وہ جنہیں قبر میں بھی پوری تنخواہ ملتی ہے !!
ہماری آنکھ صرف وہی دیکھتی ہے جو اس کے سامنے ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو سامنے ہو وہی پورا سچ بھی ہو ۔ ہم اخبار میں قتل کی ایک خبر پڑھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن اس ایک قتل سے کتنی زندگیاں ٹھہر جاتی ہیں اسکا علم سطحی قاری کو نہیں ہو سکتا ۔ مان لیجئے کہ ہم اکثر ادھورے سچ اور ادھوری کہانی میں زندہ رہتے ہیں ۔ ہم عموماً آدھے سچ کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں اور پھر سکے کے ایک رخ کو ہی مکمل تصویرمان کر اس پر اڑ بھی جاتے ہیں ۔ہمارا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ریٹنگ زدہ ہو گئے ہیں ۔ ہم میڈیا کو خبر میں مرچ مسالحہ شامل کرنے پر برا بھلا تو کہتے ہیں لیکن اگر کوئی چینل ہیجان خیزی کا یہ مسالحہ نہ ڈالے تو ہم اسے مسترد بھی کر دیتے ہیں ۔ ہم ڈراموں میں حد سے زیادہ گلیمر کے خلاف ہیں لیکن ہم پھر بھی وہی ڈرامے دیکھتے ہیں جن میں گلیمر اخلاقی حدیں پار کر رہا ہو۔ ہم دوہری زندگی گزار رہے ہیں ۔ ایک وہ زندگی ہے جو سوشل میڈیا تک محدود ہے ۔ اس زندگی میں ہم انتہائی ایماندار ، اخلاق اور روایات کے پابند انسان کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ دوسری وہ زندگی ہے جو سوشل میڈیا سے باہر ہے ۔ اس زندگی میں ہم دودھ میں پانی اور مرچوں میں پسی ہوئی اینٹوں سے لے کر ہر وہ کام کرتے ہیں جس کے خلاف ہم ہی سوشل میڈیا پر سٹیٹس لکھتے ہیں ۔ یہ دوہری زندگی ہمیں نہ صرف نفسیاتی مریض بنا رہی ہے بلکہ حقائق سے بھی دور کرتی جا رہی ہے ۔حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم سنسنی خیزی کے چکر میں تحقیق اور کھوج کا دامن جھٹکتے جا رہے ہیں ۔
ایک وقت تھا جب مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ پولیس میں بھرتی ہونے والا ہر شخص کرپٹ ہوتا ہے ۔ کوچہ صحافت میں قدم رکھا تو کئی اور کہانیاں بھی سامنے آتی گئیں۔ میں ان پولیس افسران سے بھی ملا جن کے بچے سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں اور بیگمات نجی اداروں میں ملازمت کرتی ہیں تاکہ دو تنخواہوں سے گھر چلانے میں آسانی ہو۔ میں نے اس ڈی ایس پی کا خط بھی دیکھا جس نے علما کرام سے پوچھا تھا کہ کیا وہ عید پر بچوں کے نئے کپڑوں اور دیگر اخراجات کے لئے اپنے مال داربھائیوں سے زکوۃ یا صدقہ لے سکتا ہے ۔ میں نے کرپٹ اہلکاروں اور افسران کے بارے میں کئی رپورٹس فائل کی ہیں اور میں ہی کئی ایسے ایماندار اہلکاروں اور افسروں سے بھی ملا ہوں جن کے ہاتھ چومنے کو دل کرتا ہے ۔ یاد آتا ہے ، سی آئی اے کے ایک ڈی ایس پی کا بیٹا میرا کلاس فیلو تھا ۔ہم کالج میں زیر تعلیم تھے کہ اس کے والد ریٹائر ہو گئے ۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے اپنے دونوں بیٹوں کو چھوٹا سا میڈیکل سٹور کھلوا دیا اور خود بھی وہیں دکانداری کرنے لگے۔تب حیرت ہوتی تھی کہ اس پورے گھرانے کا کل سرمایا کرایہ کا پانچ مرلے کا ایک گھر اور کرایہ پر ہی کھولے گئے ایک میڈیکل سٹور تک محدود ہے ۔
یہ تصویر کا وہ رخ تھا جو صحافت میں قدم رکھنے کے بعد سامنے آیا کیونکہ اس سے قبل میری معلومات بھی سنی سنائی باتوں تک محدود تھیں۔ اس سے انکار نہیں کہ دیگر سرکاری ونجی اداروں کی طرح محکمہ پولیس میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں ۔ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں دودھ میں پانی کے ساتھ ساتھ بال صفا پاؤڈر تک ملایا جاتا ہے اور سٹابری کو سرخ کرنے کے لئے کیمیکل رنگ کا سپرے کیا جاتا ہے ۔ یہاں مردار گوشت سے لے کر کتوں اور گدھوں تک کے گوشت کی خبریں عام ہیں ۔ اس معاشرے میں ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے کا مجموعی کردار بہتر ہونے سے پہلے ہم پولیس یا کسی اور محکمہ میں فرشتے بھرتی کر سکتے ہیں ۔ یقیناًپولیس میں بھی وہی لوگ بھرتی ہوتے ہیں جو اس معاشرے کا حصہ ہیں ۔اسی لئے میں ایسے افراد کو ہیرو قرار دیتا ہوں جو ا ن حالات میں بھی ایمانداری اور فرائض کی بجا آوری کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اختیار نہ ملے تو ہر شخص ہی ایماندار ہوتا ہے ، امتحان تب شروع ہوتا ہے جب صاحب اختیار ہونے کے باوجود خدا خوفی قائم رہے۔
گذشتہ دنوں میں ان ہیروز کے بارے میں تحقیق کرتا رہا جن کی ہمیں خبر ہی نہیں ہے ۔ یقیناپولیس میں کرپٹ لوگ بھی ہوں گے لیکن وہ جو ہماری حفاظت کرتے ہوئے مجرموں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ان کا ذکر کون کرے گا ؟ اگلے روز مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے جانے والے ایک بہادرانسپکٹر کی شہادت کے بارے میں بتاتے ہوئے سی پی او فیصل آباد افضال احمد کوثر نے انکشاف کیا کہ صرف فیصل آباد میں ہی گذشتہ 25 برس میں مجرموں کے ہاتھوں ایک سو سے زائد پولیس اہلکار و افسران شہید ہو چکے ہیں ۔ ان میں ایس پی اور ڈی ایس پی کے ساتھ ساتھ 2 انسپکٹرز، 11 سب انسپکٹرز ، 6 اے ایس آئی، 9 ہیڈ کانسٹیبل، 67 کانسٹیبل اور 2 قومی رضاکار بھی شامل ہیں ۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پنجاب کے ہر ضلع میں پولیس افسر و اہلکاروں نے عوام کی حفاظت کے لئے شہادتیں پیش کی ہیں ۔ گوجرانولہ پولیس کے تر جمان گلریز خان بھی اپنے شہدا کا ذکر کرتے ہوئے بتا رہے تھے تھے کہ یہاں ڈی پی او تعینات ہونے والے ایس ایس پی اشرف مارتھ سمیت لگ بھگ 95 پولیس افسر و اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ ریجن کی سطح پر اعلی افسران سمیت 253 پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں ۔ پنجاب کے لگ بھگ ہر ڈسٹرکٹ میں اتنی بڑی تعداد میں پولیس اہلکارو افسران شہید ہو چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے درمیان رہتے تھے ۔ یہ انہی گلی محلوں سے نکلے ، ڈیوٹی پر گئے اور اس سماج کے دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ المیہ یہ ہے کہ سول سوسائٹی کو ان کے کارنامے تو دور کی بات ان میں سے اکثر کے نام تک کا علم نہیں ہے ۔
میں نے ان تحقیقات کے دوران پولیس شہدا کے حوالے سے محکمہ پولیس کے چند دیگر افسران سے بھی بات کی ۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ عوام تو انہیں بھول ہی جاتے ہیں لیکن ان کا اپنا محکمہ کیا کرتا ہے ۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ محکمانہ کاغذات میں یہ زندہ ہیں کیونکہ محکمہ پولیس کا ماننا ہے کہ شہید کو مردہ نہیں کہا جا سکتا ۔ ان شہدا کی فیملی کو ان کی مکمل تنخواہ اسی طرح ادا کی جاتی ہے جیسے کہ یہ ڈیوٹی پر موجود ہوں اور ان کی ساٹھ سال کی عمر مکمل ہونے کے بعد ان کی فیملیز کو پینشن جاری کی جاتی ہے ۔ مختلف اضلاع کے ڈی پی اوز کا کہنا تھا کہ پولیس کے تقریبات میں شہدا کی فیملیز کو بلایا جاتا ہے، ان کے ورثا کو احترام دیا جاتا ہے اور پولیس کی عمارتوں کو شہدا سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ سوال سو ل سوسائٹی سے ہے ۔ ہم پولیس کی کرپشن پر آواز اٹھاتے ہیں لیکن اسی کرپشن سے لڑنے والوں کو کیوں بھول جاتے ہیں ؟ ہم اپنی گلیوں کو ان سے منسوب کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں ؟ کیا ہمارے کسی معروف انڈرپاس کا نام کسی شہید پولیس اہلکار کے نام سے منسوب ہے ؟ کیا ہم شاہراہوں پر پولیس شہدا کے بینرز آویزاں کرتے ہیں ؟سچ یہ ہے کہ ہم رول ماڈل کے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن جنہیں رول ماڈل بنانا ہو انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ اب ہمیں یہ مجرمانہ خاموشی ختم کرنا ہو گی ۔ پاکستان کے ہر ادارے اور ہر شعبے میں کام کرنے والے ایماندار اور بہادر افراد کو اپنا حقیقی ہیرو قرار دینا ہو گا ۔ ہماری لڑائی اس کرپشن سے ہے جو پورے ملک میں ناسور بن رہی ہے لیکن اس لڑائی میں ہمیں ان گمنام بہادروں کو خراج تحسین بھی بھی کرنا ہو گا جو مشکل ترین حالات کے باوجود اپنا فرض ادا کرتے ہیں ۔ اب چاہے ان کا تعلق کسی نجے شعبے سے ہو یا پھر محکمہ پولیس و دیگر اداروں سے ہو، ہمیں ان کی خدمات ، بہادری اور قربانیوں کا اعتراف کرنا ہی ہو گا ۔ مجھے خوشی ہے کہ محکمہ پولیس اپنے شہدا کو قبر میں بھی پوری تنخواہ دیتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سول سوسائٹی بھی ان کے خاندانوں کوویسا احترام دیتی ہے جیسا کہ شہدا کے خاندانوں کا حق ہے؟۔ اس سوال کا جواب ہمیں خود سے طلب کرنا ہے کیونکہ ضرور ہمارے ارد گرد بھی کسی شہید کی فیملی گمنامی کی زندگی بسر کر رہی ہو گی ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔