”قلعہ،چلہ، گلہ اورصلہ“

 ”قلعہ،چلہ، گلہ اورصلہ“
 ”قلعہ،چلہ، گلہ اورصلہ“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پُرانے زمانوں میں ہمارے بزرگ قلعے بھی بناتے تھے اورچلے بھی لگاتے تھے۔ کسی کو اُن سے گلہ نہیں ہوتاتھا اور وہ بھی کسی سے گلہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے ہر عمل کا صلہ خالقِ کائنات سے مانگتے تھے۔ آخرت کو دنیا پر مقدم جانتے تھے۔ اپنا فرض پہچانتے تھے۔ پھر اُمت پر ایک وقت ایساآیا، جب ہم نے قلعے بنانا بند کردیئے اور چلے لگانے کاہمارا رحجان روز بروز بڑھتا گیا۔ ایسے ہی وقت کے بارے میں شاعر نے کہا تھا ”کچھ نادان لوگ اُس وقت سجدوں میں گر جاتے ہیں جب وقتِ قیام آتا ہے“۔ نہ قلعے بنانے میں کوئی حرج ہے اورنہ ہی چلے لگانے میں مگر حالات کا خیال رکھنا چاہیئے۔ ہمارے ساتھ ایک المیہ یہ ہوا کہ جو قلعے بنانے کا وقت تھا وہ بعض اوقات ہم چلے لگانے میں ضائع کرتے رہے۔ ہاروت اورماروت کے بارے میں بھی کہاجاتا ہے کہ وہ بابل کے کنواں میں الٹا لٹکے رہتے تھے اورلوگوں کو بتا کر جادو سکھاتے تھے۔ کئی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ چلہ کشی بہت ضروری ہے۔ چلہ معکوس بھی ہوتا تھا۔ بعض لوگوں کا چلہ محسوس بھی ہوتا تھا۔ انہیں کم مگر ان کے اردگرد کے لوگوں کوزیادہ اور کبھی کبھی تو بہت ہی زیادہ۔ آج کل نہ قلعے بنانے والے رہ گئے ہیں اور چلے لگانے والے بھی کم ہو گئے ہیں۔ کافی قلعے مٹ چکے ہیں۔ چند قلعے جو باقی رہ گئے ہیں، وہ بھی لگتا ہے کہ زبان حال سے خلقت کا گلہ کررہے ہیں۔اب ہمارے ہاں گلہ کرنے کا رواج زوروں پر ہے۔ صلہ دینے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہر کسی کو کسی نہ کسی سے کوئی نہ کوئی گلہ ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ جو قلعے وقت کے تھپیڑے برداشت نہیں کر سکے اور جن کے کھنڈر یہ گواہی دیتے ہیں کہ ان قلعوں کی عمارات کبھی بہت عظیم الشان ہوا کرتی تھی، وہ بھی ہماری عدم توجہ کا گلہ کرتے ہیں۔ کئی قلعوں کامٹنا ہماری غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ سوال بھی بڑا دلچسپ ہے کہ کون کس کو مٹاتا ہے۔ ایک شاعر نے بالکل بجا طور پر اللہ تعالیٰ سے پوچھا تھا کہ ”زمانہ مجھ کوکس لیئے مٹاتا ہے، میں لوح جہاں پرحرف مکرر نہیں ہوں“۔ اب نہ قلعوں کانشان ملتا ہے اورنہ ہی اُن بہت سارے مقامات کاجہاں پر لوگ ”چلے“ لگاتے تھے۔

قلعہ بنانے والوں کو بھی زندگی سے گلےِ رہے اور چلہ لگانے والوں کو بھی زندگی سے بہت گلےِ رہے۔ لوگوں کو بھی قلعے بنانے والوں سے بہت گلےِ رہے اور چلہ لگانے والوں سے بھی لوگوں کو بہت گلےِ رہے۔ آج اگر ہم چولستان کاسفر کریں اور اپنے وقت کے بہترین قلعوں کی بدترین حالت دیکھیں تو لگتا ہے تمام قلعے ہم سے گلہ کررہے ہیں کہ ہم نے اپنے سے پہلے لوگوں کے انجام سے کچھ نہیں سیکھا۔ قرآن ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ ہم زمین پر چل پھر کر دیکھیں اوراپنے سے پہلے لوگوں کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔  اللہ تعالیٰ ہمیں مختلف خطوں کی سیر کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ ہم اُن لوگوں کے انجام سے واقف ہوسکیں جو بہت زیادہ قویٰ تھے مگر جھٹلانے والوں میں سے تھے۔ اُن لوگوں نے بھی زمین پر اپنی قوت کے نشان چھوڑرکھے تھے مگر جب خدائے بزرگ برتر نے اُن کے نفس کی سرکشی کے نتیجے میں اُن کو پکڑا تو اُن کے نشان تک مٹ گئے۔ فرقان میں مذکور ہے کہ بہت سی قومیں اپنے اعمال کے صلہ میں تباہ کر دی گئیں۔ بڑے بڑے قلعے اُن کے کسی کام نہ آسکے۔ عین تباہی کے وقت اپنے جھوٹے معبودوں کا گلہ بھی اُن کی کوئی مدد نہ کرسکا۔ انسان کو اپنے نفس کاقلعہ مسمار کرنے کیلئے چلہ کشی کرنی چاہیئے۔ دل کی زمین نم ہو تو زندگی سے گلہ نہیں رہتا، نظر میں ابدی صلہ رہتا ہے۔ ایک شاعر کو اپنی زندگی سے یہی گلہ تھاکہ اُس کو ساتھی بہت دیر سے ملاتھا۔ بندے کا اصل ساتھی اُس کا نیک عمل ہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ انسان کو یہ ساتھی عموماً دیر سے ملتاہے۔ ہماری جوانی بدعملی اور جہالت کی نظر ہوجاتی ہے۔

کتابوں میں مذکور ہے کہ قبر میں عمل انسانی صورت میں نظر آئے گا۔ عمل اچھے ہوں گے توصورت بہترین ہو گی۔ عمل بُرے ہوں گے تو صورت خوفناک ہوگی۔ انسان کو اصل گلہ اپنی ذات سے ہونا چاہیئے۔ فرقان میں مذکور ہے کہ انسان جھگڑالواور جلدباز ہے۔ انسان اپنی پیدائش اور کائنات پر غور وفکر نہیں کرتا۔ انسان کو وہ وقت یاد نہیں رہتا جب وہ کوئی قابل ذکر شئے نہیں تھا۔ اللہ پاک نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ رحمن کی بابرکت ذات کے سوا ہرکسی کو فنا ہے۔ بقا صرف ربِ کریم کی ذات کو زیبا ہے۔ قلعوں کے آثار بھی مٹ گئے اور بڑے بڑے نامیوں کے بھی نشان تک نہ رہے۔ عزت اور ذلت خالق کائنات نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ دلوں کا سکون اُس نے اپنے ذکر میں رکھا ہے۔ فلاح اُسی کیلئے ہے جس نے اپنے نفس کا قلعہ مسمار کرکے اپنا تزکیہ کر لیا اور تکبر کوترک کرکے تدبر کو اپنا شعار بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کو زمین پر خوب سیاحت کرنی چاہیئے او رغور کرناچاہیئے کہ پہلے لوگوں کا انجام کیسا ہوا۔ اکثر مشرکین پرعذاب نازل کیا گیا۔ بد اعمال لوگ تباہ کردیئے گئے۔ آخرت کاگھر اُن لوگوں کیلئے بہتر ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں۔ اللہ پاک سے صرف اہل علم ہی ڈرتے ہیں۔ اہل علم کا صلہ ”عیشۃ راضیۃ“ ہے۔ جواپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے، اُس کیلئے دوجنتیں ہیں۔ اہل جنت میں سے ہونا ہی حقیقی کامیابی ہے۔ جو اپنے نفس کے قلعے سے باہرنہ نکل سکے،روزِ جزا اُن کو گلے ہی گلے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عہدِالست کا بھرم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں اپنے نفس کے شر سے بچائیں اور دیگر تمام مخلوقات کے شر سے بھی محفوظ رکھیں۔ جس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے اور پہاڑ رنگی ہوئی اون کی طرح ہوں گے۔ اِس دن ہمیں ہمارے اعمال کا بہترین صلہ عطا فرمائیں۔ ہمیں دہکتی ہوئی آگ سے بچالیں اور اپنے دامنِ رحمت میں چھپا لیں۔ آمین۔

مزید :

رائے -کالم -