برف پاؤ
پنجاب میں کوئی نقصان ہو جائے۔ کسی کی جان چلی جائے۔ مالی خسارہ ہو جائے۔ تو کچھ عرصہ کے بعد کہتے ہیں ”مٹی پاؤ۔“ پنجاب کا یہ کلچر پاکستان کا کلچر بن گیا ہے۔ پہلے لوگ ”مٹی پاؤ“ کے بعد ”روٹی کھاؤ“ کا مشورہ دیتے تھے اب لوگ صرف ”پیسے بناؤ“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ پورے ملک میں مری والوں پر تنقید ہو رہی ہے کہ انہوں نے سیاحوں کو بری طرح لوٹا ہے۔ 3ہزار روپے والا کمرہ پچاس ہزار میں دیا۔ انڈہ پانچ سو روپے کا ملتا رہا ہے۔پانی آب حیات کی حیثیت سے دو سو روپے فی بوتل فروخت ہوتا رہا ہے۔ جن گاڑیوں سے لاشیں نکلی ہیں ان کو مقامی لوگوں نے لوٹ لیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ”بائیکاٹ مری“ کی مہم بھی جاری ہے۔ برف باری نے بہت سے ہوٹل والوں کو امیر بھی بنا دیا ہو گا۔
مری میں بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کار میں پھنسے ہوئے لوگوں کو مفت رہائش دی۔ مفت کھانا دیا اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی خاصی مدد کی۔ مگر مری کے شہریوں کا ایثار آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں۔ مری میں برف کے طوفان آتے رہتے ہیں۔ اس علاقے میں گاڑیاں بھی پھنستی ہیں۔ ہوٹلوں کے ریٹ بھی ہوشربا ہو جاتے ہیں۔ مگر عام طور پر ماضی میں ایسے واقعات پر برف ڈال دی جاتی ہے۔ مری والے اپنی بدتمیزی میں عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں مگر اس کے باوجود مری آباد رہتا ہے۔ اس کے ہوٹلوں میں بکنگ ہوتی رہتی ہے۔ لوگ کرائے کی مد میں بھاری رقم بھی خرچ کرتے ہیں۔ بے عزتی بھی کراتے ہیں مگر موسم کو انجوائے کرنے اور برف میں سیلفیاں بنانے کے لئے ہر ناخوشگوار بات پر برف ڈال دیتے ہیں۔
مگر گزشتہ دنوں آنے والا برف کا طوفان اتنا بڑا تھا کہ اس نے ہر چیز بے نقاب کر دی ہے۔ پنجاب کے بہت سے سیانے لوگ اصرار کرتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں جرائم کی تعداد میں اس وقت اضافہ ہوا جب وہاں تھانے قائم ہوئے اور اگر کسی علاقے میں پولیس کا گشت بڑھ جائے تو وہاں چوری کی وارداتوں میں ضرور اضافہ ہوتا ہے۔ اس پر پولیس کے پاس رپورٹیں بھی موجود ہیں۔ مگر عام طور پر ایسی رپورٹوں پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔
برف باری کے سانحہ کے بعد مری کو ضلع بنانے کا اعلان کر دیا گیا ہے اور اس فیصلے سے یہ امید وابستہ کی جا رہی ہے کہ مری ضلع بن گیا تو یہاں برف باری کے طوفانوں کی آمد پر پابندی لگ جائے گی۔ ہمارے ایک بزرگ سابق وفاقی وزیر تعلیم اصرار کرتے تھے کہ رینالہ خورد کو تحصیل نہ بنایا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ جتنی ایڈمنسٹریشن عوام کے قریب جاتی ہے اتنا ہی اس علاقے میں کرپشن میں اضافہ ہوتا ہے۔ چونکہ اعلیٰ افسروں کی مختلف ضروریات کا بوجھ اس علاقے کے عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
مری میں جو کچھ ہوا اس نے یہ ثابت کر دیا کہ ہمارے اداروں کے پاس ایک کمال ہے کہ انہیں کچھ نہ کرنے میں کمال حاصل ہے۔ موجودہ حکومت کے ایک وزیر باتدبیر جن کا چہرہ ٹی وی سکرین سے بھی بڑا ہے، انہیں تو سیاحوں کے ہجوم میں پاکستان کی خوشحالی نظر آئی۔ ان کے چہرے کی حرکات و سکنات سے مایوسی جھلک رہی تھی اور وہ یہ پیغام دے رہے تھے کہ ہم نے پٹرول مہنگا کر دیا۔ تاریخ سازمہنگائی کر دی۔ روزگار ختم کر دیئے مگر یہ سخت جان قوم اگر پھر بھی تفریح کے لئے رقم نکال لیتی ہے تو اب وہ مزید کیا کر سکتے ہیں۔
برصغیر تقسیم ہوا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے۔ قاتل کوئی اجنبی نہیں تھے۔ وہ صدیوں سے ایک دوسرے کے پڑوسی تھے۔ مگر جب وحشت آنکھوں میں اتری تو انہوں نے ان لوگوں کو قتل کر دیا جن کا وہ باپ اور بھائی کی طرح احترام کرتے تھے۔ ان عورتوں کی عصمت دری کر دی جنہیں وہ ماؤں اور بہنوں کا رتبہ دیتے تھے۔ انسانی کردار میں اس تبدیلی پر زیادہ غور نہیں کیا گیا۔ فسادات کی آگ بجھی تو اس پر بھی مٹی ڈال دی گئی۔ سانحہ مری کا الزم مری کے ہوٹل والوں پر لگایا جاتا ہے۔ برف باری کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ مختلف سرکاری اداروں کے کردار کو بھی ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ اس پر حکومت نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ہے۔ امید ہے کہ یہ تحقیقاتی کمیٹی سب کو بری کر دے گی اور اس کا ذمہ دار برف باری کے طوفان کو قرار دے دے گی اور اس کے خلاف تعزیرات پاکستان کے تحت سخت کارروائی کرنے کی سفارش کرے گی۔ لیکن زیادہ امید یہ ہے کہ اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر برف ڈال دی جائے گی اور کسی نئے اور بڑے سانحے کا انتظار کیا جائے گا۔
1947ء میں پاکستان قائم ہوا تو 1935ء کے ایکٹ کو نئی ریاست کے آئین کا درجہ دے دیا گیا۔ اس میں تبدیلی صرف یہ کی گئی کہ جہاں ملکہ برطانیہ کی ”رعایا“ کے الفاظ تھے، انہیں ”عوام“ کے الفاظ سے تبدیل کر دیا گیا۔ عملی طور پر پاکستان کے لوگ کبھی عوام نہیں بن سکے وہ رعایا ہی رہے۔ انہوں نے تاریخ کے اکثر ادوار میں تو یہ سمجھنے کا تردد نہیں کیا کہ وہ کس کی رعایا ہیں۔ ان میں رعایا کی ذہنیت رکھنے کے لئے بہت سے لوگوں اور اداروں نے اہم کردار ادا کیا۔
ِکچھ عرصہ قبل ہم نے برطانوی آئین پر ایک انگریز دانشور کی کتاب پڑھی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ برطانیہ میں آزادی کا کریڈٹ اس کے اداروں کو دیا جاتا ہے اور یہ بڑی حد تک درست بھی ہے۔ مگر برطانیہ میں آزادی کی اصل روح اس کے عوام ہیں۔ اگر ان اداروں کو توڑ بھی دیا جائے تو عوام کی آزاد روح ان اداروں کو کسی دوسری صورت میں دوبارہ قائم کر لے گی۔ اس مصنف نے ایک بصیرت افزا بات یہ بھی لکھی تھی کہ لوگوں کو زبردستی غلام بنایا جا سکتا ہے۔ زبردستی آزاد نہیں کیا جا سکتا۔ مری کے سانحے کے پس منظر میں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر لوگوں نے محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں پر توجہ کیوں نہیں دی۔ کیوں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مری چلے گئے۔ اگر وہ عوام ہوتے تو ایسا نہ کرتے۔ وہ رعایا کے ذہن سے سوچ رہے تھے ایسی رعایا جو ہر اختیار اور ذمہ داری حکومت میں دیکھتی ہے۔ پاکستان میں تو آپ خاصے پڑھے لکھے شخص سے بھی صرف سوال کریں کہ آپ کے پاکستان کے شہری کے طور پر حقوق کیا ہیں تو وہ آپ کو کوئی جواب نہیں دے گا۔ پبلک سروس کمیشن میں بھی پاکستانی شہری کے حقوق کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا کیونکہ ایسی صورت میں تمام امیدواروں کو فیل کرنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
مری کا سانحہ ایک وارننگ ہے جس نے مری کے ہوٹل والوں کے کردار کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ سوچ، یہ زہر معاشرے کے ہر طبقے میں پھیل گیا ہے۔ مٹی پاؤ یا برف پاؤ اس کا علاج نہیں ہے۔ اس سوچ سے جو خطرناک گیس پیدا ہو رہی ہے وہ آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو مفلوج کر رہی ہے۔ ہم کسی احساس کے بغیر بڑی تیزی کے ساتھ موت اور مکمل تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایسی تباہی جس میں مٹی پاؤ یا برف پاؤ کی سہولت بھی حاصل نہیں ہو گی۔