بلبلاہٹ
اس دفعہ تو بجلی کے بل دیکھ کر سب چکرا گئے ہیں،بلکہ بلبلا اٹھے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بل نیا بجٹ لاگو ہونے سے پہلے کے ہیں،آئی ایم ایف کی شرطوں والے بل نہیں ہیں۔ ابھی سے چیخیں نکل رہی ہیں تو صارفین ضرور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ نئے بجٹ کے تحت آنے والے بل کتنے زیادہ ہوں گے اور وہ اتنے زیادہ بل کیسے ادا کر سکیں گے؟ پھر اتنے زیادہ بل اس حقیقت کے باوجود آئے ہیں کہ بجلی دن رات میں کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بند رہتی ہے۔ اب سوچتا ہوں،یہ لوڈ شیڈنگ بھی کتنی بڑی نعمت ہے کیونکہ اگر لوڈ شیڈنگ نہ ہو تو پتا نہیں بل کتنے آ جائیں؟ یہ کمال کم کم ہی دیکھنے،سننے میں آتا ہے کہ بجلی کی سپلائی ایک تہائی جبکہ بجلی کے بل تین تین،چار چار گنا زیادہ،لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ یہاں گیس رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک مکمل طور پر بند رہتی ہے اور جب آتی تو چولہا بس ٹمٹما رہا ہوتا ہے،جیسے شمع ٹمٹماتی ہے۔ اس کے باوجود بل پچھلے سالوں کی نسبت کئی گنا زیادہ آتا ہے۔ یہی تو کمال ہے ہمارے اداروں کا،وہ جو ایک انڈین گانا ہے
انہونی کو ہونی کر دیں،ہونی کو انہونی
ایک جگہ جب جمع ہوں تینوں،امر اکبر انتھونی
تو یہاں بھی بہت سے امر اکبر اور انتھونی جمع ہو چکے ہیں اور انہونی کو ہونیوں میں تبدیل کرنے میں مصروف ہیں اور ہونیوں کو انہونیوں میں۔ اووربلنگ کا معاملہ اس قدر سنگین ہو چکا ہے کہ سینئر اداکار راشد محمود بجلی کا بل زیادہ آنے پر رو پڑے،اور کہا کہ میں بہت پریشان ہوں، آج سوچتا ہوں میرے اللہ نے مجھے کیوں بچایا۔ نامور اداکارہ سنگیتا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان کا بجلی کا بل60 ہزار آیا ہے، اور انہوں نے دہائی دی ہے کہ بجلی والو، خدا کے لیے ہم پر رحم کرو، ایک اے سی کا بل 60 ہزار کیسے ہو سکتا ہے؟ اب اور کتنے ٹیکس لگاؤ گے؟ اداکارہ نشو کا بجلی کا بل ایک لاکھ آیا ہے اور وہ بھی پریشان ہیں۔ دوسری جانب حکمرانوں کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ ایک موقع پر جب وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی توجہ راشد محمود کی بجلی کی اووربلنگ کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے کہا ’بھائی سب کے بل زیادہ آئے ہیں‘۔ اور یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئیں۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ اسی جماعت کی حکومت کی وزیر ہے جس نے اپنی انتخابی مہم میں دو سو یا تین سو یونٹ تک بجلی مفت فراہم کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔ وہ مفت بجلی کہاں ہے؟ عوام اس کے منتظر ہیں کیونکہ ان کے پاس اتنے بھاری بل ادا کرنے کے پیسے نہیں ہیں۔ ان کی آمدنیاں بس اتنی ہیں کہ بل ادا کریں یا پھر اپنا اور اہل ِخانہ کا پیٹ بھرنے کا بندوبست کر سکیں اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ دونوں میں سے کون سا کام کریں اور کون سا چھوڑ دیں۔
ہو کیا رہا ہے؟ یہ کہانی وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری خود سناتے ہیں۔ انہوں نے مختلف مواقع پر اپنے محکمے کے حالات کے بارے میں جو گفتگو کی،اس کا لب لباب یہ ہے کہ بجلی چوری سے ملک کو سالانہ 600 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان کے پاس اضافی بجلی موجود ہوتی ہے لیکن یہ دانستہ طور پر فراہم نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے قومی خزانے کو مزید 2.5 ارب روپے کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) اور قبائلی علاقوں میں سالانہ 137 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے،سندھ میں سالانہ 51 ارب روپے،پنجاب میں 133 ارب روپے،اور بلوچستان میں 100 ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ وزیر توانائی نے انکشاف کیا کہ لائن مین سے لے کر اعلیٰ افسران تک سب ملے ہوئے ہیں،بجلی کمپنی والے خود بتاتے ہیں کہ بجلی کیسے چوری کرنی ہے،بعض علاقوں میں بجلی کے بل دیے ہی نہیں جاتے،لوگ دھمکیاں دیتے ہیں کہ کوئی انہیں بجلی کا بل بھیج کر دکھائے۔ وزیر موصوف نے اعتراف کیا کہ ملک میں کروڑوں روپے کی اووربلنگ کی جاری ہے،ہمارے اداروں میں 20 فیصد سے زائد ایسے لوگ ہیں جو اس کام میں ملوث ہیں۔ بجلی چوری کا فائدہ اٹھانے والے لوگوں، افسران، لائن مینوں، میٹر ریڈرز اور صارفین کا بوجھ بڑے سے بڑا خزانہ بھی نہیں اٹھا سکتا،پاکستان کا کمزور اور غیر مستحکم خزانہ تو بالکل بھی نہیں۔ وفاقی وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ اووربلنگ کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں بہتری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، بجلی چوری کی روک تھام کے لیے لائحہ عمل تشکیل دے رہے ہیں۔
جب محکمے کا وزیر منہ سے بول کر یہ بتا رہا ہے کہ بجلی کی پیداوار سے تقسیم تک اس شعبے میں کرپشن ہی کرپشن ہے تو اس کے بعد کہنے کو کیا باقی رہ جاتا ہے؟ یہ جو اووربلنگ ہو رہی ہے اور یہ جو دن میں کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ کے نام پر بجلی بند رکھی جاتی ہے،سب اسی کرپشن کا نتیجہ ہے۔ وہ راشد محمود ہوں،سنگیتا ہوں،نشو ہوں یا اس ملک کا کوئی عام شہری اس کرپشن کے ختم ہونے تک اسی طرح ہر ماہ بجلی کے بل موصول ہونے پر تلملاتا اور بلبلاتا رہے گا کیونکہ انہیں صرف اپنی استعمال شدہ بجلی کی قیمت ادا نہیں کرنا ہوتی بلکہ حکومت کے متعدد ٹیکس بھی اسی بل میں ادا کرنا ہوتے ہیں اور اس بجلی کی قیمت بھی اداکرنا ہوتی ہے جو کسی اور نے استعمال کی۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اووربلنگ پر تو یہ کہہ دیتی ہے کہ ’سب کے بل زیادہ آئے ہیں،لیکن یہ نہیں بتاتی کہ وہ اگر کرپشن کنٹرول نہیں کر سکتی تو اس کے پاس برسرِ اقتدار رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ ایک طرف کرپشن کی وجہ سے اوور بلنگ اور دوسری طرف آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت سبسڈیز کے خاتمے کے نتیجے میں ہونے والی اوور بلنگ،کیا یہ تماشا نہیں ہے جو ارباب بست و کشاد نے گورننس کے نام پر عوام کے ساتھ لگا رکھا ہے؟ کیا یہ عوام کو خود ہی اس بات پر مجبور کرنے کی کوشش نہیں ہے کہ وہ باہر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں اور حکمرانوں کو یہ باور کرائیں کہ ان کی بیڈ گورننس اور معاملات کو سنبھال نہ سکنے کی وجہ سے وہ کس قدر اذیت میں مبتلا ہیں۔ کہاں وہ حکمران جو دجلہ کے کنارے ایک کتے کے بھوک پیاس کے باعث ہلاک ہو جانے پر اللہ کے خوف میں مبتلا رہتے تھے اور کہاں آج کے حکمران،جو اپنے عوام کو اداروں کی کرپشن اور مافیاز کے ہاتھوں لٹتے دیکھ کر بھی ہاتھ پیر ہلانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اوور بلنگ روکنی ہے تو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی اوور ہالنگ کریں جناب!
جب کچھ زیاددہ ہی ہاہاکار مچ گئی تو وزیراعظم صاحب نے ایک تو اووربلنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا،دوسرے تین ماہ کی عبوری ریلیف کا اعلان کر دیا ہے۔ ریلیف بس خفیف سا ہے پھر بھی چلیں کچھ ملا تو سہی۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ ریلیف کتنا ملا،اصل سوال یہ ہے کہ تین ماہ بعد جب وزیر اعظم کا اعلان کردہ عبوری ریلف ختم ہو جائے گا تو پھر کیا ہو گا۔ بجلی کے نرخ گزشتہ دنوں میں کئی بار بڑھائے گئے ہیں اور آج کی خبر یہ ہے کہ مزید بڑھانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اضافہ شدہ یونٹوں پر مبنی بل کتنے ہوں گے؟ عوام دے بھی پائیں گے یا نہیں؟