عمل کو ناکام بنا دو جو کرپشن،نااہلی،اختیارات کے ناجائز استعمال اور من مانی کو روکنے کے لئے اختیار کیا جائے، ساری دنیا جانتی ہے ملتان کی دو سڑکیں روزانہ عوام کے لئے بند ہو جاتی ہیں اور لاکھوں افراد اذیت کا شکار ہوتے ہیں،مگر کوئی افسر کوئی تمن خان سیاستدان چوک کچہری اور ہائیکورٹ کے باہر والی سڑک کو ناجائز پارکنگ سے آزاد نہیں کرا سکتا، ٹریفک پولیس کے وہ لفٹرز جو روزانہ شہریوں کی جیبوں سے لاکھوں روپے نکلواتے ہیں ان سڑکوں پر کھڑی گاڑیوں کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے،وکلاء کی طاقت انہیں جھاگ کی طرح منہ پھیر کے بیٹھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔