”آپ بھی فیل ہی ہوں گے“
چھوٹے شہروں میں مقابلے کا بڑا امتحان پاس کرنے کے لئے طلباء کی کثیر تعداد میں ہرسال مقابلہ ہوتاہے۔ والدین بچوں کوافسر بنانے کے لئے ہرطرح کی تکالیف برداشت کرتے ہیں، مگر ہمت نہیں ہارتے۔ایک دفعہ پبلک سروس کمیشن کاامتحان چند سال کے تعطل کے بعد ہوا۔ہزاروں لوگ امتحان میں شریک ہوئے۔ پاس ہونے والوں کی تعداد انگلیوں پرگنی جا سکتی تھی۔ایک شہر کے دو دوستوں نے بھی امتحان دیا ہوا تھا۔دونوں کو نتیجے کا بے صبری سے انتظار تھا۔ آخررزلٹ آگیا۔ایک دوست نے دوسرے کو فون کر کے بتایاکہ صرف چند لوگ کامیاب ہوئے ہیں،جن میں ایک نام اُس کا اپنا بھی ہے۔ دوسرے دوست نے اپنی بابت پوچھا تو بتایا کہ ہزاروں لوگ فیل ہوئے ہیں آپ بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ ناکام امیدوار کو بہت صدمہ ہوا۔دن بھر لوگ افسوس کے لئے آتے رہے۔ افسوس کرنے والوں کے افسوس کرنے کے طریقے اور الفاظ کا بھی کئی دفعہ گہرا صدمہ ہوا۔ اُن دنوں رزلٹ صوبائی دارالحکومت میں آویزاں کیاجاتاتھا۔ جدیدسہولیات نہ تھیں۔ اگلے دن ناکام امیدوار کو دارلحکومت کے رہائشی ایک دوست نے ٹیلی فون کیا۔پوزیشن حاصل کرنے پر مبارک دی۔ناکام امیدوار کو لگاکہ دوست مذاق میں حد سے گزر رہے ہیں۔ رزلٹ بتانے والے نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت رزلٹ آویزاں ہونے والی جگہ پر ذاتی طور پر موجود ہے اور جو بات کہہ رہا ہے پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہے۔ اُس نے ساتھ کھڑے کئی لوگوں سے بھی اپنی بات کی تصدیق کروائی۔ سابقہ ناکام امیدوار نے کامیاب امیدوار دوست کو فون کر کے غلط رزلٹ بتانے کا گلہ کیا تو جواب ملا ”معاف کرنا یار۔ میں نے صرف اپنا رزلٹ چیک کروایا تھا۔ اتنے لوگ فیل تھے کہ مجھے لگاآپ بھی فیل ہی ہوں گے“۔ایک صاحب کے بقول ہمارے ہاں کئی لوگوں کے برباد اور شاد ہونے کی وجوہات یکساں ہیں۔
دو بنیادی وجوہات کمیشن اور پبلک سروس کمیشن ہیں۔ایک اور صاحب کے بقول ہمارے ملک میں بے جوڑرشتوں کے بنیادی ذمہ دار بھی کمیشن اور پبلک سروس کمیشن ہی ہیں۔فراز صاحب کا محبوب اور اس کے ہمسائے بھی اِدھر اُدھر کے جلوے دیکھنے کی بجائے بہشت کے نظارے کر سکتے تھے، کیونکہ محبوب کی جائے رہائش بہشت سے متصل تھی۔ جو لوگ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں ناکام ہو جائیں۔وہ اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں اور اِدھر اُدھر دیکھنے کے لائق ہی رہ جاتے ہیں۔ جو لوگ امتحان میں کامیاب ہو جائیں، وہ ہرطرح کے جلوے دیکھ سکتے ہیں اور اُن کے اپنے جلوے بھی دنیا دیکھتی ہی رہ جاتی ہے۔ایک صاحب دیہاتی تھے۔نام سنتے ہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ خالصتاً دیہاتی ہیں۔بہت قابل تھے اور محنت بھی دِل لگا کر کرتے تھے۔ وہ اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو گئے۔ ایک دن ایک خاندانی رئیس، اعلیٰ افسر نے ٹیلی فون پر انہیں کوئی کام کرنے کو کہا۔ انہوں نے فوراً کام کر کے اعلیٰ افسر کو بتایا۔ اعلیٰ افسر نے شکریہ ادا کیا اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہرطرح کے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ ہمارے صاحب نے مودبانہ لہجے میں بتایا کہ وہ مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے اس عہدے پر تعینات ہوئے ہیں اور ابھی اُن کی سروس کا کافی عرصہ باقی ہے۔ اعلیٰ افسر کو شدید حیرانی ہوئی۔انہوں نے معذرت کی اور کہنے لگے ”آپ کے نام سے اندازہ لگایا کہ آپ شاید ترقی کر کے اس مقام پر پہنچے ہیں۔آپ نے اپنا نام نہیں بدلا“۔ہمارے صاحب نے وضاحت کی ”کام توسارے بدل لیئے ہیں۔نام ہی پُرانارہ گیا تھا۔
اب آپ نے رہنمائی فرمائی ہے تو وہ بھی فی الفور بدل لیتا ہوں“۔پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے سے پہلے انسان کا مقابلہ معاشرے کے دیگر افراد سے ہوتا ہے۔اگر امتحان پاس نہ ہو تب بھی اصل مقابلہ دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے۔کامیابی کی صورت میں بندہ اپنا حریف آپ ہی ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھاکہ اقتدار ملنے کے بعد لوگ بدلتے نہیں، بلکہ پہچانے جاتے ہیں۔بعض لوگوں کوکامیابی اتنا بدل دیتی ہے کہ وہ خود سے بھی پہچانے نہیں جاتے۔ایک صاحب ایک دن بہت پریشان تھے۔ ایک دوست نے وجہ پوچھی تو بڑی ندامت سے کہنے لگے”ابھی کچھ دیر پہلے اپنے بچھڑے آپ سے ملاقات ہو گئی۔دل عجیب سا ہو گیا۔ اپنا آپ پہچانا ہی نہیں جاتا“۔بدقسمتی سے بعض لوگوں کے لئے زندگی صرف مظلوم سے ظالم بننے تک کے سفر کا نام ہے۔ مختلف لوگ اس کے لئے مختلف راستے چنتے ہیں۔ نتائج سے لگتا ہے اُن کا نصب العین ایک ہی ہوتا ہے۔ایک صاحب بڑے دُکھی دل کے ساتھ کہتے ہیں ”انگریزی لفظ سروس کا ایک مطلب مرمت بھی ہوتا ہے۔ کئی لوگ سروس کرنے آتے ہیں اور مرمت کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن اُن کی روح کو بھی مرمت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔کئی لوگوں کے لئے یہ دن دورانِ سروس ہی آ جاتا ہے۔ اکثریت کو مگر اس دن کے آنے کا احساس ریٹائرمنٹ کے بعد ہوتا ہے“۔