گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 77
جو لوگ رسد اور طلب کے مسلمہ قوانین کو نظر انداز کرتے ہیں وہ بہرحال اس کا خمیازہ بھگتنے ہیں۔ ہمار مالی ماہرین نے گندم کی قیمت میں تخفیف کرکے ساڑھے سات روپیہ من تک مقرر کردینے کا جواز پیش کیا کہ گندم کی قیمت اگر گرگئی تو تمام اشیاء کے دام گرجائیں گے۔ میں نے ان ماہروں سے کہا کہ ایسی احمقانہ بات میں نے اپنی پوری عمر میں نہیں سنی۔ سائیکل، ٹائر، جوتے اور کپڑے، غرض سبھی اشیا کے دام ان اشیا کی پیداواری قیمت اور بازار میں ان کی مانگ کے حساب سے متعین ہوتے ہیں نہ کہ گندم کی قیمت سے اسی طرح اجرتیں بھی گندم کی قیمت میں اُتار چڑھاؤ سے کم یا زیادہ نہیں ہوتیں۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 76 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہمارے کسان بڑی کٹھن زندگی گزارتے ہیں۔ اگر کسان کو چھ ماہ کے طویل انتظار کے بعد اپنی محنت کا کچھ انعام ملنے کی صورت نظر آتی ہے تو اسے مویشی چوروں کا مقابلہ درپیش ہوتا ہے جن کا وجود دیہات کے لئے سب سے بڑی لعنت ہے۔ میں نے اسلامی قانون شریعت کی رو سے اس مفہوم کا ایک قانون منظور کرانے کی کوشش کی کہ عادی مویشی چور کے ہاتھ کاٹ دینے چاہئیں لیکن دو نمائندوں نے جو مرکز میں مسلم لیگ پارٹی پر حاوی تھے، اس قانون کے مسودہ کی سخت مخالفت کی اور اسے وحشیانہ قرار دیا۔ اس کے بعد میں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہمیں چند مویشی چوروں کو پھانسی دے دینی چاہیے اور اس کی مثالیں برطانیہ سے پیش کیں جہاں پرانے زمانے میں بھیڑوں کی چوری پر موت کی سزا دی جاتی تھی لیکن میرے مشورے قبول نہ ہونے تھے، نہ ہوئے۔ آج دس برس بعد بھی مویشیوں کی چوری کے بارے میں صورتحال وہی پہلی سی ہے۔ دیہی علاقوں میں قتل کی بیشترواردات مویشیوں کی چوری، زمین کے تنازعہ یا عورتوں کے اغوا کی بنا پر ہوتی ہیں۔
کسان اگر اپنے مویشیوں کو چوری ہونے سے بچالے تو پانی کی تقسیم پر جھگڑا ہوسکتا ہے اور اس میں کسی نہ کسی کو نقصان پہنچنا لازم ہے۔ چنانچہ پولیس آتی ہے اور اسے ہموارکرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد چھوٹی شہادتیں پیش کی جاتی ہیں اور بے گناہ لوگوں کو سزا دی جاتی ہے بلکہ اکثر کو پھانسی پر چڑھادیا جاتا ہے۔ جو وقت اور سرمایہ عدالتوں کے چکر میں اور وکلاء پر صرف کیا جاتا ہے وہ الگ رہا، عدالتی چارہ جوئی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ بیچارے مدعی کا خاتمہ تو قبر میں پہنچ کر ہی ہوتا ہے۔ انگریزوں نے اپنے طور پر کوشش کی تھی کہ انصاف کا ایسا نظام مدون کریں جس میں غلطیوں کا اندیشہ نہ ہو لیکن موجودہ طریق کار کے تحت معاملات کے تصفیہ میں تاخیر بھی لازم ہے اور خرچ بھی ضروری۔ لہٰذا فوری اصلاح کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ انصاف میں تاخیر کے معنی میں عدم انصاف کیا ور آج کل پورے ملک میں یہی کچھ ہورہا ہے۔
غذائی مسئلہ کے حل کے لئے میں نے تین اقدامات کئے جن سے تھوڑے ہی دنوں میں حالات سدھر گئے۔ میں نے جرأت سے کام لے کر گندم پر سے کنٹرول اٹھانے کا فیصلہ کیا حالانکہ اس کی قلت بدستور تھی۔ ساتھ ہی میں نے اعلان کیا کہ امریکہ سے کثیر مقدار میں گندم خریدی جائے گی۔ اس کے بعد میں نے دیسی گندم کو بحفاظت ذخیرہ کرنے کے لئے نئے اور موزوں قسم کے گودام بنوائے۔ اس سے لوگوں کا اعتماد بحال ہوگیا۔ گندم کے چھپے ہوئے ذخائر بازار میں آگئے اور قیمتیں موزوں سطح پر واپس آگئیں۔ میں نے ہمیشہ اپنے اس موقف کی حمایت کی ہے کہ سرکاری کنٹرول جتنا کم ہو، اتنا ہی اچھا ہے لیکن میری خواہش ہے کہ زرعی پیداوار اور خام مال کی قیمتیں متعین کرنے کے لئے بین الاقوامی ضابطہ کمیٹیاں قائم کی جائیں کیونکہ قیمتوں میں زبردست اتار چڑھاؤ سے کسانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بہرحال ہمارے کسانوں کے لئے یہ بات ناممکن ہے کہ اپنی کاشت کا پہلے منصوبہ مرتب کریں کیونکہ برآمدی ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکسوں کے بارے میں حکومت کی پالیسی کا پہلے سے علم نہیں ہوتا۔ یہ شرحیں تو سال کے سال نافذ ہوتی ہیں۔ کسان کو اگر یہ علم ہوجائے کہ آئندہ پانچ برسوں میں قیمتوں کی اوسط شرح کیا ہوگی تو وہ پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ اپنی پیداوار، رقبہ کاشت میں توسیع اور زرعی تحقیق کے بارے میں منصوبے بناسکتا ہے اور اس منصوبہ بندی سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ اس طرح اسے ہماری سب سے بڑی صنعت یعنی زراعت میں زیادہ سرمایہ لگانے کی ترغیب ہوگی۔
میں پنجاب کے انتظامی امور سے کئی سال الگ رہا تھا۔ میں نے یہاں آکر بہت سی ایسی کوتاہیوں کو محسوس کیا جو اصلاح طلب تھیں۔ ایک انتہائی اہم اصلاح پولیس کی تنظیم نو ہے۔ انسداد رشوت اور سراغ رسانی کے محکموں کا پولیس فور س سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ان حکموں کی بھرتی براہ راست ہونی چاہیے اور ان کے ملازم انہی محکموں میں ملازمت کے بعد سبکدوش ہوں۔ پولیس کی کارکردگی کا معیار بلند کرنے کے لئے ایک ضروری اقدام یہ ہونا چاہیے کہ پولیس افسر کا عہدہ بطور سب انسپکٹر شروع کی جائے اور جس طرح کمیشنڈ افسروں کے لئے یہ آسانی ہے کہ وہ ترقی کرکے فوج کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچ سکتے ہیں، اسی طرح سب انسپکٹروں کو پولیس کے سب سے بڑے عہدہ تک درجہ بدرجہ ترقی کا موقع ملنا چاہیے۔ نیز ان کی ابتدائی تنخواہیں وہی ہونی چاہئیں جو صوبائی سول سروس کے افسروں کی ہیں۔
ہمارا موجودہ نظام انصاف مطلوبہ معیار پر کیوں پورا نہیں اترتا؟ اس سوال کے جواب میں متعدد اسباب پیش کئے جاسکتے ہیں۔ اسلامی تاریخ نے فوری اور موثر انصاف کی ضرورت پر بہت زور دیا ہے جب کہ دوسری طرف برطانیہ کا وضع کردہ عداتی نظام جو نظری اعتبار سے نہایت شاندار ہے عملاً ناکام ہوگیا ہے۔ا س کا بدترین سبب معائنہ کا مروجہ طریقہ ہے جس پر ایک پولیس ملازم کی پیشہ وارانہ ترقی کا انحصار ہے۔ اگر تمام جرائم کی رپورٹ خراب ہو جائے گی لہٰذا وہ تمام وارداتیں درج نہیں کرتا۔ اگر وہ تمام وارداتوں کی رپورٹ درج کرے اور ملزموں کو سزا نہ ہوتو اس صورت میں بھی متعلقہ پولیس افسر کی رپورٹ خراب ہوتی ہے۔ اب ذرا اس پولیس افسر کے معاملہ پر غور کیجئے جو ایک واردات کی رپورٹ درج کرتا ہے اور اس کے ملزم کو سزا ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں متاثرہ فریق کی بالعموم تشفی نہیں ہوتی کیونکہ کسی مقدمہ میں ملزم کے لئے سزا کے معنی یقیناًیہ نہیں کہ تمام مسروقہ مال اس سے واپس مل جائے گا۔ مویشی کی چوری کے سلسلہ میں، جو ہمارے دیہات کی سب سے بڑی لعنت ہے، بالعموم یہ ہوتا ہے کہ بے چارہ جانور، ہر پیشی پر عدالت میں کھینچ کر لایا جاتا ہے اور وہ یا تو طویل مسافت طے کرنے سے ادھ موا ہوجاتا ہے یا مقدمہ کا فیصلہ ہونے کے وقت تک ادھ موا ہوجاتا ہے۔
تمام وارداتوں کے آزادانہ اندراج سے یہ تو ہوگا کہ رجسٹر جرائم سے سیاہ ہو جائے گا لیکن اس سے عوام میں یہ اعتماد پیدا ہوگا کہ پولیس مجرموں کے درپے ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی عوام کو پولیس سے تعاون کرنا چاہیے۔ ان کی طرف سے ہر مقدمہ میں مخالف فریق کے لئے سزا کا مطالبہ جائز نہیں۔ درحقیقت مقدمات میں معافی کے ذریعہ مصالحت و تصفیہ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ (بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا جاتا) تعزیرات کی رو سے بھی ایسے ملزم کو جس نے مدعی سے تصفیہ کرلیا ہے، بری سمجھا جاتا ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس طرح پولیس کی معائنہ رپورٹ پر حرف آتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ معافی کے ذریعہ تصفیہ شدہ مقدمات میں ملزم کی بریت کو سزا ہی سمجھا جائے۔پولیس افسر کی معائنہ رپورٹ سے اس کی کارکردگی کو پرکھنے کا طریقہ تبدیل کئے جانے کا مستحق ہے۔ کارکردگی کا اندازہ محض اعداد سے کرنا درست نہیں اس سے غلط معیار اور اقدار کو رواج ملتا ہے۔
انصاف کا جو تاخیر طلب اور پیچیدہ نظام اس وقت قائم ہے، اس سے ہر وہ شخص واقف ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسے تنخواہ دار مجسٹریٹوں کی تعداد میں اضافہ سے مسائل حل نہ ہوں گے جو ایک ایک ضلع میں 50,50 ہزار مقدموں کو نپٹتے ہیں۔ حصول انصاف کی رفتر تیز تر اس وقت ہوگی جب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہتر تنخواہ دار مجسٹریٹ مقرر کئے جائیں اور مقدمہ کی سماعت کے ضوابط مختصر بنائے جائیں۔ ایسے معاملات کی سماعت کے لئے جو پولیس کی دست اندازی کے قابل نہیں ہوتے۔ یونین کونسلوں کے بورڈ کا قیام مفید ثابت ہوگا۔ ایسے معاملات کو تصفیہ کے لئے فرد واحد کے سپرد نہیں کرنا چاہیے اگرچہ یہ درست ہے کہ بعض سنگین نوعیت کی وارداتیں، جرائم کی محض اس تخصیص کے باعث رونمائی ہوتی ہیں کہ ان میں سے کچھ تو پولیس کی دس اندازی کے لائق ہوتے ہیں اور کچھ ناقابل دست اندازی پولیس۔ ہتک عزت اور معمولی آویزش کے واقعات سے نمٹنا ضروری ہے، ورنہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں قتل کی وارداتوں کا سبب بن جاتی ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر حکومت برطانیہ کا یہ طریقہ پسند تھا جس کے تحت ہر ضلع کا پولیس سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا تابع ہوتا تھا۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد میں نے اس معاملہ پر غور کیا لیکن مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ انسپکٹر جنرل پولیس کے نظریہ کو قبول کر بیٹھا اور بعض معمولی تبدیلیوں کے نفاذ سے مطمئن ہوکر بیٹھ رہا۔ مثلاً یہ پولیس سپرنٹنڈنٹ کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ ڈسٹرکٹ کمشنر لکھا کرے گا لیکن آج کل کے بہت سے ڈسٹرکٹ کمشنر اتنے ناتجربہ کار ہیں کہ ان کی رائے پولیس کے سامنے کچھ زیادہ وزن نہیں رکھتی۔(جاری ہے)