عظمیٰ بخاری کی تھیٹر سدھار مہم

     عظمیٰ بخاری کی تھیٹر سدھار مہم
     عظمیٰ بخاری کی تھیٹر سدھار مہم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پنجاب کی وزیراطلاعات و ثقافت عظمیٰ بخاری ان دنوں سیاست سے کچھ ہٹ کر اپنے اصل شعبے کی اصلاح و درستی کے لیے کوشاں ہیں۔وہ اسٹیج ڈرامے کو ایک بار پھر فیملی تھیٹر بنانے کی آرزومند ہیں۔سب سے پہلا کام انھوں نے یہ کیا ہے کہ 80 کے قریب ان پنجابی گیتوں کی فہرست تیار کی ہے جن پر بعض اسٹیج اداکارائیں اعضا کی شاعری کے نام پر اعضا کی نمائش کرتی ہیں۔ان کی یہ کوشش اور کاوش لائق تحسین ہے۔کیونکہ اب تھیٹر واقعی اس رنگ میں ڈھل چکا ہے کہ آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ ہی نہیں سکتے۔اب تھیٹر نو دولتیوں اور چھچھورے لوگوں کی پناہ گاہ بن کر رہ گیا ہے۔

    یہ سطور لکھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ جو میں سوچ رہا ہوں کیا وہ مجھے لکھنا چاہیے؟ کیا میری بات ان تک پہنچے گی جن کے لیے میں لکھنا چاہتا ہوں؟کیا میری بات کو دخل در معقولات تو نہیں سمجھا جائے گا؟ یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ تم کون ہوتے ہو تھیٹر پر بات کرنے والے؟یہ سوالات میرے ذہن میں اس لیے پیدا ہوئے کہ عظمیٰ بخاری صاحبہ انھی لوگوں  سے مذاکرات اور مکالمہ کر رہی ہیں جنھیں وہ درست راستے پر لانا چاہتی ہیں۔یہ اچھی بات ہے۔

دلوں کی رنجشیں بڑھتی رہیں گی

اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

معاملات اسی طرح بہتر ہو سکتے ہیں لیکن میری رائے یہ ہے کہ کچھ ٹیکنیکل لوگوں کی بات بھی سنی جائے۔ادیبوں، شاعروں اور طالب علمان ادب کا بھی تھیٹر سے گہرا تعلق ہے۔مجھے بھی شعر و ادب اور تدریس ادب سے کچھ علاقہ ہے اس لیے میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

    میں پچھلے کئی برس سے الحمرا آرٹس کونسل کی ڈراما سکرپٹ سکروٹنی کمیٹی کا ممبر ہوں۔اس کمیٹی میں مجھ سمیت کئی دوسرے شاعر، ادیب اور پروفیسر بھی شامل ہیں۔یہ بات آپ کے لیے حیران کن ہو گی کہ الحمرا کی طرف سے آج تک جتنے بھی سکرپٹ  مجھے بھیجے گئے، وہ سب کے سب نان کمرشل ڈراموں کے تھے۔یہ وہ سکرپٹ تھے جو مختلف این۔جی۔اوز، سکولوں، کالجوں اور جامعات کی ڈرامیٹک سوسائٹیوں نے بھجوائے تھے۔میں نے ہمیشہ ہر سکرپٹ بغور پڑھا اور ہمیشہ کھری رائے دی۔ویسے سچی بات یہ ہے کہ الحمرا انتظامیہ جو ڈراما اسٹیج پر دکھانے کا فیصلہ کر لے،وہ ضرور پیش کیا جاتا ہے۔سکروٹنی کمیٹی کے ممبر کی رائے ان کے لیے ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔اصل بات یہ ہے کہ پچھلے آٹھ دس برسوں میں مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی کمرشل ڈرامے کا سکرپٹ دیکھا ہو۔ممکن ہے کہ ان ڈراموں کے سکرپٹ کی منظوری کے لیے الحمرا والوں نے گھوسٹ ممبر بنا رکھے ہوں۔ویسے سچ یہ ہے کہ کمرشل تھیٹر کے اداکاروں کو کم ازکم میں تو کبھی سکرپٹ کے مطابق بولتے نہیں دیکھا۔بلکہ اس بات پر اداکار ناز کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ سکرپٹ سے ہٹ کر مکالمے ادا کرتے ہیں۔آج زیادہ اچھا اداکار وہی سمجھا جاتا ہے جو سکرپٹ سے ہٹ کر بولتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ میری ان معروضات کو پڑھنے کے بعد میرا نام سکرپٹ کمیٹی میں رہنے کا امکان کم ہی ہے۔لیکن میں پھر بھی عظمیٰ بخاری صاحبہ کو مشورہ دوں گا کہ تھیٹر پرائیویٹ ہے یا سرکاری ہر جگہ سکرپٹ سکروٹنی کا عمل یقینی بنائیں۔سکرپٹ سے ہٹ کر بولنے والے اداکاروں کو جرمانہ کریں۔عارضی طور پر نااہل کریں۔میرا مشورہ یہ ہے کہ سکرپٹ سکروٹنی کمیٹی میں لاہور کے ممتاز ادیبوں، شاعروں، اردو کے پروفیسروں اور دانش وروں کو شامل کریں۔پرائیویٹ تھیٹر میں اسٹیج کیے جانے والے ڈراموں کے سکرپٹ بھی الحمرا آرٹس کونسل یا پنجاب آرٹس کونسل کی وساطت سے اس کمیٹی کے ارکان کو بھجوائے جائیں۔ان کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ان کا معاوضہ اتنا معقول ہو کہ کوئی پروڈکشن کمپنی ان کی رائے خرید نہ سکے۔سکرپٹ کمیٹی کے ارکان کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ جب چاہیں چپکے سے ہال میں جا کر بیٹھ جائیں اور ایک خفیہ رپورٹ بنا کر الحمرا آرٹس کونسل یا پنجاب آرٹس کونسل کی انتظامیہ کو پیش کریں اور انتظامیہ اس رپورٹ کی روشنی میں تادیبی کارروائی عمل میں لائے۔

    میں 90 کی دہائی میں کبھی کبھی اپنے دیرینہ مہربان اور نام ور مصور اسلم کمال سے ملاقات کے لیے رات کے وقت باغ جناح اوپن ائر تھیٹر چلا جایا کرتا تھا۔وہ وہاں پنجاب آرٹس کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر تعینات تھے۔ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ایک شخص اچانک ان کے کمرے میں داخل ہوا اور ان کے کان میں کچھ کہنے لگا۔اس کی بات سن کر اسلم کمال نے کہا:"اسے فورا" کہو کہ اپنی اینٹری کے بعد میرے کمرے میں آئے۔" چند لمحوں کے بعد ایک مشہور اداکارہ کمرے میں موجود تھی۔اسلم کمال نے نہایت شائستگی سے اسے بتایا کہ یہ سرکاری تھیٹر ہے۔آپ اپنی اداوں پر غور کریں۔وہ اداکارہ برا سا منہ بنا کر چلی گئی۔تھوڑی دیر کے بعد اسلم کمال اس اداکارہ کو دیکھنے کے لیے میرے ساتھ پنڈال میں گئے۔وہ اداکارہ اب اسلم کمال کی ہدایت کے مطابق کام کر رہی تھی۔سوال یہ ہے کہ اب کتنے افسر ہیں جو ہال میں خود جاتے ہیں؟ اگر یہ افسر درست کام کر رہے ہوتے تو عظمیٰ بخاری کو کیوں میدان میں آنا پڑتا؟

مزید :

رائے -کالم -