ہونہار بروا کے، بلاول ننھیال کے نقش ِ قدم پر!
سیانے کہتے ہیں جب تک موقع نہ ملے کسی کے جوہر نہیں کھلتے۔سیاست میں تو یہ مسلمہ بات ہے اِس میدان میں بڑے بڑے آئے اور نام گم کر گئے۔ایسا ہی کچھ معاملہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی اولاد کا بھی ہے، بلاول بھٹو زرداری کو جب ان کی شہادت کے بعد میدانِ سیاست میں اتارا گیا تو ان کو اردو تک نہیں آتی تھی، اور ویسے بھی یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ ان کو سیاست سے دلچسپی نہیں ہے اور ان سے بہتر ان کی چھوٹی بہن آصفہ ہے،لیکن میرے علم میں یہ بات تھی کہ محترمہ نے بلاول ہی کو تربیت سے سنوارا ہے یہ الگ بات کہ عمر کے تقاضے اور آکسفورڈ کی تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے ان کی دلچسپی ظاہر نہیں ہوتی تھی،ممکن ہے کہ ان کے دِل کے کسی کونے اور گوشے میں ایسا خیال ہو کہ سیاست میں خواری ہے کہ ان کے نانا،والدہ اور دونوں ماموں غیر حقیقی موت سے ہمکنار ہوئے تھے،لیکن بقول ڈاکٹر جہانگیر بدر (مرحوم) بلاول میں سیاست کے جراثیم تھے اور وہ ذہین بھی ہیں۔یہ بات انہوں نے اپنے مشاہدے کی بناء پر مجھ سے کی تھی کہ محترمہ اس نوجوان کو مختلف کانفرنسوں میں شرکت کے لئے بھیجتی تھیں تو ان کے ساتھ جہانگیر بدر بھی جاتے تھے کہ یہ محترمہ کے اعتماد اور خواہش کی بات تھی، سیاست ویسے بے درد ہوتی ہے کہ اعتماد مشکل سے کیا جاتا ہے تو بلاول کی نگرانی کا بھی انتظام موجود تھا اور مرحوم عبدالرحمن ملک کئی دوروں میں نہ صرف ساتھ ہوتے،بلکہ ایسے چپکے رہتے کہ جہانگیر بدر اور بلاول کی گفتگو سے مستفید ہو سکیں۔بہرحال حالات اور وقت نے بلاول کو اس میدان میں دھکیل دیا تو ان کے لئے بڑی مشکل اردو پر عبور تھا۔ یہ مشکل محترمہ کو بھی پیش آتی تھی لیکن انہوں نے جلد قابو پا لیا تھا کہ ان کو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ وقت گذارنے کا بہت موقع ملا تھا، بلاول کی مشکل یہ بھی تھی کہ ان کو اچانک سیاست میں آنا پڑا تو اردو بھی نہیں آتی تھی۔ ابتدائی طور پر ان کو تقریر رومن میں لکھ کر دی جاتی اس کے باوجود وہ اٹک جاتے تھے کہ اردو تلفظ میں دِقت ہوتی تھی، پھر اس کا حل انہوں نے خود تلاش کیا اور اپنی جماعت والے لوگوں کو تائید کے ساتھ کہا کہ کچھ بھی ہو ان کے ساتھ گفتگو اردو میں کی جائے،اس کے ساتھ ہی انہوں نے خود بھی کوشش شروع کر دی۔ اگرچہ کئی بار ان کی اردو کا مزاح بنا، لیکن وہ ثابت قدم رہے اور بالآخر اب وہ اپنی والدہ کی طرح اِس مشکل پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے اور اب ان کو رومن اردو کی ضرورت نہیں ہوتی،جبکہ آصفہ بھٹو نے والدہ کی طرح اردو پڑھی ہے۔
اسے صرف ابتدائیہ جانیں،بات تو حالیہ دور کی کرنا ہے کہ بلاول کو اب کھلا میدان ملا ہے تو جوہر بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔میں نے اپنے ایک کالم میں بتایا تھا کہ بلاول تربیت کے نام پر پابندی سے الرجک ہیں اور درمیان سے غائب ہو جاتے ہیں تاہم پھر یہ وقت تو آنا ہی تھا کہ سیاسی میدان خالی بھی نہیں چھوڑا جا سکتا اور خود بلاول کو بھی دلچسپی لینا ہی تھی کہ کوئی اور آپشن نہیں تھا۔اب ان کو آزادی دی گئی تو وہ یکایک متحرک نظر آئے اور بوڑھے جیالے ان میں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی جھلکیاں دیکھنے لگے ہیں۔حتیٰ کہ ترقی پسند بابے ان سے بہت سی توقع لگائے بیٹھے ہیں ایسے ہی ایک بابے نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ کے ساتھ ساتھ بیگم نصرت بھٹو کو بھی یاد کیا اور کہنے لگے بلاول میں نانا اور والدہ کی جھلک نظر آتی ہے۔بلاول بھٹو نے حالیہ دِنوں میں آئینی ترامیم کے حوالے سے جو تگ و دو شروع کر رکھی ہے اور جس طرح وہ بزرگوں سے ملتے اور ان کے ساتھ عدالتی اصلاحات کے پیکیج پر گفتگو اور مذاکرات کرتے ہیں اس سے ان کی ذہانت جھلکتی ہے اور مجھے تو یہ بھی خوشی ہے کہ ابتداء میں ان کی طرف سے چند جملے بولے گئے تو میں نے اپنی پہلی ملاقات میں ان سے کہا تھا کہ ایسا جچتا نہیں ہے اگرچہ انہوں نے عذر پیش کیا کہ وہ جواب دینے پر مجبور ہوتے ہیں تاہم یہ بھی یقین دلایا کہ احتیاط کریں گے اور اب ان کا یہ عالم ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے اور مکمل مشاورت کی بات کر رہے ہیں، حتیٰ کہ انہوں نے عمران خان کے فوجی ٹرائل کے حوالے سے بھی پہلے ثبوت سامنے لانے کی بات کی اور اب ان کا موقف ہے کہ آئینی اصلاحات کے لئے سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے،ان کی طرف سے تحریک انصاف پر جملے بازی یا حملے ختم کر دیئے گئے ہیں اور اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کو سیاست میں دلچسپی پیدا ہو گئی ہے اور وہ بھرپور طریقے سے سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔البتہ آصفہ بھٹو ان دِنوں زیادہ نظر نہیں آتیں،شاید یہ بھی کسی حکمت عملی کا تقاضہ ہو۔
قارئین! میرے بہت سے دوست اس تحریر کو طعنہ بھی بنائیں گے، لیکن میں بلاول کو اس طرزِ سیاست کی طرف جاتا دیکھ رہا ہوں جو میرے دِل میں ہے کہ ملک میں خالص سیاسی اور جمہوری ماحول ہونا چاہئے۔ہر بات ایوان میں ہو، سیاسی اختلاف تو ہو لیکن دشمنی کی حد تک نہ جائے، میری ہی نہیں ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ ملک درپیش مسائل سے عہدہ برآ ہو، سکون اور چین ہو،امن رہے،مہنگائی کا خاتمہ اور بے روز گاری نہ ہو، اور یہ سب اس طرح ممکن ہے کہ سیاسی میدان میں دشمنی نہ ہو،اختلاف کو مقصدیت تک رکھا جائے اور آپس کے تعلقات خوشگوار ہوں،میں نے اپنی پارلیمانی رپورٹنگ کے دوران ایوانوں کے بڑے ایسے اجلاس دیکھے اور کور کئے ہوئے ہیں،جب اجلاس میں سخت تنقید اور تقریریں بھی ہوتی تھیں،جواب بھی دیا جاتا تھا اور پھراسی ایوان میں یہ سب کسی لنچ اور ڈنر میں اکٹھے نظر آتے تھے۔مجھے وہ دن یاد ہیں جب پنجاب اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں کسی میز پر ایک جماعت کے رہنماء ہوتے تو مخالف جماعت کے آنے والے رکن کو اُٹھ کر مدعو کر لیتے، کیفے ٹیریا قہقہوں سے گونجتا تھا، افسوس یہ ماحول ختم ہو گیا۔ اب تو ہر اجلاس شور شرابے سے شروع ہوتا اور اسی پر اختتام پذیر ہوتا ہے، حالانکہ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ماحول دشمنی سے محبت میں تبدیل ہو،ایوان والی کارروائی چلے تاکہ عوامی مسائل سامنے آ سکیں اور ان کا حل بھی ہو، ایسا نہ ہو کہ بیرونی دباؤ کے تحت آئی پی پیز پر توجہ مبذول کرائی جائے۔اگر قومی اسمبلی کی کارروائی سکون سے چل رہی ہوتی تو انتظامیہ کی طرف سے یا سرکاری بینچوں کی طرف سے پیش ہونے والی ہر کارروائی پر بحث ہوتی اور حل نکلتا ایسا ہوتا تو شاید آئی ایم ایف سے اتنا سخت معاہدہ بھی نہ کرنا پڑتا اور آئی پی پیز کی جو لوٹ سامنے آئی ہے یہ بہت پہلے نہ صرف ایوان میں زیر بحث ہوتی، بلکہ اس کا حل بھی ہوتا۔
بلاول بھٹو نے جو سیاسی عمل شروع کیا اور جو موقف اختیار کیا اس کی وجہ سے مجھے یہ تعریف کرنا پڑی ہے وہ کہتے ہیں سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے وہ تحریک انصاف کو بھی سیاسی عمل کے لئے کہتے اور اس کو بھی اعتماد میں لینے کی بات کرتے ہیں،وہ سیاست اور عمر میں بھی نوجوان ہیں، مولانا فضل الرحمن ہوں یا محمد شہباز شریف، وہ ان کے ساتھ بات کریں تو احترام سے کرتے ہیں اور اب تو انہوں نے محمد نواز شریف کی خدمت میں حاضری دے کر ان کی آشیر باد بھی لینے کی کوشش کی،ان کو کسی سے ملنے میں پریشانی نہیں ہوتی۔توقع کرنا چاہئے کہ یہ نوجوان جس عمل اور جذبے کا مظاہرہ کر رہا ہے اللہ یہ جذبہ سامنے آئے اور کامیاب ہو، کہ ضرورت یکجہتی اور قومی اتفاق رائے ہی کی ہے۔
٭٭٭٭٭