ڈاکٹر فاروق کا "دبستان عادل"

          ڈاکٹر فاروق کا "دبستان عادل"
          ڈاکٹر فاروق کا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کون ہے جو آج کسی واٹس ایپ گروپ میں نہیں ہوگا۔ مجھے احباب نے درجنوں گروپوں میں  ڈالا، پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔ کراچی کے ہمارے ایک برادر بزرگ ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم نے ایک دفعہ فرمایا: "میں تو گھر سے نکلتا ہی نہیں. اماں شہزاد بھائی! لوگ ہیں کہ باؤلے ہوئے پڑے ہیں۔ کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ منہ سے لفظ نکلا نہیں کہ تردید تکذیب کے ڈونگرے برسنا شروع ہو جاتے ہیں ". مرحوم کا یہ بیان 25 سال قبل کے کراچی یعنی برصغیر کے مسلمانوں کے تہذیبی مرکز کے بارے میں تھا۔ مدت طویل میں معاشرہ لا تعداد پٹخنیاں کھا کر کروٹیں لے چکا ہے۔ اس نحیف اور لاغر معاشرے کو معجون، مربے، مویز منقی، خمیرے اور کشتے تو ٹھیک کرنے سے رہے۔ بلغمی، سوادی اور بادی مزاج تو بھلے وقتوں کی یادیں ہیں اب تو بعد از اسہال کچھ کایا کلپ ہو تو ہو۔ امید کا دامن مت چھوڑیے۔

واٹس ایپ گروپ بھی اسی معاشرے کا نچوڑ ہیں۔ اب تک احباب مجھے درجنوں گروپوں میں ڈال چکے ہیں۔ چھ آٹھ دن سے زیادہ کا قیام کسی گروپ میں ممکن نہیں رہا۔ دو چار بالجبر کی مستثنیات ذرا اور بات ہے۔ کہیں پیشہ ورانہ ضرورت، تو کبھی محکمانہ طلب۔ لیکن یہاں بھی عافیت اسی میں پائی کہ سر لپیٹ کر ابلہ غیر ناطق اور حاجی بغلول بنے بس سنتے پڑھتے رہو، خلاص! جہاں دیکھا یہی دیکھا: چڑی مار ٹولہ، بھانت بھانت کا پنچھی بولا۔ اس معاشرتی خمیر کا بگھار آپ کو انسانی رویے کے ہر پکوان میں لگا نظر آئے گا۔ اپنی بستی کی انتظامیہ رو پیٹ کر، چیخ کر، منتیں ترلے کر کے اب بے بس ہو گئی ہے کہ واٹس ایپ گروپ میں ضروری شکایت مختصرا لکھ دیا کریں۔ مجال ہے کہ عرس شریف، موت فوت کی غیر متعلق اطلاع اور وہیں پرسہ وصول کرنے والوں، والدین و غیرہم کی بیماری سے مطلع کرنے والوں اور شہری منصوبہ بندی بیان کرنے والوں پر ذرا اثر ہو جائے۔ انتظامیہ ان کی فکر و فلسفے کو مسلسل نظر انداز کرتی ہے لیکن ڈھٹائی سے افسوس کا اظہار کر کے اگلے ہی لمحے یہ صاحبان نئی الل ٹپ تجاویز سے گروپ کو آلودہ کر دیتے ہیں۔

مستثنیات بھی تو زندگی ہیں. موت کے تعاقب میں سرگرداں زندگی مغربی افق پر پہنچی تو لمحات اخیرہ میں کسی نیکی کے طفیل ڈاکٹر فاروق عادل سے تعارف ہو گیا۔ فاروق نے بھی ایک دبستان سجا رکھا ہے۔ کیا واٹس ایپ گروپ کی یہ 'تارید' چل سکتی ہے؟ آپ اس دبستان میں بھلے کچھ سے کچھ لکھتے رہیں، مجال ہے کہ بھیا کے قلم میں تحرک آئے۔ ڈھلتی رات کو پرندے گھونسلوں میں بسیرا کرتے ہیں تو طائران "دبستان عادل" گھونسلوں سے نکل کر خم ٹھونکے بالمقابل آ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان طائران نیم شب کو غلط قسم کا وہ پرندہ نہ سمجھ لیجیے جو کبھی کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ والوں کو پیارا ہوا کرتا تھا۔ چکور ہمک ہمک کر رات ہی کو چاند پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ معصوم ٹٹیری بھی رات ہی کو معلوم نہیں کیوں واویلا کرتی ہے۔ مثبت سوچا کریں۔ نماز عشاء  کے فورا بعد چھوٹی بحر میں کسی کا مصرح طرح آنے کی دیر ہوتی ہے، صبحِ مرغے کی بانگ تک مشاعرہ جاری رہتا ہے۔ کوئی چکور زیادہ ہمکنا شروع کر دے تو میر مشاہرہ عالی مقام مجیب الرحمن شامی کھنگورا لگا کر کروٹ بدل لیتے ہیں: او نالائقو! بس کرو, اب سو جاؤ".

بڑوں کی سنتا کون ہے آج کل؟ فاروق عادل دیوار پر ذرا سا شیرہ لگا کر خود سو جاتا ہے. یقین واثق ہے کہ صبح سب کچھ پڑھ کر ہنستا تو ہوگا یزداں کبھی کبھی۔ ابتدائی ایام میں میرے لیے اس دبستان میں ٹھہرنا مشکل تھا کہ کسی حد تک یہ دبستان بھی دیگر ہی کی طرح پایا۔ لیکن بھائی فاروق نے چند اتھرے چکوروں کی مشکیں بحسن و خوبی اور بتدریج کس دیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ مکالمے، مباحثے، تبادلہ خیال وغیرہ کے لئے تین بنیادی اور بدیہی اجزا درکار ہوتے ہیں۔ اولا یہ کہ مخاطب (ط پر زبر) کو وہی احترام دیا جائے جو مخاطب (ط زیر کے ساتھ) اپنے لیے پسند کرتا ہو. اس کے لیے فاروق نے بڑی محنت کی.

اب شرکا کی گفتگو میں اس لحاظ سے توازن آ چکا ہے. محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہو. یہ الہامی سند برادرم وجاہت مسعود کا استحقاق مجروح نہ کرے تو کہ گزروں کہ اس پیمانے پر وہی ایک پورا اترتے ہیں۔ (یہ البتہ واضح رہے کہ منتظم فاروق عادل اور دیگر خاموش تماشائی مقابلے کی اس دوڑ سے باہر ہیں)۔ گھنٹے دو گھنٹے بعد بھائی وجاہت کے مختصر سے جملے کچھ یوں ہوتے ہیں: "واللہ! آپ احباب کیا خوب نکات سامنے لائے ہیں۔ بھئی واہ! ہاں ذرا اس پر بھی رہنمائی فرمائیے کہ۔۔۔۔۔۔" اور احباب واقعی رہنمائی فرمانے لگتے ہیں۔

یوں اس پہلے مطلوبہ نکتے کے حصول میں فاروق کامیاب ہو چکے ہیں۔ دیگر دو نکتے بھی اہم ہیں۔ ان کے بغیر تعمیری, غیر تعمیری گفتگو ممکن نہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بات دل نشین انداز میں بیان کر دی جائے، اس میں دوسرے کو نیچا دکھانے کا داعیہ نہ ہو۔ دبستان کے جملہ 315 شرکا کی غالب تعداد 50 سال سے اوپر کی ہے۔ اس زمرے میں خود کو بدلنے کی اہلیت کم ہو چکی ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کیوں بعض شرکا اپنی درست رائے بھی کچھ یوں ٹھونستے کی کوشش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا قائل ہوتے ہوئے بھی یا تو دبک جاتا ہے، یا دو ایک دفعہ سر، سر لکھ کر مزید سے تائب ہو جاتا ہے۔ بلکہ چند متاثرین نے تو دبستان چھوڑ دیا۔ لیکن فاروق انہیں منا کر واپس لے آئے ہیں۔ کیا غضب کی وسعت قلبی سے مزین ہے ہمارا یہ بھائی بھی! اعلیٰ انسانی خوبیوں سے آراستہ حفیظ اللہ نیازی اور سہیل وڑائج معلوم نہیں کیوں شرمائے لجائے, سمٹے سمٹائے رہتے ہیں۔

 گفتگو کا تیسرا اہم رکن یہ ہوتا ہے کہ اپنا نقطہ نظر کچھ یوں بیان کیا جائے کہ سننے پڑھنے والے اسے کہنے لکھنے والے کا "حرف آخر" سمجھ کر دبک نہ جائیں۔ نقطہ نظر پیش کر کے اس پر اصرار نہ کیا جائے۔ مختار مسعود سے مروی ہے کہ ٹائن بی (بیسویں صدی کا ابن خلدون) ملتان کے زمینداروں سے خطاب کے بعد تند و تلخ سوالات کے جواب عاجزانہ پیرائے میں دیتا رہا: "جی آپ کا نقطہ نگاہ بے شک درست ہوگا, مگر دوسروں کا نقطہ نگاہ دوسرا ہے. شاید آپ اس پر کبھی غور کرنا پسند کریں گے".

ادھر ہمارے اس دبستان میں بعض احباب کا یہ حال ہے کہ کالا کوا پکڑ کر ان کے سامنے بٹھا دیا جائے تو بھی اسے سفید ہی قرار دیتے ہیں. دیگر اعلیٰ انسانی خوبیوں سے آراستہ ایسے احباب خود کو ذرا سا بدل کر کاش ٹائین بن جائیں۔ سنجیدگی، رنجیدگی کا اپن کے ہاں کیا کام۔ آپ بھی ان دونوں سے کنارہ کشی کر لیں۔ تو صاحب, کیا یہ امر باعث تعجب نہیں ہے کہ میں نے یہ گروپ ابھی تک نہیں چھوڑا۔ ہاں یاد آیا، بھائی سلیم منصور خالد کی خوابیدگی کے سبب بھیا وجاہت مسعود کچھ مرجھا گئے ہیں۔ یوں ہمارا یہ چہکتا دبستان کچھ فارم 47 جیسا لگ رہا ہے۔ فاروق! دیکھو سنو تو، وہ ذرا سلیم بھائی کو جگا لاؤ، ورنہ عالی مقام مجیب الرحمن شامی سے کہنا پڑے گا۔

مزید :

رائے -کالم -