دو سوسے زائد امریکی کمپنیاں چین میں کیا تلاش کر رہی ہیں؟
چین کو مواقع کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہاں ہر سال ہزاروں کاروباری لوگ آنکھوں میں کامیابی کے خواب سجائے آتے ہیں اور اپنی مراد پاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برس سے زائد عرصے میں چین نے جس انداز میں کھلے پن کو فروغ دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ چین سرمایہ کاری کی راہ میں حائل منفی فہرست کو مسلسل مختصر بنا رہا ہے اور اپنے دروازے مزید کھلے کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے بیس برسوں میں بھی چین نے عالمی معیشت میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
کھلا پن دور حاضر میں چین کی ترقی ایک مخصوص علامت بن چکا ہے۔ بالخصوص دو دہائیاں قبل جب سے چین نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی تھی، اس نے عالمی تجارتی تنظیم سے کیے گئے اپنے وعدوں کو مکمل طور پر پورا کیا ہے، اپنے کھلے پن کو مسلسل وسعت دی ہے، جس سے نہ صرف چین نے اپنی ترقی کو یقینی بنایا ہے بلکہ عالمی معیشت کو بھی متحرک کیا ہے۔
چین دنیا کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا اور دنیا چین کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ بیس سال قبل ڈبلیو ٹی او میں چین کی شمولیت کے موقع پر، اُس وقت کے ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل مائیک مور نے "نیو یارک ٹائمز انٹرنیشنل ایڈیشن" میں لکھا تھا کہ مستقبل کے مورخین ڈبلیو ٹی او میں چین کی شمولیت کو "اکیسویں صدی کی وسیع ترین شراکت" اور اہم تاریخی واقعات میں سے ایک قرار دیں گے۔ ان کے خیال میں عالمی کمپنیوں کے لیے چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کا مطلب "قابل ذکر مواقع" کی دستیابی ہے۔ آج حقائق نے مور کی پیش گوئی کو درست ثابت کر دیا ہے- گزشتہ 20 سالوں میں عالمی کمپنیاں چینی مارکیٹ سے مستفید ہونے کے لیے تیزی سے آگے بڑھی ہیں اور وسیع پیمانے پر فائدہ اٹھایا ہے.
رواں سال چوتھی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں 127 ممالک اور خطوں کی تقریباً 3000 کمپنیوں نے شرکت کی ہے۔ ان ممالک میں ترقی یافتہ ، ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں فارچون 500 کمپنیوں کی تعداد میں بھی گزشتہ ایکسپو کی نسبت اضافہ دیکھا گیا ہے، یہ چین کی جانب سے مسلسل کھلے پن کے ثمرات ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق ،دس تاریخ کو ختم ہونے والی چوتھی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں لین دین کے جو معاہدے طے کئے گئے ہیں ان کی کل مالیت 70.72 بلین امریکی ڈالرز سے تجاوز کرگئی ہے۔بہت سے نمائش کنندگان نے اظہار کیا ہے کہ "ہم اگلے سال پھر آئیں گے"
چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو کی کامیابی اتفاقی نہیں ہے۔ فوڈ انڈسٹری کو ایک مثال کے طور پر لیجئے۔ اس وباء کے بعد سنگاپور میں کھانے پینے کی اشیا کی کوئی نمائش نہیں ہوئی اور بیشتر بین الاقوامی نمائشیں بھی بند کر دی گئیں۔ اس تناظر میں، چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو کا شیڈول کے مطابق انعقاد قدرتی طور پر سنگاپور کی کمپنیوں کے لیے اعلیٰ معیار کے شراکت داروں سے رابطہ کرنے کا ایک نادر موقع بن گیا ہے۔
اس کے علاوہ موجودہ ایکسپو میں 1,000 سے زیادہ چینی اور غیر ملکی کمپنیوں کے درمیان 200 سے زیادہ تعاون کے معاہدے طے کئے گئے ہیں ،ان میں سے، "دی بیلٹ اینڈ روڈ" کے ممالک نے بڑی تعداد میں آرڈر حاصل کیے ہیں جبکہ 33 کم ترقی یافتہ ممالک کی تقریباً 90 کمپنیوں نے نمائش میں شرکت کی، یوں چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکپسو ترقی کے مواقع بانٹنے کا ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اس سال تقریباً 200 امریکی کمپنیوں نے نمائش میں شرکت کی جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ظاہر ہے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے، چینی مارکیٹ کی کشش کو رد نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کشش چین کے ڈبلیو ٹی او میں شامل ہونے کے گزشتہ 20 سال کا ثمر ہے۔
پھیلتی ہوئی کووڈ-19 کی وبا کے سائے میں،عالمی معیشت اور تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے، اور بحالی کے لیے انجن تلاش کرنا اولین ترجیح بن گیا ہے۔ اس سال کے چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو کے انعقاد نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اس انجن کو تلاش کرنے میں مدد دی ہے۔
"ایک ساتھ ترقی ہی حقیقی ترقی ہے۔" ایک عالمی ترقیاتی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے چین کے تصور کی چائنا انٹرنیشنل ایکسپو میں پوری طرح عکاسی کی گئی ہے، اور ایک زیادہ کھلے پن کا حامل چین عالمی کمپنیوں کے لیے مزید فوائد اور مواقع لائے گا۔ یہی وہ ترقیاتی مواقع ہیں جن کی تلاش میں 200 امریکی کمپنیوں سمیت دنیا کی سینکڑوں کمپنیاں چین میں آئی ہیں۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.