میں آنے والی نسل کو ڈیم کا تحفہ دوں گا ،ان شاء اللہ

پاکستان کی ابتدائی مشکلات کا جب بھی ذکر آتا ہے تو اس میں بابائے قوم کی وفات یقیناً ملکی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی 150 اس کا دیا یہ گھاؤ، یہ زخم ایسا کاری ہے کہ اس کا خلا آج تک بھی بھرا نہ جا سکا۔ آج ہمارے راستے تاریک ہیں اور ہمیں کسی جگنو کی تلاش ہے جو اس اداس بے یاروگار بلبل کو اس کے آشیانے تک لے جائے 150 رہبر کے لبادے میں رہزن اور تریاق میں لپٹے زہر نے آج ہمیں ان حالات میں پہنچا دیا ہے کہ میں رہبر کو بھی نہیں پہچانتا 150 مصائب و مشکلات کے سمندر میں لوٹنے والے قذاق تو بہت ملے لیکن پار لگا دینے والا ماجھی ابھی بھی دور، دور دکھائی نہیں دیتا ہے۔
ابھی دو نسل پہلے کی بات ہے ایسے ہی اندھیرے اور ان میں ایسے ہی گمشدہ راستے تھے 150 ایک مشعل جلی اور اس کی روشنی میں ہم نے راہیں ڈھونڈیں 150 منزلیں پائیں اور سر چھپانے کو چھت ، سکون کو گہوراہ ، بودوباش اور نمو پانے کو ایک چمن پایا 150 اس سرزمینِ پاکستان تک پہنچنے والوں نے کیا کیا قربانیاں نہ دیں 150 عزتیں، عصمتیں ، رشتے ، مال ، دولت اور جانیں اس راہ میں اس لئے کام آئیں کہ آنے والوں کا مستقبل سنور جائے۔ کشت و خون اور کٹے پھٹے انسانوں کے لاشے آج بھی تاریخ کے صفحات پہ میرے آبا کی قربانیوں کا مظہر بنے گواہی دے رہے ہیں کہ آنے والی نسلوں کے لئے انہوں نے کیسے خود کو غیرمحفوظ کیا اور اپنے خون سے ان کا مقدر لکھا مگر اس نسل کے بعد میں آنے والے اس امانت کو سنبھال نہ سکے 150 بابائے قوم پہ کیا کیا الزام نہ لگائے گئے اور ان کی بہن مادرِ ملت کے ساتھ کیا کیاسلوک روا نہ رکھا گیااس کا جواب تاریخ کو وہ خوددیں گے۔ مارشل لاء کے پودے کو کس کس نے اپنے ذاتی مفادات میں ملکی مفادات کو ایک طرف رکھ کے سینچا ،وہ بھی ان کے لئے سوالیہ نشان ہے لیکن جب میں خود کو دیکھتا ہوں تو اپنے دامن میں بھی ان کانٹوں کو ہی پاتا ہوں جو میں پاکستان کی راہوں میں بکھیر رہا ہوں جس پہ سفر کرتے سب کے پاؤں چھلنی ہیں۔ میری نسل ایک دوسرے سے دست و گریباں ہے اور شاید اپنے بچوں کے کل کو آج اپنی عداوت میں تج رہی ہے۔ ایک قوم کا تصور اور خواب ایک دفعہ پھر ٹوٹ رہا ہے۔ گھر کو سنوارنے کے لئے اگر اس کے بیٹے بیٹیاں حصہ ڈال رہے ہیں تو اس کو بھیک کا نام دیا جا رہا ہے 150
میں دیکھتا ہوں کہ جنگ تبوک کی مشکل گھڑی سامنے ہے ۔اسلام کے جواب میں کفار نے مقابلے کا چیلنج دے دیا ہے۔ سامان کی کمی کے پیشِ نظر میرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مال و اسباب جمع کرنے کا حکم دے دیا ہے کہ زادِ راہ اکٹھا ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ گھر کا آدھا سامان لے آئے ہیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ گھر میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام چھوڑ آئے ہیں۔ گھر واپس آکر خالی دیوار پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا ابا جان کیا ڈھونڈ رہے ہیں۔ آپؒ نے فرمایا اس دیوار پہ ایک سوئی ٹنگی ہوتی تھی اس کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ سوچتا ہوں اگر مل جائے تو مجاہدین کے پھٹے کپڑے سینے کے کام آئے گی 150
آج چندے پہ ملک چلانے کا طعنہ دینے والوں کے لئے اس میں کئی سبق ہیں۔ میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی مواقع آئے آپ نے ایثار اپنے رفقاء4 سے مانگا 150 مسجد نبوی ﷺکے ستون ان بھائیوں کی عظمتوں کو سلام بھیجتے ہیں جن کا نام معوذ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں 150 ان یتیموں نے اپنی زمین دی تھی اور پھر آپﷺ کے اصرار پہ اس کی رقم ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ نے ادا کی تھی 150 عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غنی ان کی سخاوت پہ میرے پیارے نبیﷺ نے کہا تھا۔ حضرت علیؓ نے اپنے کمزور و لاغر جسم کے ساتھ کہا تھا میں آپﷺ کا ساتھ دوں گا ۔پھر تلوار اٹھائی اور فاقے کاٹے 150 اسی باہمی ایثار کے جذبے اور چندے سے آپ ﷺنے اس قوم کی وہ بنیاد رکھی جس نے ریاستِ مدینہ کو چلایا بھی اور اس کا سکہ دنیا میں بٹھایا بھی 150
پاکستان کب اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے کہتا ہے کہ اس کو 2025ء تک آنے والی قحط سالی سے بچانے کے لئے چودہ سو ارب سارے کے سارے اپنے پاس سے ہی دو 150 یہ تو کل کا ثمرہے جس میں حصہ ڈال کے ہم ایک قوم کی طرح کبھی اس منصوبے پہ فخر کرسکیں گے۔ کہتے ہیں کہ جن گذرے دنوں کی مثالیں میں دیتا ہوں ان کا مقابلہ آج سے نہ کیا جائے تو میں یہ کہتا ہوں کہ میرے نبیﷺ میرے ہادی اورمیرے راہنما ہیں 150 ان کی زندگی اور اسوہ حسنہ میرے لئے ضابطہء حیات ہیں 150 اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تصور ریاستِ مدینہ ہی سے ابھرا تھا اور اپنے نبی ﷺکی تعلیمات پہ آزادانہ عمل کر نے کے لئے معرضِ وجود میں آنے والا ملک میرے نبی ﷺ کی زندگی ہی سے مثالیں ڈھونڈے گا۔ ہم وارث ہیں اپنے اسلاف کے ان اصولوں کے کہ جن پہ عمل ہی ہماری نجات ہے۔ کام تو ہمارے منتخب سیاست دانوں کا تھا لیکن اس کو زندہ کرنے کا سہرہ ہمارے محترم چیف جسٹس جناب ثاقب نثارصاحب کو جاتا ہے۔ مجھے کسی سیاسی وابستگی یہ سب لکھنے پہ مجبور نہیں کرتی مجھے تو اپنے بچوں کو روشنی اور پانی دینا ہے 150 مجھے وہ اسباب ڈھونڈنے ہیں کہ میرا بچہ سرسبز روشن پاکستان میں کھڑا مجھ سے وہ سوال نہ کرے جو میں کچھ دیر پہلے اپنے سے پہلی نسل کے نمائندوں پہ اٹھا رہا تھا۔ میری اگلی نسل قحط سالی اور پانی کی اس بوند بوند کو نہ ترسے جسے میں نے بے دریغ بہایا ہے 150 میں نے اس پانی سے بہرہ ور ہونے کی بجائے سیلاب کی صورت اپنی املاک کو تباہ کیا اور اپنوں کو گنوایا ہے۔ کل تک ڈیم کی بات پہ بر انگیختہ ہونے والوں کے لئے بھی اس میں پیغام ہے کہ پاکستان بدل چکا ہے 150 پاکستان کی کمر پہ برسنے والے کوڑوں نے گو اس سے سوچ چھین لی تھی اور اس کو ادھ موا کردیا تھا لیکن ایک دفعہ پھر ایک پکار پہ اس کے بدن میں ایک جنبش ہے اور وہ یہ سب کر دکھائے گی جو اسے آنے والی نسلوں کے سامنے سر جھکانے پہ مجبور نہ کرے گی۔ میں آج اگر پیٹ کاٹوں گا تو کل کے پیٹ پالوں گا اور انشاء اللہ میں اپنی آنے والی نسلوں کو ایک خوشحالی تحفے میں دوں گا ۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔