انتخابات،سیاستدان زیادہ ذمہ داری دکھائیں
سیاست کا بڑا مقصد چونکہ حصول اقتدار و اختیار سے ہے اس لئے ذہنی مالی اور افرادی قوت کے حامل لوگ اس شعبہ میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور عام لوگ اس میدان میں اپنی بے بسی اور کم مائیگی کی بنا پر ہمت و جرات نہیں کرتے۔ سادہ الفاظ میں یہ محاذ عموماً بڑے لوگوں کے لئے ہی مناسب ہے کیونکہ وہ اس کثیر جہتی شعبہ کے تلخ حالات اور تجربات سے نبرد ہونے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جبکہ بہت لوگ اپنے محدود مالی وسائل کے باوجود بہتر انسانی خوبیوں کے استعمال اور صلاحیت سے سیاست دان بننے میں کامیاب ہو کر ملک و قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔ گزشتہ کئی سال کے حالات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔
پاکستان 76 سال قبل وجود میں آنے کے باوجود تا حال سیاسی اور معاشی لحاظ سے کافی مشکلات سے دو چار ہے۔ جبکہ اسی خطہ ارضی، بر اعظم ایشیا کے قرب و جوار کے کئی ممالک محدود وسائل کے باوجود نسبتاً بہتر حالات میں تعمیر و ترقی کی منازل طے کر چکے ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش، جاپان، ملائشیاء، سنگا پور، تائیوان، جنوبی کوریا وغیرہ ہم سے بعد میں آزادی حاصل کرنے کے باوجود قابل ذکر ترقی کرکے آج کل ہمارے لئے سبق آموز مثالیں بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے شمال میں واقع بڑے ملک چین کی مختلف شعبوں میں کی گئی ترقی اور پیش رفت کئی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے اسی شاندار کارکردگی کے نتائج سے استفادہ کرنے کے لئے پاکستان کا چین سے کیا گیا معاہدہ سی پیک کئی امور پر محیط ہے تاکہ ہم ان سے مالی تکنیکی اور اصول و ضوابط جیسے مثبت نتائج سے سبق حاصل کر کے اپنی کارکردگی کے نقائص ختم یا کم کر سکیں اور بہتر اہداف پانے میں کامیاب ہو کر عام لوگوں کو درپیش مشکلات سے کسی حد تک نجات دلا سکیں مذکورہ بالا ممالک نسبتاً قریب یعنی چند سو، چند کلومیٹر کے فاصلوں پر واقع ہیں وہاں وطن عزیز کے کئی لوگ اپنے کاروبار تعلیم یا سیر و سیاحت کے لئے گاہے بگاہے جاتے رہتے ہیں۔ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت سے بعض امور میں ہم سے کچھ مماثلت یا مشابہت بھی ہوتی ہے، ان کا معیارِ زندگی بھی ماضی قریب میں اہل وطن سے زیادہ مختلف نہیں تھا اگرچہ حالیہ سالوں میں ان کی غیر معمولی محنت و مشقت اور دیانت داری پر مبنی کارکردگی کی وجہ سے ان کی معاشی حالت میں بہتری سے ان کا مقام و احترام بلند ہوتا رہا۔ جبکہ ہم لوگ جسمانی صحت، ذہنی فراست اور با صلاحیت انسانی صفات کے باوجود اپنی غفلت، کام چوری اور تن آسانی کی عادات و حرکات سے غربت اور پسماندگی کی اندھیر نگری میں بڑھتے چلے گئے۔ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں وقت گزرنے کے ساتھ مقررہ اوقات کے دورن، مطلوبہ معیار کی کارکردگی مفقود ہوتی چلی گئی، ان دفاتر میں ایک یا دو نشستوں پر چار پانچ یا زیادہ افراد بیٹھے نظر آتے ہیں لیکن عام لوگوں کے کام بروقت سر انجام دینے کی نوبت پھر بھی بہت کم ہوتی ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بیشتر سرکاری اداروں میں سالانہ کروڑوں یا اربوں کی کرپشن کی خبریں آئے روز قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر پڑھنے اور سننے میں آتی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ایسے بیشتر واقعات کے مرتکب افراد کو عدالتی کارروائیوں میں بہت کم قید یا جرمانوں کی سزائیں ملتی ہیں بلکہ ان کی بددیانتی سے خورد برد کی گئی رقوم بھی اکثر اداروں کو واپسی نہیں ہوتی۔ اس ناکامی کی بڑی وجہ ٹھوس، مضبوط شہادت اور دستاویزات عدالتوں میں پیش کرنے سے بھی اجتناب کیا جاتا ہے۔ ایسی کارروائی ملزمان کی متعلقہ مخالف فریقین سے، ملی بھگت کی بنا پر وقوع پذیر ہوتی ہے یوں مذکورہ بالا نوعیت کی بڑی مالیت کی رقوم کی خیانت کاری کے ملزم عدالتوں سے اکثر اوقات بری ہو جاتے ہیں۔ اس پہلو تہی پر کسی حکومت کی جانب سے بھی کڑی نظر یا نگرانی بہت کم یا محض برائے نام ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس طرح ملک کو بیرونی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی بڑی رقوم یا امداد کے لئے انسانی فلاح و بہبود کے لئے مختص فنڈز، مختلف متعلقہ منصوبوں پر خرچ کرنے کی بجائے بد دیانتی سے کرپشن کے ذریعے عادی مجرموں کے ہاتھوں لوٹ مار کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم لوگ ایسی روایتی بد عنوانی کے تسلسل کا تا حال کوئی موثر تدارک نہیں کر سکے اور یہ قومی خزانے کی تباہ کاری کا رجحان حالیہ سالوں میں موثر حکمت عملی سے روکا نہیں جا سکا۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ملکی ترقی کے لئے اس کرپشن کے سدا بہار جاری مالی نقصان پر سختی سے قابو پانے کے لئے ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر منصوبہ بندی جلد کر کے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان کو باہمی اختلافات اور جھگڑوں میں پڑنے کی بجائے عوام کے مسائل اور مشکلات حل کرنے پر فوری توجہ دینی چاہئے۔
انتخابی مہم اگرچہ عملی طور پر ملک کے کئی علاقوں میں شروع ہو چکی ہے لیکن الیکشن کمیشن نے ابھی تک عام انتخابات کے انعقاد کے باقاعدہ شیڈول کا اعلان نہیں کیا۔ اس لئے بعض سیاسی رہنما اپنے سیاسی مفادات کے نقصان کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ جس پر بعض حریف سیاسی رہنماؤں کو اس کوتاہی کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان کی کارکردگی اور دیانت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایسی بیان بازی بتدریج زور دار انداز اور تلخ کلامی کا رنگ پکڑ رہی ہے۔ اس روش سے سیاسی رہنماؤں کے مابین کشیدگی کا ماحول بلا جواز فروغ پا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن یا دیگر کسی متعلقہ ادارے یا اتھارٹی کو مذکورہ بالا معاملہ پر بیان یا وضاحت کر کے صورت حال کو سنگین بننے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ سیاست کار حضرات سے توقع ہے کہ وہ بھی انتخابی مہم کے جلسوں اور اجتماعات میں سیاسی حریفوں پر کسی بے بنیاد الزام تراشی اور کردار کشی کی غیر قانونی اور ناجائز حرکات سے اجتناب کریں گے تاکہ انتخابی مہم اور انتخابی عمل تک ملک بھر میں حالات پر امن اور خوشگوار ہیں۔