بے اعتبار انتخابی عمل، کمزور جمہوریت
امریکی صدارتی انتخاب کے حتمی نتائج سامنے آئے تو اندازہ ہوا ایک جمہوری قوم کیسے انتخابی عمل میں شامل ہوئی ہے۔ 91.62فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ غالباً یہ بھی ایک ریکارڈ بن گیا ہے۔ پاکستان میں ہم اتنے زیادہ ٹرن آؤٹ کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اندازہ کریں کہ ہماری جمہوریت 30یا 35 فیصد ٹرن آؤٹ پر کھڑی ہے۔ گویا سو میں سے تیس بندے ملک میں جمہوری نمائندوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ 35فیصد بھی کیسے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچ جاتے ہیں، اس پر حیرت کا اظہار تو کیا ہی جانا چاہیے کہ ان لوگوں کو بھی اعتبار نہیں ہوتا جسے ووٹ ڈال کر آئے ہیں، اسے مل بھی جائے گا یا نہیں۔ یہاں نہ بیلٹ بکس محفوظ ہوتے ہیں اور نہ انتخابی سامان کے تھیلے، سیل شدہ سامان ریٹرننگ افسر کے دفتر جمع کرانے والے بھی یہ سمجھتے ہیں اب اس ریکارڈ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہم نے اپنے انتخابی عمل کو شفاف نہیں بنایا، اس میں اتنے زیادہ سوراخ رکھ دیئے ہیں کہ کوئی بھی نقب لگائی جا سکتی ہے۔ بہت پرانی بات ہے میں ایک پولنگ اسٹیشن پر پریزائیڈنگ افسر کی ڈیوٹی دے رہا تھا۔ ریٹرننگ افسرسے انتخابی سامان کا تھیلہ لے کر ایک رات پولنگ اسٹیشن پر گزاری اور صبح سویرے ساری تیاری مکمل کرکے پولنگ شروع کرائی تو خاصا ہجوم تھا جو ووٹ ڈالنا چاہتا تھا۔ میں نے اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسروں سے کہا رفتار ذرا تیز رکھی جائے، ان میں ایک پرانا تجربہ کار بھی موجود تھا، اس نے کہا یہ سب دو گھنٹے میں بھگت جائیں گے اور باقی چھ گھنٹے ہم مکھیاں ماریں گے۔ خیر ووٹنگ جاری رہی، تقریباً بارہ بجے کے قریب پولنگ اسٹیشن خالی ہو گیا۔ میں نے پوچھا اب تک کتنے ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں تو بتایا گیا صرف بیس فیصد، حالانکہ مجھے رش دیکھ کر لگ رہا تھا ووٹنگ کی شرح پچاس ساٹھ فیصد تو ضرور رہے گی۔ پولنگ کا وقت شام کو ختم ہواتو گنتی سے پہلے سب پولنگ ایجنٹوں کو بلایا گیا۔ سب یہی کہہ رہے تھے ووٹ بہت کم کاسٹ ہوئے ہیں، لوگ ووٹ ڈالنے نکلتے ہی نہیں، گنتی کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آئے،پولنگ اسٹیشن پر درج ساڑھے تین ہزار ووٹوں میں سے صرف 9سو ووٹ کاسٹ ہوئے تھے یعنی اس پولنگ اسٹیشن کے چوبیس سو لوگوں نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی۔ یہ آج سے پچیس سال پہلے کی بات ہے، اس وقت بھی یہی حال ہے، بلکہ صورتِ حال زیادہ خراب ہو چکی ہے۔ ایک سیاسی مبصر ٹی وی چینل پر بتا رہے تھے کم ٹرن آؤٹ کی وجہ سے دھاندلی کے امکانات ریٹرننگ آفیسر کی سطح پر بڑھ جاتے ہیں کیونکہ غیر کاسٹ شدہ ووٹوں کا ذخیرہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی نتیجہ فارم 47میں بدلا جا سکتا ہے۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سات کروڑ پاپولر ووٹ لئے ہیں جبکہ ان کے الیکٹرول ووٹ 312 ہیں۔ ان کی مقابل کملا ہیرس 226 الیکٹوریل ووٹ لے سکیں۔ گویا انہیں 86الیکٹورل ووٹ کم ملے، یہ ایک بڑا مارجن ہے جس سے ڈونلڈ ٹرمپ جیتے ہیں، اصل بات یہ نہیں، اصل نکتہ یہ ہے امریکی عوام اپنے جمہوری نظام سے لاتعلق نہیں۔ ہمارے ہاں کئی وجوہات ایسی ہیں جنہوں نے عوام کو جمہوریت سے مایوس کر دیا ہے، اب وہ اپنے علاقے کے نمائندے سے کوئی امید رکھتے ہیں اور نہ منتخب ہونے والی حکومت سے آپ پاکستان کے انتخابی نتائج اٹھاکے دیکھ لیں، اس قوم سے کیسے کیسے وعدے نہیں کئے گئے، کس کس انداز کے پرکشش منشور عوام کو پاگل بنانے کے لئے نہیں بنائے گئے، مگر حرام ہے ان پر کسی نے عمل کیا ہو۔ عوام کو اب تک صرف بھٹو کا پیش کردہ روٹی، کپڑا اور مکان کا منشور یاد ہے، جو پورا نہیں ہوا اور آج تک بھٹو کے مخالف مذاق اڑاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے، اس حوالے سے سبھی ایک ہی قطار میں کھڑے ہیں۔ سب نے اپنے اپنے وقت پر انتخابی منشور کے ذریعے سبز باغ دکھائے اور منتخب ہونے کے بعد سب کچھ بھول گئے،جس قدر پرکشش منشور ان 77برسوں میں پیش کئے گئے ان پر پچاس فیصد بھی عمل ہو جاتا تو آج پاکستان کی حالت یہ نہ ہوتی۔ سیاسی جماعتوں کی سطح جو صورتحال رہی، اس کا احوال تو تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہے، لیکن جو وعدہ خلافیاں اپنے حلقوں میں عوامی نمائندوں نے کیں وہ بذاتِ خود ایک شرمناک داستان ہے، منتخب ہونے کے بعد اپنے ووٹروں کو دستیاب نہ ہونا اور ان کے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اپنے مفادات کو آگے رکھنا ایک کھلا راز ہے۔کہتے ہیں آوازِ خلق کو نقارہ خدا سمجھنا چاہیے، اس وقت عوامی نمائندوں کے بارے میں عوام کی رائے کیا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، جس نظام نے پیدل چلنے والے نمائندوں کو بڑی گاڑیوں پر بٹھا دیا ہو لیکن ان کے حلقے میں غربت، پسماندگی، بے روزگاری اور بدامنی ہو تو عوام ان پر، اس نظام پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں جب بالائی سطح پر حکمران اور حلقے کی سطح پر عوامی نمائندے اپنے عمل سے عوام کی رائے اور ووٹ کی پرچی کو بے توقیر کریں گے تو جمہوریت پر اعتبار کیسے قائم ہوگا، کوئی کیسے یہ سمجھے گا کہ اس کے ووٹ کی اہمیت ہے اس نے ووٹ کاسٹ نہ کیا تو یہ بہت بڑی غفلت اور مجرمانہ عمل ہوگا۔
ہمارا نظام انتخاب کتنا کھوکھلا ہے،اس کا اندازہ ہر الیکشن کے بعد ہوتا رہا ہے،77سال گزرنے کے باوجود اس ووٹ کی پرچی کا تقدس یقینی نہیں بنایا جا سکا، جو آتا ہے اسے روند کر چلا جاتا ہے۔ اس بار تو کچھ زیادہ ہی پورا نظام بے نقاب ہوا ہے۔ اس نظام میں فارم 45کی بڑی کلیدی اہمیت تھی کیونکہ یہ پولنگ اسٹیشن کی سطح پر گنتی کے بعد پریذائیڈنگ افسر کے دستخط سے جاری ہوتا تھا۔ اسے ہر سطح پر تسلیم کیا جاتا تھا مگر اس بار اسے ٹشو پیپر کا درجہ دے کر پھینک دیا گیا۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جب ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیئے کہ جب دوبارہ گنتی کا حکم ہو جائے تو فارم 45کی کوئی اہمیت نہیں رہتی تو پورے انتخابی عمل پر گویا کالی سیاہی ڈال دی گئی۔ کیا بیلٹ پیپرز اور انتخابی مواد ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کرانے کے بعد محفوظ رہتا ہے؟ اگر الیکشن کمیشن ہی اس سارے دھندے میں ملوث ہو جائے تو کسی کے حق میں جتنی مرضی پرچیاں نکال لو اور جس کی چاہو کم کر دو۔ درست ووٹوں پر بھی ڈبل نشان لگا کر متنازعہ بنا دو اور ان کے مطابق دوبارہ گنتی کر کے من پسند کو فاتح قرار دے دو۔ پہلے تو اصول یہی تھا، فارم 45کے مطابق دوبارہ گنتی کی جاتی تھی، اس کے مطابق جوووٹ مسترد ہوئے انہیں دوبارہ دیکھا جاتا تھا۔ اسی طرح گنتی میں کوئی غلطی نہ رہ گئی ہو، اس کا ازالہ کیا جاتا، مگر اگر کوئی کہے کہ فارم 45کا دوبارہ گنتی میں کوئی کردار ہی نہیں تو گویا آپ اسی پولنگ اسٹیشن کے سارے عمل پر کاٹا لگا رہے ہیں جب آپ اپنے انتخابی نظام کو ایک مذاق بنا دیں گے تو عوام اس پر اعتبار کرکے پولنگ اسٹیشنوں پر کیوں جائیں گے پھر تو یہ ایک خواب ہی رہے گا اور ہم امریکہ کے ٹرن آؤٹ کو حیرت سے دیکھتے رہیں گے۔