قادیانیت ایک مطالعہ!    (1)

 قادیانیت ایک مطالعہ!    (1)
 قادیانیت ایک مطالعہ!    (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 قادیانیت راقم السطور کا خاص موضوع ہے چند برس قبل اس بارے میں ایک تصنیف”سازشوں کا دیباچہ“مصنف،قانون دان،کالم نویس،ادیب رائے ارشاد کمال مرحوم کی  اس موضوع پہ منظر عام پر آچکی ہے جوبہت مقبول و معقول ہے یہ مضمون شائستگی و تہذیب کا شاہکار کہا جاسکتا ہے دھیمہ لہجہ،دل کش،اسلوب نگارش اور علمی و فکری انداز!برصغیر پاک وہند میں مرزا غلام احمدقادیانی کے ذہنی ارتقاء و فکری نشوونما کی کہانی از حد دلچسپ لائق مطالعہ اور قابل تجزیہ ہے تاہم ایک تاریخی حقیقت اور حیرت یہ ہے کہ مرزا صاحب کے ذہن و فکر کا مطالعہ و تجزیہ جیسا کیا جانا چاہیے تھا شائد کبھی اور کہیں بھی نہیں کیا گیا اس حوالے سے میں اکثر و بیشتر حیران بلکہ پریشان ہوجایا کرتا ہوں کہ اب تک ان کی شخصیت  و دعاوی کا نفسیاتی جہت سے غیر جانب دارانہ اور حقیقت پسندانہ جائزہ کیوں نہیں لیاگیا جبکہ حقائق واقعی تک رسائی کے لیے یہ ایک فطری عمل تھا مرزا صاحب اس لحاظ سے بطور خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ وہ تاریخ کے از حد نازک سیاسی موڑ پر مذہب کی قبا اوڑھ کر نمو دار ہوئے ہاں سوچنے کا یہ انداز بالکل درست ہے کہ اگر بدقسمتی سے ہندستان میں مسلم راج،تاراج نہ ہوگیا ہوتا تو کیا پھر بھی یہ شخص کسی ایسے روپ میں سامنے آسکتا تھا؟موصوف اس دور میں ابھرے جب ملک بھرمیں فتووں اور دعووں کی ایک بہار آچکی تھی قدیم سے قدیم اسلوب میں نئی سے نئی وضع کا فتویٰ اور جدید سے جدید انداز میں پرانے سے پرانا دعویٰ! ہندوستان میں ”واقعہ یہ ہے“مرزا قادیانی کی الف لیلوی داستان سے قبل خطہ ایک اصلاح پسند کے نامانوس افکار کی یلغار نے تجدد پرست حلقہ کے اذہان کو ہیجان میں مبتلا کردیا ہوا تھا ایران میں پہلے محمدعلی باب اور پھر بہاء اللہ کی جدت یابدعت بھی اپنا رنگ رکھا،یا جماچکی تھی۔مہدی سوڈانی اور مہدی جونپوری وغیرہ  کے تناظر میں بھی عوام کو سرعام کہنے سننے اور لکھنے کا صحیح یا غلط کافی ذخیرہ میسر تھا کہاجاتا ہے اور شائد یہ کچھ غلط بھی نہیں،کہ گاہ گاہ جاہل وغالی صوفیاء نے کشف و عشق کی اپنی الگ دکان سجائے اور چمکائے رکھی،لیکن مذکورہ ہر دو طبقات کے مابین ہمیں یہ فرق کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ وابستگان تصوف میں سے بالغرض اگر کسی کج خیال نے کبھی کوئی فضول و نامعقول دعویٰ کیا بھی ہے تو وہ محض ان کی ذاتی واردات و کیفیات کا ماحصل قرار پایا انہوں نے اپنے مہوم کشفی تجربات و مشاہدات کو کبھی اور کہیں نظام فکر نظریہ حجت کے طورپر پیش نہیں کیا قول و فعل یا عمل و دعویٰ کا ایک انفرادی تجربہ تاکہ اجتماعی معیار! جس کسی نے بھی تاریخ کے اوراق بخوبی کھنگھال کر دیکھے اور اساسی عقائد و نظریات کی تحقیق کاڈول ڈالا تو بالآخر اس نے یہ نتیجہ ضرور پایا ہے کہ گمراہی و بدعقیدگی کے تمام قافلے فی الواقع روافض و خوارج کی منطقی صدائے با ز گشت ہیں عرب،عجم اور ہند میں بھی یہی کچھ ہوا   رفض کا مرض اٹھا تو باب اور بہاء، خارجیت کا بخار چڑھا تو بتدریج قادیانیت!ادھر بابی وبہائی تشیع کی صف سے اٹھے تو ادھرشیخ نجد،مہدی سوڈانی اور مرزا قادیانی حنافلہ سے ”نکلے“یہ اٹھنا اور نکلنا فقط رعائت لفظی ہی نہیں، بلکہ عمل واقعی بھی ہے مرزا صاحب کے دعویٰ مہد دیت و نبوت سے قبل تقویت ایمان کے عنوان پر ضعف فکر کا ڈھیرسامان ہوچکا تھا۔ آنکھ کھولی تو ہندوستان میں بکثرت سطحی مذہبی لٹریچر تخلیق ہوچکا تھا،ہمیں اس عہد سے متعلق غیر سنجیدگی و خام فکری کے شاہکار عامیانہ رسائل کی ایک لمبی فہرست ہاتھ لگتی ہے ایسے ایسے عجیب و غریب، بے مقصد،دلخراش اور ایمان سوز موضوع کہ جن کے تصور سے بھی گھن آجائے!  مذہبی ادبیات کے نام پر ایک غلیظ و  ناپاک دفتر!!مرزا غلام احمد قادیانی نے ان ”شاہپاروں“ کو گویا گھونٹ کے پی رکھا تھا۔انہوں نے اپنے جملہ افکار و اقوال اور اعمال و دعاوی کا خیر ”امکان النظیر“طرز کی کتب ہی سے تو گوندھا،بلاشبہ اس نوع کا مسالہ ان کے بہت کام آیا،اور انہوں نے اپنی متخیلہ عمارت میں یہ جی بھر کے لگایا درآنحالیکہ وہ خودکسی بھی شعبے میں پورا علم نہیں رکھتے تھے، ناپختہ اور ادھورا،ناقص اور منتشر! باقاعدہ نظام فکر سے تو ان کا کبھی کوئی علاقہ ہی نہیں رہا! ایران میں بہاء سے پہلے باب آیا،اور اس کے فکروعمل کے لیے ماحول سازگارو آسان بنایا گیا تھا،ہوبہو اسی طرح ہندوستان میں بھی ایک مذہبی پس منظر رکھنے والا شخص یکا یک منظر پر آیا،اور اس نے کتاب التوحید کو اپنے ایک اردو رسالے میں کشیدہ کرکے رکھ دیا،یہ صاحب توحید کی آڑ میں رسالت کا منصب گھٹا اور رسول  ﷺکا مقام ومرتبہ بڑے بھائی یا گاوں کے ایک چوہدری کے برابر بتا رہے تھے مطلب؟ مطلب یہ کہ نبوت،عرش کی نہیں فرش کی کوئی شئے ہے،اور اسے زمین پر سے بھی تلاش کیا جاسکتا ہے،گویا نبوت  ﷺکا عنصر وہیجاکے بجائے کبا  ہے (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -