کیا سیاستدان بھول گئے کہ ماہِ مبارک ربیع الاول ہے؟
گذشتہ تین چار روز سے اِس ملک کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا گیا ہے اور اب تحریک انصاف اور برسر اقتدار طبقات کی لڑائی اور تیز ہو گئی ہے اور اس کو تیز کرانے والے بھی مزے میں ہیں اور وہ صرف پیارے ہی نہیں، راج دُلارے ہو گئے ہیں،یہ بتانے کے لئے ہمارے سینیٹر فیصل واوڈا ہی کافی ہیں،محاذ آرائی پہلے ہی سے جاری تھی، آٹھ ستمبر کے جلسہ نے اس پر تیل چھڑک دیا ہے اور اب تو چُھو ہو گئی اور یہ پکی بھی ہے کہ کہہ دیا،مرشد نے اب بات نہیں ہو گی اگرچہ اس ناں میں ایک ہاں بھی ہے جو یہ کہ مقتدر حضرات سے بات ہو رہی تھی جسے برسر اقتدار لوگ منت ترلا قرار دے رہے تھے اِس نئے سلسلے نے ہمارے الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہرحال رونق لگا دی ہے اور تب سے اب تک خبروں اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔
اِس پہلو پر بات جاری رکھنے سے قبل میری سوچ کا دائرہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف چلا گیا کہ پاکستان نہ صرف جمہوری،بلکہ اسلامی ملک بھی ہے اور آئینی طور پر یہ اسلامی ملک ہے تو اسلام اللہ کا دین ہے جسے اللہ نے اپنے پیارے محبوب حضرت محمدؐ کے ذریعے ہم تک پہنچایا اور وہ ذات پاک ہے جس کی حرمت پر ہم مر مٹنے کو تیار ہیں۔ یہ حسن ِ اتفاق ہے کہ یہ مہینہ ربیع الاول مبارک ہے اسی مبارک مہینے میں حضورؐ دنیا میں تشریف لائے اور مسلمانانِ پاکستان سالہا سال کی طرح اِس بار بھی جشن ِ میلاد کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ معاف کیجئے، کہیں مسلمانانِ پاکستان میں سب کو نہ شامل کر لیجئے۔یہ محبت تو دیوانوں کو ہے اور ہر سال یہی دیوانے نعرہئ رسالتؐ لگاتے اور پھر اس بار تو ہماری تمام دینی جماعتیں بھی طمانیت کا اظہار کر رہی ہیں،انہوں نے7ستمبر کو یوم ختم نبوتؐ کی50ویں سالگرہ منائی کہ50 سال قبل اسی قومی اسمبلی نے جو آج میدانِ کار زار کا منظر پیش کر رہی ہے منکرین نبوت کو کافر قرار دیا اور امتناع قادیانیت ایکٹ منظور ہوا جس کے مطابق یہ خاتم النبینؐ نہ ماننے کی پاداش میں اقلیت قرار پائے۔اب اگر غور کیا جائے تو ان متحارب سیاسی جماعتوں کے مناقشے کی وجہ سے جشن ِ میلاد کی خوشیاں نظر سے اُوجھل ہیں، کہاں وہ قومی اسمبلی اور کہاں یہ آج کا ایوان۔یہ فرق تو ظاہر ہو گیا ہے،ہمارے نبیؐ نے انسانیت کا درس دیا، قرآن کی آیات کو کھول کھول کر بیان کیا اور آخرت کے اسباب کی تلقین کی۔ہمارے لئے اپنے کسی مسلمان بھائی کا نقصان تو ممنوع ہے ہی، اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہدایت ہے کہ کسی بھی انسان کو تنگ کیا جائے نہ ستایا جائے۔یوں آپؐ محسن ِ انسانیت کہلاتے ہیں اور ان کا تمام تر درس ہی یہی ہے،لیکن ہم کیا کر رہے ہیں۔اس وقت بھی ٹیلی ویژن پر کوئی محفل نہیں،کوئی تلقین اور دین کی بات نہیں،قومی اسمبلی میں الزام جواب الزام کا سلسلہ جاری ہے۔
تحریک انصاف کے جلسے اور انتظامیہ کے سلوک اور عمل پر مسلسل بات ہو رہی ہے اور سب حضرات اپنے اپنے موقف کی بات کر رہے ہیں،کوئی حقائق کی بات نہیں کرتا کہ جلسہ ہونے دیا جاتا،رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں تو کیا ہوتا،جلسہ ہوتا اس روز کی طرح دیر تک چلتا، تقریریں ہوتیں اور بات ختم ہو جاتی۔اب اس پر بھی غور کریں کہ اگر انتظامیہ نے اجازت دینے میں تاخیر کے علاوہ شرائط عائد کیں تو تحریک انصاف نے کیا کم کِیا۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے پہلے ہی اعلان کر دیا کہ وہ پورے سازو سامان کے ساتھ لاکھوں کارکنوں کو لے کر اسلام آباد جائیں گے اور انہوں نے ایسا کر بھی دکھایا کہ صوابی انٹر چینج پر لوگوں کو جمع کر کے موٹروے پر مارچ کیا اور اچھی خاصی تاخیر سے جلسہ گاہ پہنچے،صرف یہی نہیں، ان کے قافلہ والوں کا جلسہ گاہ کے باہر پولیس سے تصادم بھی ہو گیا،پتھر پھینکے گئے تو آنسو گیس نے بھی ماحولیات کو مزید خراب کیا،اور یہ تصادم بعد کے ماحول کو بھی خراب کرنے کا باعث بنا اور پھر امین گنڈا پور نے جو تقریر کی وہ واقعی قابل ِ مذمت تھی، یہ تقریر توہین اور مقابلے کے چیلنج پر مشتمل تھی۔یوں انہوں نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی،صحافتی تنظیموں کو بھی احتجاج پر اُکسایا اور اُس کی طرف سے احتجاج ہوا اور معذرت بھی کرنا پڑی۔
اب ذرا جلسے کے بعد کے واقعات اور اثرات پر غور کریں،جب انتظامیہ نے اپنا کام شروع کر دیا اور پھر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نے تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کو اپنی تحویل میں لینا شروع کر دیا اور یہاں احتجاج بھی ہوا،اب اتحادی جماعتوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر احتجاج کیا اور گرفتاریوں کی مذمت کی کہ ایوان کے اندر سے گرفتاریاں قابل ِ مذمت ٹھہریں۔ بتایا گیا ہے کہ گرفتاریاں رات کے پچھلے پہر ہوئیں اور اِس وقت تک یہ حضرات اپوزیشن روم میں بیٹھے تھے، باہر نہیں گئے کہ گرفتار ہو جائیں گے،حالانکہ سیشن کب کا ختم ہو چکا اور محافظین کے سوا باقی تمام عملہ بھی گھروں کو سدھار چکا تھا۔ یہ اراکین اسمبلی موجود تھے اب رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ اس قت تک وہاں کیا کر رہے تھے کہ نہ تو سیشن اور نہ ہی کسی کمیٹی کا اجلاس تھا۔ یہ سوال جواب ان کی اسمبلی ہال کے اندر موجودگی کے حوالے سے کئے جا رہے ہیں جبکہ سپیکر نے اراکین کے احتجاج پر اقدامات کا اعلان کر دیا ہے تاہم جو حضرات گرفتار ہوئے یا بعد میں اسمبلی میں آئے انہوں نے سارا وقت اسی موضوع پر بات کرتے گذار دیا اور اب طرفین کی طرف سے کچھ سے کچھ کہا جا رہا ہے۔
اس عرصہ میں جناب علی امین گنڈا پور نے بہت شہرت حاصل کی وہ جلسہ کے بعد سات آٹھ گھنٹے غائب رہے اور ان سے کسی کا رابطہ بھی نہ ہوا،جماعت والوں نے گرفتاری”ڈال“ دی لیکن وہ خود پشاور پہنچ کر رونما ہو گئے،اب وہ خود تو کچھ نہیں کہتے جماعت کے بڑے بڑے ان کی صفائی دے رہے ہیں،فیصل واوڈا کچھ اور کہتے ہیں،تحریک انصاف والے مان گئے کہ وہ حکومتی نمائندوں اور سکیورٹی والوں کے ساتھ میٹنگ میں تھے۔
بات طویل ہو گئی مزید پھر بات ہو گی،استدعا پھر ہے کہ اس ماہ ِمقدس و مبارک ہی کا احترام کر لیں۔
کسانوں اور محنت کشوں کے رہنما سید قسور گردیزی مرحوم
ریاض احمد چودھری
مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے پسماندہ طبقوں کے خیر خواہ اورسیاسی وسماجی رہنما سید محمد قسورگردیزی 11 ستمبر1993کو جہان فانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ کرکے اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئے۔ ملتان کے ممتاز سیاسی رہنما روزنامہ پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز شائع کرنے والے ادارے پروگریسو پیپرز لمیٹڈکے ڈائریکٹر بھی رہے۔ قسور گردیزی پروگریسو پیپرز کے بانی میاں افتخار الدین مرحوم کے گہرے دوست تھے۔
سید محمد قسور گردیزی صاحب سے میری پہلی ملاقات روزنامہ تاجر ملتان میں منعقدہ تاسیسی اجلاس میں ہوئی۔ ملتان پہنچنے سے پہلے میری روزنامہ تاجر کے ایڈیٹر و پبلشر غلام محمد ملک سے بات چیت ہو چکی تھی۔ وہ لائل پور کے رہنے والے تھے اور ان سے میرے دوستانہ مراسم تھے۔انہوں نے مجھے بتا رکھا تھا کہ میں نے اخبار کے اجراکے سلسلے میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کر رکھا ہے جس میں ممتاز سیاسی رہنما سید محمد قسور گردیزی مہمان خصوصی ہوں گے۔آپ اس تقریب میں ضرور شرکت کریں۔ کمشنر ہاؤس سے فارغ ہو کر میں سدو حسام میں واقع ایک نئی تعمیر شدہ عمارت کی بالائی منزل میں روزنامہ تاجر کے دفتر پہنچا تویہاں غلام محمد صاحب نے مجھے شاہ صاحب سے متعارف کرایا۔ اس موقع پر سید محمد قسور گردیزی صاحب نے خطاب کے دوران مزدوروں، کسانوں اور دیگر پسماندہ لوگوں کے مسائل کا ذکر کیا۔مجھے ان کے خطاب نے بہت متاثرکیا۔چائے کی میز پر سید قسور گردیزی صاحب سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔یہ پچاس کی دہائی کا زمانہ تھا اور میں بھی لائل پور میں صحافت سے وابستہ ہو چکاتھا۔چونکہ غلام محمد صاحب میرا مفصل تعارف کراچکے تھے اس لئے شاہ صاحب نے فرمایا، میری لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتائیے۔ جب بھی ملتان آنا ہو میرے ہاں ضرور تشریف لایئے۔اس کے بعد سید قسور گردیزی صاحب سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
قسور گردیزی صاحب کے صاحب زادے زاہد حسین گردیزی کہتے ہیں 6 ستمبر 1965 کو سورج طلوع ہونے سے پہلے میں اپنے والد سید محمد قسور گردیزی اور والدہ کے ہمراہ لاہور جی او آر GOR میں واقع 21- ایکمن روڈ، پر میاں افتخارالدین کی کوٹھی میں خواب خرگوش میں تھا کہ اچانک پلنگ پر لیٹے ہوئے زلزلے کے سے جھٹکے محسوس ہوئے اور پھر وقفہ وقفہ سے کہیں بہت دور سے دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر کے سب مکین بیدار ہوگئے ہر فرد سمجھنے کی کوشش میں تھا کہ کیا ماجرا ہے۔ آوازیں گاہے گاہے ہلکی ھلکی دھمک کے ساتھ آتی رہیں اور پو پھوٹنے پر جب شہر لاہور کے مکینوں کے جاگنے کا وقت ہوا تو وہ آوازیں جو رات کی تاریکی میں قدرے نمایاں تھیں شہر کی چہل پہل میں دب گئیں۔
جناب زاہد گردیزی کہتے ہیں کہ مجھ سمیت باقی لوگ بھی بے خوف ہو کر دوبارہ غنودگی میں چلے گئے۔ صبح ساڑھے سات بجے جب میاں صاحب کا ملازم کمرے میں ناشتہ دینے آیا تو والدصاحب کو سلام کے بعد بغیر پوچھے بتانے لگا کہ شاہ صاحب، ابھی باغبان پورہ سے، (جہاں میاں افتخارالدین کا زرعی رقبہ تھا اور آم کے باغات بھی) میاں صاحب کا گوالہ گھر دودھ دینے آیا تو ملازموں کو بتا کر گیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کی سرحد پر واہگہ بارڈر سے حملہ کردیا ہے اور بھارتی ٹینک باٹا پور تک پہنچنے والے ہیں۔ اتنے میں ریڈیو پاکستان سے ایوب خان کی گرج دار تقریر“ میرے عزیز ہم وطنو‘ دشمن نے آج صبح پاکستانی قوم کو للکارا ھے۔۔۔“ نشر ہو گئی۔جلد ہی ایکمن روڈ کے حالات معمول پر آگئے اور ہمیں اس پر سکون گھر میں محسوس نہیں ہورہا تھا کہ پاکستان کی سرحد پر کچھ انہونی ہو رہی ہوگی۔ البتہ ریڈیو پر ملی نغموں کا آغاز ہوگیا اور خصوصی نیوز بلیٹن میں صورت حال اور ایوب خان کی تقریر کے حصے نشر ہوتے رہے۔ بارڈر پاکستان پر پاک فوج کی شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
6 ستمبرکو گھر والے عموماً والد صاحب کی سالگرہ غیر رسمی طور پر مناتے تھے اور ان کو مبارک باد دیتے تھے۔ یہ سلسلہ ہمارے بچپن سے جاری تھا۔ حسب معمول ناشتے کے بعد ہم تمام بچوں کی میاں صاحب کی بارہ کنال کی کوٹھی کے لانوں میں جھولوں پر کھیل کود شروع ہوئی تو اچانک دوپہر کے قریب لاہور کے آسمان پر جنگی جہازوں کی گڑگراہٹ نے چونکادیااور ہم خوف زدہ ہو گئے۔
زاہد گردیزی کہتے ہیں کہ 6 ستمبر1965 کا یہ تھوڑا سا منظر ان کے ذہن میں اب بھی نقش ہے جس میں اس دن کی مناسبت سے ہم قسور گردیزی کی سالگرہ مناتے تھے اور جب وہ اس روز بچوں اور گھروالوں کے درمیان ہوتے تھے تو وہ بھی اس گھریلو تقریب میں شامل ہوتے اور مسکراتے تھے۔ ان کی اکثر سالگرہ ہم ان کی غیر موجودگی میں مناتے کبھی ان کی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے اور کبھی ان کی جیل یاترا کے سبب۔
زاہد گردیزی کہتے ہیں کہ بالآخر 11ستمبر 1993 کو قسور گردیزی صاحب اس جہان فانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ کر گئے اور انسانی اذیتوں، جیلوں، منافقتوں کی دنیا سے آزاد ہو کر خالق حقیقی کی پناہ میں چلے گئے۔
قسور گردیزی اپنی زندگی میں پاکستان کی شاہراہوں، عمارتوں، ترقیاتی منصوبوں پر اپنے نام کی تختیاں تو نہ لگوا سکے لیکن غریب اور پسماندہ عوام، فیکٹریوں اور کھیت مزدوروں اور محنت کشوں کے دلوں پر محبت کی مہر ثبت کر گئے جن کی بھلائی کیلئے انہوں نے اپنی زندگی میں جدوجہد کی اور مصائب برداشت کیے۔
سید قسور گردیزی کا یوم پیدائش 6ستمبر کو یوم دفاع پاکستان کے نام سے منسوب کروا دیا اور ان کی وفات 11 ستمبر کو ہوئی جو قائد اعظم محمد علی جناح کے وصال کا دن بھی ہے۔ نمایاں کردا ریا تمام ترقی پسند پاکستانیوں کسانوں محنت کشوں کیلئے قسور گردیزی کی یاد منانے کیلئے پاکستان کی تاریخ میں 6 اور 11 ستمبر کو ریڈ لیٹر ڈے Red Letter Dayبنا دیا ہے۔
قسور گردیزی یہ کہتے ہوئے دنیا سے 11ستمبر 1993 کو رخصت ہوئے۔
ہر دور کا سقراط یہاں زہر بلب ہے
شاید یہی انسان کی عظمت کا سبب ہے
عیسٰی ہوئے ہر عہد میں مصلوبِ محبت
محبوب مسیحا ہے کہ مغلوب ِغضب ہے
تہذیب کا ہرشہر جلاتے رہے وحشی
نیرو ہے کے بدمست ہے اور محوِ طرب ہے
فرعون کو ہے اپنی خدائی کا تکبر
موسیٰ ہے کہ وہ غیب سے امداد طلب ہے
دربار ِیزیدی کے مناظر بھی وہی ہیں
اک سمت وہی قافلہ ء جان بلب ہے
حنبل ہے، گلیلوہے ہرنو یا فیوچک
اک سلسلہ رنج و رسن ایک ہی ڈھب ہے
منصور حسین ابن علی ہوں یا حنیفہ
اس سرمدی عشاق کا سردار لقب ہے
صدیوں سے تری بزم کو اک رزم ہے درپیش
کوئی بھی نہیں ہارتا یہ بات عجب ہے
طاقت کو کریں سجدہ یا پھر سچ کا بھریں دم
تا حال یہ نقطہ بھی تو تفصیل طلب ہے،
ہم اپنے مقدر کی شکایت نہیں کرتے
اپنے لیے ہر گام پہ اک حد ِادب ہے
ہر دور میں بالجبر کہا جاتا ہے غدار
قسور کبھی مجبور نہ پہلے تھا نہ اب ہے
دیہی معاشرہ
اے خالق سرگانہ
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اس لئے زیادہ آبادی دیہات میں قیام پذیر ہے کچھ عرصے سے کئی فیکٹرز کی وجہ سے آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی میں بہت تیزی آئی ہے لیکن اب بھی ورلڈ بینک کے مطابق 2023 ء میں تقریباً 62 فیصد لوگ دیہات میں آباد تھے۔ دیہات میں زراعت ہی ایک ایسا شعبہ ہے جس سے سب لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جیسا کہ ہر معاشرے کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں اسی طرح دیہی معاشرے کی بھی کچھ خصوصیات ہیں۔ تین چیزیں دیہی معاشرے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں وہ ہیں زمین،بیٹا اور دودھ، شاید میرے اس خیال سے کچھ شہری لوگوں اور دانشوروں کو حیرانی ہو لیکن حقیقت یہی ہے تھوڑی بہت تبدیلی تو زندگی کے سارے شعبوں میں نامعلوم طریقے سے آتی رہتی ہے۔ زمین وہاں کے باشندوں کیلئے روزگار تو ہے ہی مقام اور مرتبے کی بھی بنیاد ہے۔ جس کی جتنی زیادہ زمین ہے اتنا بڑا زمیندار ہے اور معاشرے میں اُس کا اتنا ہی مقام ہے۔ جیسے سرکاری ملازم کا مقام گریڈ سے متعین ہوتا ہے ویسے تو گریڈ ایک سے 22 تک انسان سرکاری ملازم ہی ہوتا ہے اِسی طرح دیہات میں خواہ کسی کی ملکیت 10 ایکڑ ہو یا 5 مربعہ وہ زمیندار ہی کہلاتا ہے البتہ اگر زمین سو ڈیڑھ سو مریع ہے تو پھر وہ لینڈ لارڈ کہلاتا ہے۔ اب قانون کے مطابق تو کسی کی زمین ایک حد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ قیام پاکستان کے بعد جائیداد کئی نسلوں میں تقسیم ہو چکی ہے کم از کم دو دفعہ تو زرعی اصلاحات بھی ہو چکی ہیں تاہم ہر شعبے کی طرح دیہات میں سرکاری اعداد و شمار اور حقیقت میں فرق ہے کہا جاتا ہے کہ دیہات میں باہمی جھگڑوں اور قتل کے واقعات کا تعلق بھی زر، زن اور زمین سے ہوتا ہے۔
دوسری اہم حقیقت بیٹا ہے۔ اس کا بھی تعلق بڑی حد تک زمین سے ہے بیٹا خاندان کو آگے لیکر چلتا ہے لہٰذا باپ کی زمین کا وارث وہی ہے بیٹا نہ ہو تو زمین بیٹیوں کی شادی کے ذریعے غیروں میں تقسیم ہو جائے گی۔ ظاہر ہے یہ بات قابل قبول نہیں ہو سکتی لہٰذا بعض لوگوں کو بیٹے کی پیدائش کے لئے بڑا انتظار کرنا پڑتا ہے مثلاً کسی کو بیٹا پانچ بیٹیوں کے بعد ملے گا۔ ورنہ دوسری صورت میں لوگوں کو بیٹے کی تلاش میں دوسری شادی بھی کرنی پڑتی ہے۔ آبادی میں بیٹا اضافے میں یہ فیکٹر بھی شامل ہے۔قدرت کا سب سے بڑا تحفہ سمجھا جاتا ہے خواہ وہ نالائق ہو پاگل ہو یا نکما ہو۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو فرمایا تھا کہ بیٹی کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور جائیداد میں اُس کا حصہ رکھا گیا لیکن ہمیں اِس کی کوئی پرواہ نہیں ہماری اپنی ترجیحات ہیں۔
تیسری اہم چیز دودھ ہے۔ دودھ کو اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں میں بہترین سمجھا جاتا ہے۔ دیہات میں کھانے پینے کی ہر چیز کی بنیاد دودھ ہی ہے۔ دودھ سے لسی، دہی، مکھن اور گھی حاصل ہوتا ہے لہٰذا اور کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی چونکہ میرا تعلق بھی دیہات سے ہے مجھے خواب کی طرح یاد آتا ہے کہ گھروں کے دروازوں پر خیرات مانگنے والے لوگ جو دعائیں دیتے تھے اُن میں سے پہلا جملہ یہی ہوتا تھا ”کہ دودھ پتر دی خیر“ یعنی دودھ اور بیٹے کی خیر، یہاں دودھ بیٹے سے بھی پہلے آتا تھا کیونکہ دودھ خوراک کے علاوہ دیہی زندگی کی معیشت بھی ہے۔
مجھے یاد ہے میرے بچپن کے زمانے میں لاہور جیسے شہروں میں بھی بڑے بڑے افسروں کی سرکاری رہائش گاہوں میں ایک بھینس ضرور ہوتی تھی۔اسلام آباد میں تو مویشی رکھنے کی قانونی ممانعت کر دی گئی ورنہ یہاں بھی کہیں نہ کہیں یہ منظر آج بھی نظر آ جاتا۔ دیہات میں پرانے زمانے میں بڑے زمیندار اپنی بیٹی کی شادی پر جہیز میں ایک بھینس اور ایک نوکرانی بھی دیا کرتے تھے۔ ویسے اب بھی جیولن تھرو والے ارشد ندیم کو اُس کے سسر نے تحفے میں ایک بھینس دی ہے۔
دیہی کلچر کی جڑیں بڑی گہری ہوتی ہیں اس لئے بہت سارے لوگ پڑھ لکھ کر حتیٰ کہ افسر بن کر بھی اُس کلچر سے پوری طرح جان نہیں چُھڑا پاتے۔ اُن کے لباس، خوراک اور Manners سے دیہی روایات کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر دیہات سے تعلق کے باوجود اِس کلچر سے کافی دور ہوں نہ وہ کھانے میری خوراک کا حصہ ہیں نہ وہ لباس میری پہچان ہے پتہ نہیں یہ کس طرح ہوا کیونکہ میرے گاؤں یا علاقے میں میرے لئے کوئی رول ماڈل بھی نہیں تھا۔
دیہات میں ہر بیس پچیس میل کے بعد کوئی نہ کوئی مزار ہوتا ہے میرے آبائی گاؤں نواب بھوتی اور اروتی کو جڑواں گاؤں کہا جا سکتا ہے کیونکہ درمیان میں صرف ایک سڑک گزرتی ہے۔اروتی میں میاں رحماں کے نام سے ایک بزرگ کا مزار ہے اور اُن کا سالانہ عرس وہاں کے لوگوں کے لئے تفریح کا ایک بڑا ذریعہ تھا اب شاید نہیں۔ عرس پر بازار تو لگتا ہی تھا ایک تھیٹر کئی دن تک سب سے بڑی تفریح ہوتی تھی۔ یہ تھیٹر رات کو شروع ہوتا تھا اور ختم ہونے تک صبح ہو جاتی تھی۔ اس کے علاوہ اِکا دُکا بندر کا تماشا لگایا جاتا تھا اور کئی دفعہ سانپوں والے گھنٹوں اپنے کمالات کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔کھیل بھی دیہات میں کافی مقبول تھے۔ کبڈی، کُشتی کے علاوہ والی بال اور فٹ بال بھی اچھی تفریح کا ایک ذریعہ تھے۔
وقت کے ساتھ دنیا بدل رہی ہے اس لئے اب دیہی زندگی میں بھی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ دیہات میں سڑک پہنچ گئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ تہذیب بھی سڑک پر ٹریول کرتی ہے یعنی تہذیب و تمدن کی ترقی کا تعلق بھی سڑک سے ہے اور موبائل فون بھی عام ہو گیا، تعلیم بھی کافی پھیل رہی ہے ایک زمانے تک دیہات میں زمینداروں کے بچے عام طور پر میڑک یا ایف اے کر لیتے تھے۔ بڑے لینڈلارڈز کی اولاد ایچی سن تک محدود ہوتی تھی۔ دیہاتوں میں اگر کسی لڑکے سے کوئی پوچھتا کہ آپ نے بی اے ایم اے کیوں نہیں کیا تو وہ کہتا کہ میں نے کونسی نوکری کرنی ہے گویا تعلیم کو صرف ملازمت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور وہ زمین کی وجہ سے وہ اُس کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے لیکن اب زمینداروں کے بچے ملازمت بھی کر رہے ہیں حتیٰ کہ غیرملکوں سے پڑھ کر آ رہے ہیں اور بزنس بھی کر رہے ہیں۔ ایک زمانے تک دیہات میں بزنس کو ہندوؤں تک محدود سمجھا جاتا ہے اب تو میرے آبائی گاؤں نواب بھوتی میں میرے ایک برخوردار شاہد زیب کا پیزا ریسٹورنٹ بہت ہٹ ہو رہا ہے۔
قانون کی حکمرانی
محسن گواریہ
کسی معاشرے میں جب آئین اور قانون کی بجائے حکم حاکم ہی حرف آخر ٹھہرے تو پھر وہاں کیسی پارلیمنٹ،کیسا مشورہ اور کونسا انصاف باقی رہ جاتا ہے،انصاف تو ہمیں ویسے بھی پسند نہیں اس کا تو ذکر ہی نہ کریں، کسی معاشرے کے متمدن اور مہذب ہونے کا اندازہ موجودہ دور میں اس کی ٹریفک اور پولیس سسٹم کو دیکھ کر بھی کیا جا سکتا ہے،جس ملک میں ٹریفک قوانین کا زیادہ احترام ہو گا وہ تمدن کا گہوارہ ہوگا،ایسے ہی کسی بھی ملک میں امن و امان کی صورتحال اس ملک کے پر امن ہونے کا ثبوت ہو گا،جہاں جرائم کی شرح کم ہو گی وہ معاشرہ بد امنی اور لا قانونیت سے عاری ہو گا۔معاشرے میں امن کی پہلی آخری اور واحد شرط قانون کی حکمرانی،قوانین کی پاسداری اور احترام ہے اور یہ یکطرفہ عمل نہیں بلکہ جیسے شہری قانون پر عملدرآمد کے پابند ہیں ایسے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسر و اہلکار بھی قانون پر عملدرآمد کے پابند ہیں،جہاں فریقین میں اونچ نیچ یا امتیاز کا عنصر شامل ہواء قانون کی روح مسخ ہو جاتی ہے،آج مہذب دنیا کے جن ممالک میں امن کا راج ہے ہر شہری کی جان مال آبرو اور بنیادی انسانی حقوق اعلیٰ ہیں تو اس کے پس پردہ یہی آفاقی حقیقت کارفرما ہے۔
قانون کی حکمرانی کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کو اولیت حاصل ہے اور اس کی وجہ سخت ترین نگرانی کا عمل ہے،اس مملکت کا شائد ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں نگرانی کیلئے خفیہ کیمرے نصب نہ ہوں،اماراتی پولیس ان خفیہ کیمروں کی مدد سے جرم کے کچھ ہی بعد مجرم کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کے قابل ہو جاتی ہے،دوسری اہم چیز قوانین پر بلا امتیاز عملدرآمد ہے،کوئی کتنا ہی اہم،دولت مند یا کسی بڑے عہدے پر فائز ہو قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا،نتیجے میں امارات ایک پر امن،انصاف کی فراوانی والا ملک گردانا جاتا ہے،تا ہم یو اے ای چھوٹا سا ملک ہے جس کے پاس لا محدود وسائل ہیں،اس لئے یہاں امن و امان کا قیام چنداں مشکل کام نہیں۔
کینیڈا رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے،رقبے کے لحاظ سے اس کی آبادی کم ہے، شہروں اور قصبات میں سینکڑوں کلو میٹرز کی دوری ہے،وسائل بہت ہیں مگر لا محدود نہیں،یہاں شخصی نہیں جمہوری نظام رائج ہے مگر اس کے باوجود معلوم دنیا کے ممالک میں کینیڈا کو قوانین کی عملداری کے حوالے سے انتہائی خصوصی اہمیت حاصل ہے،وجہ وہی جو اوپر بیان کی گئی،قانون کی نظر میں یہاں ہر شہری کو برابر کا درجہ،مساوی انسانی حقوق حاصل ہیں،استحقاق کی بنیاد پر سب کو تعلیم صحت اور زندگی کی دیگر آسائشات فراوانی سے دستیاب ہیں،کوئی سرکاری عہدیدار، سیاستدان یہاں تک کہ پولیس افسر بھی اس سے بالا تر نہیں،قانون کی یہی بالا دستی کینیڈا کو دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہے۔
معاشرتی ترقی کیلئے فوری انصاف ایک اہم ضرورت ہے اور کینیڈا میں ہر شہری خواہ وہ مقامی ہو یا تارک وطن،سفید فام ہو یا سیاہ فام انصاف سب کیلئے ہے،فوری اور ایسا کہ انصاف دکھائی بھی دے،شہریوں کو حکومتی سطح پر حقوق سے آگہی دینے کے پروگرام ہوتے ہیں،تحفظ حاصل کرنے انصاف لینے کے علاوہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں اور وہ کیسے ان حقوق کو حاصل کر سکتے ہیں،کینیڈین معاشرے کا خوبصورت ترین پہلو خود احتسابی اور محکمانہ احتساب ہے،اس کی وجہ سے انفرادی جرائم،قواعد سے چشم پوشی،ملازمتی فرائض سے کوتاہی کی شکایات بہت بلکہ انتہائی کم ہیں۔کینیڈین پولیسنگ سسٹم دنیا کا جدید ترین نظام ہے،اس نظام میں کسی بھی شخص کو تب تک مجرم نہیں گردانا جاتا جب تک عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے،ملزم سے مجرموں والا سلوک بھی نہیں کیا جاتا،بلا وجہ لاک اپ میں بھی بند نہیں کیا جاتا،جس ملزم کے بارے میں تفتیش میں تعاون نہ کرنے کی شکائت ہو اسے عدالت کی اجازت سے حوالات میں رکھا جاتا ہے مگر اسے بھی شخصی ضمانت کی سہولت دی جاتی ہے مگر شخصی یا عدالتی ضمانت پر کسی ملزم کی رہائی کے بعد بھی پولیس اس کی نگرانی سے غفلت نہیں برتتی،ملزم کو ملزم اور مجرم کو مجرم سمجھ کر اس سے تفتیش کی جاتی ہے،تھانے عقوبت خانے نہیں،جیسے شہریوں کے حقوق ہیں ویسے ہی ملزموں اور مجرموں کے بھی حقوق ہیں،صرف عدالتیں ہی نہیں سماجی تنظیمیں بھی ان حقوق کی نگہداشت کرتی ہیں،جس بناء پر پولیس کلچر کی بیخ کنی ہوئی اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔
مہذب دنیا نے یہ آفاقی حقیقت بھی تسلیم کر لی ہے کہ جس معاشرہ میں انصاف کی فراوانی ہو وہاں شہریوں کے حقوق کو غصب نہیں کیا جا سکتا،کینیڈین معاشرہ میں ہر سطح پر، زندگی کے ہر شعبہ میں انصاف عام فوری اور سستا ہے،ہر ادارہ اپنے فرائض سے آگاہ ہے اور حقوق و فرائض میں تواز ن برقرار رکھنے کی دانستہ کوشش بروئے کار لاتا ہے،تھانے سے متعلقہ کیس عدالت میں دائر نہیں کیا جاسکتا اور عدالت سے متعلقہ معاملہ تھانے میں نہیں لایا جا سکتا،ایسا ہو تو اختیارات سے تجاوز سمجھا جاتا ہے لہٰذا ابتدا ء میں ہی ایسی درخواستیں رد کر دی جاتی ہیں،ہر ادارہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری نبھاتا ہے اور فرض جان کر،سرکاری ملازمین کی تربیت کا ایک خود کار نظام ہے مگر فیڈرل،پراونشل اور مقامی پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کی تربیت کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے ایسے ہی عدالتی عملے کی بھی خصوصی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے،اس کے بعد اگر کوئی کسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو سخت سزا کا بھی منظم نظام ہے۔اس سسٹم میں سرکاری عمال کی طرف سے قوانین سے تجاوز کے راستے بند ہو جاتے ہیں،رائل کینیڈین پولیس نیشنل پولیس کہلاتی ہے،اس کی عملداری اونٹاریو اور کیوبک کے سوا باقی آٹھ صوبوں میں ہے،وفاقی سطح کے جرائم کی تفتیش،بارڈر پولیس کو خفیہ اطلاعات کی فراہمی،اہم شخصیات کی سکیورٹی بھی اس کی ذمہ داری ہے،اپنے دائرہ اختیار میں پولیس نظام کا کنٹرول اور ریاستوں کے مابین الجھنوں کو سلجھانا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے،دلچسپ بات یہ کہ اس کے باقاعدہ اہلکاروں کی تعداد صرف17ہزار ہے انہیں تین ہزار سول افراد اور پانچ ہزار پبلک سروس ملازمین کی مدد بھی حاصل ہے، اس مختصر تعداد کے باوجود کینیڈا میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش ہے۔
کینیڈا میں جرائم کی بیخ کنی کیلئے عدالتی نظام چار مختلف بنیادوں پر قائم ہے،اہم ترین اور دلچسپ بات یہ کہ پولیس کے محکمہ میں حکمران طبقہ کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں،کوئی وزیر،رکن اسمبلی،سیاستدان کسی کی گرفتاری یا رہائی کے معاملہ میں حکم نہیں دے سکتا،نہ پولیس حکام ان کے احکامات تسلیم کرنے کے پابند ہیں،ملزم پر تھرڈ درجہ تشدد تو دور کی بات یہاں ملزم پر تشدد بھی جرم سمجھا جاتا ہے، پولیس کی یہی خود مختاری اس محکمہ کو امتیازی بناتی ہے،ایسی خوبصورتی جس میں انصاف بھی ہے، انسانی حقوق کا احترام بھی اور یہی قانون کی حکمرانی ہے۔
خود داری میراث ہے خیرات نہیں
نسیم شاہد
میں اور ہم زلف ناصر خان لاہور کے لئے نکلے تو ملتان ڈائیوو کے اڈے سے کچھ پہلے ایک بوڑھا ضعیف شخص ہمیں نظر آیا۔ اس نے ہاتھوں میں پاپ کارن کے پیکٹ اٹھا رکھے تھے۔ کچھ پیکٹ اس کی لاٹھی کے ساتھ بندھے ہوئے تھے جو اس نے پکڑی ہوئی تھی۔ وہ دس دس روپے کے پاپ کارن پیکٹ بیچ رہا تھا۔ ناصر خان نے اس سے دو پیکٹ خریدے اور بیس روپے دیئے جو اس نے خوشدلی سے رکھ لئے۔ اس کے بعد میں نے ناصر خان کو اشارہ کیا کہ اس کی مدد کرنی چاہیے۔ ناصر خان نے جیب سے بٹوہ نکالا او راس بوڑھے شخص کو پانچ سو روپے کا نوٹ نکال کر دیا۔ وہ سمجھا شاید ہم مزید پیکٹ لینا چاہتے ہیں، کہنے لگا میرے پاس پانچ سو روپے کا کھلا نہیں، میں نے کہا بابا جی یہ ہم آپ کو ویسے ہی دے رہے ہیں، پیکٹ نہیں لینے۔ یہ سن کر اس نے خفیف ناک نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ ”ویسے سے آپ کی کیا مراد ہے؟“ سوال سن کر میں اور ناصرخان سٹپٹا گئے ”کچھ نہیں“۔ میں نے کہا بس آپ یہ پیسے رکھ لیں ہماری خوشی کی خاطر۔ ”آپ میری مدد کررہے ہیں؟“ ہم نے کچھ نہیں کہا بس آنکھوں ہی آنکھوں میں جواب دیا۔ اس بوڑھے شخص نے کہا میں نے بھیک مانگنی ہوتی تو یہ پیکٹ نہ بیچتا۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو ایسی اشیاء بیچنے کی آڑ میں گداگری کرتے ہیں“ ہم بہت لاجواب بلکہ شرمندہ ہوئے اُدھر بس کا ٹائم بھی ہو رہا تھا۔ ہم نے آخری بار کوشش کی وہ بوڑھا شخص ہماری بات مان کے پانچ سو روپے رکھ لے، لیکن وہ ناراضی کی حد تک انکار پر اتر آیا تو ہم اڈے کی طرف بڑھ گئے۔ بس میں دوران سفر ہم اس کے بارے میں سوچتے رہے۔ یہ مفلوک الحال بوڑھا اس قدر انا پرست اور خوددار کیسے ہو گیا؟ یہ تو بہت مجبور اور غریب نظر آ رہا تھا۔ یقینا گھر میں فاقے ہوں گے جن کی وجہ سے اسے اس عمر اور حالت میں یہ کام کرنا پڑا۔ لاہور پہنچے تو ڈائیوو اڈے سے نکل کر باہر آئے جہاں عاطف کمال ہمارے منتظر تھے۔ جونہی ہم گاڑی کی طرف بڑھنے لگے تو ایک اچھا خاصا تنومند نوجوان ہماری طرف بڑھا۔ اس نے ہاتھ میں ازاربند، مسواک کا بنڈل اور تسبیح کے گچھے اٹھا رکھے تھے۔ اس نے کہا بابو جی کوئی چیز خرید لیں، گھر میں آٹا نہیں بہن بھائی بھوکے ہیں، ہمیں ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی جب میں نے یہی بات اس سے کہی تو اس نے کہا پھر کچھ مدد ہی کر دیں۔ آپ کو دعائیں دوں گا۔ میں اور ناصر خان ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے۔ ایک طرف وہ بوڑھا شخص ہماری نظروں میں گھومنے لگا جو پاپ کورن کا پیکٹ بیچ رہا تھا۔ اس نے بیس روپے رکھ لئے تھے، مگر پانچ سو روپے خیرات میں لینے سے انکار کر دیا تھا۔حالانکہ اس کے گھر میں غربت شاید اس تنومند نوجوان سے زیادہ ہو۔ دوسری طرف یہ نوجوان تھا جس نے منہ سے امداد مانگنے کی فریاد کر دی۔ یہ مناظر دیکھنے کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہو گئے کہ خودداری ایک عادت ہے، اس کا تعلق حالات سے نہیں۔ جو لوگ اپنی مجبوری کے ہاتھوں اپنی خود داری بیچ دیتے ہیں، پھر انہیں اس کی عادت پڑ جاتی ہے، مانگنے والا ہاتھ اگر ایک بار پھیل جائے تو پھر دینے والے ہاتھ میں تبدیل نہیں ہوتا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ میرے برادر اِن لاء محمد علی نے مجھے سنایا۔اگرچہ اس کی نوعیت کچھ اور تھی تاہم معاملہ خودی اور خودداری کا ہی تھا۔ انہوں نے بتایا ان کا ایک شاگردسرکاری دفتر میں ملازم ہے۔ تنخواہ زیادہ نہیں گھر میں بھی بوڑھے والدین کا ساتھ ہے جن میں ایک کینسر میں بھی مبتلا ہیں۔ ملازمت ایسی ہے کہ جیسے پیسے بنانے کی مشین ہوتی ہے۔ محمد علی بتاتے ہیں کہ ایک دن وہ ان کے پاس آیا اور کہا کہیں سے قرض دلوا دیں۔ وہ اپنی بیوی کا جو تھوڑا بہت زیور ہے اسے گروی رکھ سکتے ہیں۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا والد کے کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے۔ مہنگے ٹیکے لگ رہے ہیں ڈاکٹروں کا کہنا ہے چار ٹیکے مزید لگانے پڑیں گے پھر ان کی کیموتھراپی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ اس پر محمد علی کو اپنا وہ دوست یاد آیا جسے انہوں نے ایک سفارش کے ساتھ اس نوجوان تک بھیجا تھا اور جو اس کے لئے چار لاکھ روپے تک دینے کو تیار تھا، مگر ان کے شاگرد نوجوان نے سفارش کے باوجود اور رشوت کی پیشکش کی موجودگی میں کام اس لئے کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ ضابطے کے مطابق درست نہیں تھا۔ یہ بھی حیران کن واقعہ تھا، وگرنہ یہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں، وہ زیادہ بھوکے ہیں جن کے بنگلے، کاریں، بینک بیلنس کسی شمار قطار میں نہیں آتے، وہ دولت کے لئے ایسے مر جاتے ہیں جیسے واقعی بھوکے مر رہے ہوں۔ ان کی قوت ایمانی تو دریا برد ہو چکی ہوتی ہے انا، خودداری اور قناعت کا جنازہ بھی نکل گیا ہوتا ہے تو اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ کیا بھیک مانگنا ایک مجبوری ہے یا عادت جو انسان کو اپنے اعلیٰ منصب سے زمین پر لاپٹختی ہے۔ میرا ایک دوست ایسے بے روزگار ڈھونڈتا پھرتا ہے، جنہیں ملازمت کی ضرورت ہو۔ اس کا خاص طور پر ہدف وہ خواتین ہوتی ہیں جو بازاروں میں مانگتی پھرتی ہیں ایسی خواتین کو وہ گھروں میں کام کرنے کی پیشکش کرتا ہے، مگر اکثر انکار کر دیتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایک گھنٹہ کام کرنے سے ماہانہ دس ہزار روپے دینے کی بات کرتا ہوں تو یہ مانگنے والی جواب دیتی ہیں کہ دس ہزار روپے تو وہ ایک دن میں کما لیتی ہیں جب انہیں کہا جائے خیرات میں کمائے گئے اور محنت سے کمائے گئے پیسوں میں فرق ہوتا ہے تو وہ کہتی ہیں آٹا تو دونوں پیسوں سے ایک ہی بھاؤ ملتا ہے۔ اب اگر انسان لذتِ حلال سے محروم ہو جائے تو اس کے پاس دلائل کی کمی نہیں ہوتی۔
ایک زندہ معاشرے میں ہر قسم کے کردار ہوتے ہیں لیکن ہم جب زیادہ ان کرداروں کی طرف دیکھنے لگتے ہیں جو منفی کردار اور سوچ کے مالک ہوتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے شاید سارا معاشرہ ہی ویسا ہے۔ آج یہ خبریں آتی ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانی گداگروں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنے ملک میں ایسے کرداروں کی کبھی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ ہم یہ نہیں کرتے کہ محنت کرنے والے کی تمام اشیاء خرید لیں بلکہ یہ کرتے ہیں کہ اس کی شے بیس روپے میں خرید کر پانچ سو روپے اس کی مدد کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ اب کئی تو اس بوڑھے شخص جیسے خوددار ہوتے ہیں جو سختی سے انکارکر دیتے ہیں اور کئی اس نوجوان جیسے ہوتے ہیں جو اشیاء بیچنے کی آڑ میں گداگری کو اپنا چکے ہوتے ہیں۔ لندن کے ایک فٹ پاتھ پر ایک خاتون کپڑا بجھا کے بیٹھی ہوئی تھی۔ جو آتا تھا کچھ ڈال کے چلا جاتا۔ ایک شخص وہاں آیا تو اس نے خاتون کو بتائے بغیر ساتھ موجود سٹور سے اسے مختلف اشیاء لا کر دیں اور کہا وہ انہیں بیچے اور ہر روز کی آمدنی سے مزید اشیاء خریدے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں نے جو اشیاء لا کر دی ہیں وہ خیرات نہیں بلکہ ایک قرضہ ہے جو اسے دیا ہے۔ جسے وہ آہستہ آہستہ کرکے اتارے گی۔ یہ جان کر وہ خوش ہوئی۔ پہلے وہ سر جھکا کے بیٹھتی تھی، اب اس نے سر اٹھا کے بیٹھنا شروع کر دیا۔ یہی وہ فرق ہے، جسے ہم بھلائے بیٹھے ہیں۔ بحیثیت قوم جب ہم امداد کے لئے کاسہ پھیلا دیتے ہیں تو قومی خودی کو بھینٹ چڑھاتے ہیں جب یہی کام انفرادی سطح پر کرتے ہیں تو اپنی انا اور خودداری کو دریابرد کر دیتے ہیں جو کسی زندہ شخص کا اتنا بڑا نقصان ہے کہ اگر اسے اس کا ادراک ہو جائے تو جان داردے اپنی خود کو قربان نہ کرے۔
ناقص پاور پالیسیاں
ایس ایم تنویر
1994کی حکومتی پالیسی کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے 16آئی پی پیز (بجلی بنانے کے کارخانے) لگائے گئے تھے کیونکہ وہ پالیسی صرف اور صرف غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس پالیسی میں دی جانے والی مراعات غیر معمولی اور یک طرفہ تھیں کیونکہ اس کا مقصد بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لانا تھا۔لیکن پھر ہوا یہ کہ غیر ملکی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری پر ہونے والامنافع اپنے ملکوں میں repartriateکر کے یعنی واپس بھیج کر ان آئی پی پیز کو مقامی سرمایہ کاروں کے ہاتھ فروخت کرکے واپس چلے گئے۔
حکومت نے غضب یہ کیا کہ مقامی سرمایہ کاروں کے لئے وہی مراعات جاری رکھیں جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دی گئی تھیں۔حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا جب ان 16آئی پی پیز کے لئے غیر ملکی بینکوں کے قرضے اتر چکے تھے تو مقامی سرمایہ کاروں کو منافع امریکی ڈالروں میں ادا نہ کیا جاتا اورغیر ملکی سرمایہ کاروں کی طرح انہیں بھی کارخانوں کی بند پیداواری صلاحیت کے عوض بھاری رقمیں Take or Payیعنی بجلی خریدو نہ خرید و،پیسے دو کی شرط کی بنیاد پر بغیر بجلی پیدا کئے اربوں روپے کے کپیسٹی چارجز نہ دیئے جاتے۔اب حکومت ان کارخانوں کو اس لئے نہیں چلانے دیتی کہ ان سے حاصل ہونے والی بجلی موجوہ قیمت سے بھی مہنگی پڑتی ہے یعنی انہیں چلانا کپیسٹی چارجز ادا کرنے سے بھی زیادہ نقصان اٹھانے کے مترادف ہے۔
ان 16آئی پی پیز کے لئے کئے جانے والے معاہدوں میں موجودبے ضابطگیوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 1997 میں HUBCO کی آڈٹ رپورٹ میں اوور انوائسنگ کی نشاندہی کی اور بتایا کہ کارخانہ لگانے میں بے انتہا کک بیکس دے کر بجلی خریدنے کے معاہدے کی شرائط کو بار بار بدلا گیاتھا۔ یہی نہیں بلکہ اس بنیادی شرط کو بھی تبدیل کردیا گیا تھاکہ 25 سال بعد کارخانہ حکومت پاکستان کا ہو جائے گا۔
اس آڈٹ رپورٹ کے بعد 1999اور 2000 میں کچھ حد تک معاہدوں پر دوبارہ سے بات چیت کر کے بعض خرافات کو ختم کیا گیامگر دوسری جانب ان کارخانوں کو ابتدائی طور پر طے شدہ 25 سال کی بجائے 30 سال تک کے لئے ان سرمایہ کاروں کے حوالے کر دیا گیا۔یعنی ایک طرف سے ٹکا لے کر روپے کا نقصان کر لیا۔
حکومت پاکستان کے چار ادارے بشمول پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ یعنی PPIB،ٹیرف کے تعین کے لئے NEPRA، ان سے بجلی لینے اور اس کے عوض چارجز کی سیٹلمنٹ کے لئے سنڑل پاور پرچیز ایگریمنٹ یعنی CPPA اور وزارت توانائی یعنی پاور ڈویژن ان آئی پی پیز کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ان اداروں کی موجودوگی میں اوپر بتایا گیا فراڈ ان اداروں میں بیٹھے افراد کی نااہلی اور ملی بھگت کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
1994 کی پالیسی کی خرافات کو 2002میں ایک نئی پاور پالیسی کے ذریعے کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بجائے مقامی سرمایہ کاروں کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دینے کی کوشش کی گئی۔ اس پالیسی کا مقصد تو زر مبادلہ بچانا تھا مگر اس کے تحت لگائے جانے والے 12پاور پلانٹس کی تنصیب سے قبل اس وقت کی حکومت نے مقامی سرمایہ کاروں کے اس اصرارپر کہ ان کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے، انہیں وہی مراعات دے دیں جو 1994کی پالیسی میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دی گئی تھیں۔ تب کہا یہ گیا کہ چونکہ ان بجلی کے کارخانوں کے لئے زیادہ تر قرضہ جات غیر ملکی اداروں سے لئے گئے ہیں اس لئے ویسی ہی مراعات دی جائیں۔ اس بات کو مان لیا جائے تو بھی دس سے بارہ سال میں غیر ملکی قرض ادا ہونے کے بعد شرائط کو بدلنا چاہئے تھامگر ایسا نہ ہوا۔ ان آئی پی پیز میں بھی 1994والے آئی پی پیز کی طرح اوور انوائسنگ کی گئی اوریہ 12پاور پلانٹس بھی اس وقت زیادہ تر بند ہونے کے باوجود کپیسئی چارجزوصول کررہے ہیں اور شنید ہے کہ تمام آئی پی پیز نے اپنی پلانٹ efficiency کم لکھوائی ہوئی ہے جس سے ایندھن میں بھی خوردبرد ہوتا ہے اور آئی پی پیز وہ نفع کماتے ہیں جو نہیں بنتا ہے۔
یاد رہنا چاہئے کہ آئی پی پیز کا کاروبار حکومت کی جانب سے ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور اسپانسرز کا حق صرف ان کے 20 فیصد سرمائے پر منافع کی حد تک ہے۔ اس کے علاوہ ان پاور پلانٹس کے تمام تر اخراجات کو Pass through items کہا جاتا ہے جن میں مشینوں کا آپریشن اور دیکھ بھال (O&M)،انشورنس، ایندھن کا خرچہ اور ورکنگ کیپیٹل کے اخراجات شامل ہیں جن کی ادائیگی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔بجلی کے کارخانے جھوٹ موٹ کی لاگت دکھا کر 50 فیصد خود رکھ لیتے ہیں جبکہ اوور انوائسنگ کے سبب ایک خیالی سرمایہ کاری پہ 18 فیصد تک ڈالروں کی شکل میں منافع لے رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ باہر سے جوقرض لیا ہے اس میں سے بھی کچھ حصہ انہیں ملتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابتدا میں حکومت نے ان پاور پلانٹس کی O&M کے معاہدے بھی ان کمپنیوں سے کیے تھے جنھوں نے پلانٹس کی مشینری سپلانی کی تھی لیکن ان آئی پی پیز کے مالکان نے حکومتی اداروں کے ساتھ ساز باز کرکے اس میں تبدیلی کروالی اور اب پاور پلانٹس کی O&M بھی خود کرتے ہیں اور جھوٹ موٹ کی لاگت دکھا دیتے ہیں۔ایندھن کی خریداری میں بھی ہیرا پھیری ہوتی ہے اور یوں منافع کی مد میں 18 فیصد کی بجائے 100 فیصد تک غیر قانونی منافع کما لیتے ہیں۔ یہی کچھ 2013 اور 2015 کی پالیسیوں کے شمسی توانائی اور کوئلے سے چلنے والے پراجیکٹس میں بھی ہوا ہے۔
ملک میں لگائے جانے والے کل آئی پی پیز میں سے 51 فیصد خود حکومتی تحویل میں ہیں لیکن حکومت نے نجی ملکیت میں چلنے والے آئی پی پیز والا وتیرہ ہی اپنا لیا ہے۔ ان پاور پلانٹس کو بھی بین الاقوامی قرضوں کے عوض لگایا گیا حالانکہ اگر حکومت ملکی بجٹ کے پیسوں سے لگاتی تو بجلی کی قیمت کم رہتی۔
حکومت کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنی تحویل میں چلنے والے سرکاری آئی پی پیز پر جو منافع کما رہی ہے اسے فی الفور ختم کرے اور ان کے لگانے کے لئے جو قرضے لئے گئے ہیں انہیں بجائے صارفین کی جیبوں سے نکالنے کے National Debtکا حصہ بنا لیا جائے۔
نجی ملکیت والے آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کروا یا جائے۔جو فالتو پیسہ وہ لے چکے ہیں،واپس لیا جائے۔ ان کی غیر قانونی مراعات ختم کی جائیں اور انہیں Take or pay سے بدل کرTake and pay کے اصول پر بجلی کی فراہمی کا پابند کیا جائے۔ اس فراڈ کو ختم کرنے سے بجلی کے صارفین کو یقینا اوسطاً 25 روپے فی یونٹ بجلی دستیاب ہوگی۔
پولیس کی متاثر کن کارکردگی
یونس باٹھ
جس قوم اور معاشرے میں محکمہ پولیس جتنا مضبوط اور مستحکم ہوگا جرائم اور بدعنوانیاں اس میں اتنی ہی کم ہوں گی،امن وامان اور حفظ و سلامتی اس میں اسی قدر زیادہ ہوگی،اِس حوالے سے اگر ہم اپنے ملک کی پولیس بالخصوص لاہور پولیس کا جائزہ لیں تو ہمیں اِس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سے لے کر آج تقریباً پون صدی گزرنے کے بعد تک بھی ہمارا محکمہ پولیس جوعوام الناس کے دل و دماغ میں اپنے متعلق کوئی مثبت اور لائق آفرین تشخص بٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا،بہتر کمانڈنگ اور اقدامات کے پیش نظر آج محکمہ پولیس عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی طرف گامزن ہے۔ لاہور جو پنجاب پولیس کا چہرہ اور صوبہ بھر کی عکاسی پیش کرتا ہے یہاں امن و امان کی بگڑتی صورتحال ہمیشہ پولیس کی نااہلی تصورکی جاتی ہے اور بہتر اقدامات حکومت کی گڈ گورننس کا باعث بنتے ہیں نیوزچینل پر چلنے والی خبروں اور رپورٹس کے مطابق لاہور میں جرائم کی شرح میں ہمیشہ اضافہ قرار دیا جاتاہے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اگر جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہو تو اس کو بھی اس تناسب سے رپورٹ کیا گیا ہو جس طرح جرائم کی شرح میں اضافہ پر بریکنگ نیوز چلائی جاتی ہیں۔پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور اور لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر بالخصوص لاہور میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے،پنجاب سیف سٹی اتھارٹی (پی ایس سی اے) نے گزشتہ آٹھ ماہ کی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایمرجنسی ہیلپ لائن 15 پر کرائم برخلاف پراپرٹی بارے موصولہ کالز میں مجموعی طورپر 11 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، رواں سال رابری کی 15 کی کالز میں جنوری سے اگست کے درمیان گذشتہ سال کی نسبت 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، گاڑیاں چھیننے کی وارداتوں کی 15 کی کالز میں جنوری تا اگست کے درمیان 20 فیصد کمی دیکھی گئی، کاریں چوری کی وارداتوں میں 23 فیصد جبکہ موٹر سائیکلز چوری کی وارداتوں میں اسی عرصہ میں 20 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی، دیگر وہیکلز چھیننے کی وارداتوں کی 15 کی کالز میں 22 فیصد کمی واقع ہوئی، آٹھ ماہ میں کرائم برخلاف پراپرٹی کے رجسٹرڈ کیسز میں گذشتہ سال کی نسبت مجموعی طور پر 11 فیصد کمی واقع ہوئی، رواں سال ڈکیتی کے رجسٹرڈ کیسز میں گذشتہ سال کی نسبت 34 فیصد جبکہ رابری کے رجسٹرڈ کیسز میں 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، رواں سال منشیات فروشوں کے خلاف گذشتہ سال کی نسبت 09 فیصد زیادہ مقدمات درج کئے گئے، گاڑیاں چھیننے کے رجسٹرڈ کیسز میں 23 فیصد، موٹر سائیکل چھیننے کے کیسز میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔اتھارٹی نے کرائم کالز کے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کی مزید حکمت عملی وضع کرنے کے لیے اس ڈیٹا کو سرکاری اجلاسوں کا حصہ بنانے کے لیے وزیر اعلی پنجاب کو رپورٹ بھیج دی ہے۔سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے کہا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کے ویژن کے عین مطابق منشایت فروشوں کے خلاف پولیس کو کریک ڈاؤن کا حکم دیا گیاہے۔ رواں سال منشیات فروشوں کے خلاف 6959مقدمات درج کر کے7171ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔مختلف کارروائیوں میں گرفتارملزمان کے قبضہ سے5137کلو چرس،233کلو ہیروین،128کلو آئس اور48052لیٹر شراب برآمد کی گئی ہے۔منشیات کی اسمگلنگ اور استعمال کو روکنے کیلئے ماڈرن ڈرگزکی خرید و فروخت اورآن لائن سپلائی کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشنز جاری ہیں اور تعلیمی اداروں کے اطراف میں منشیات فروشوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پرسرچ اور کومبنگ آپریشنزکئے جا رہے ہیں۔بلال صدیق کمیانہ کے مطابق لاہور جیسے بڑے شہر میں موٹر سائیکل،کار اور دیگر گاڑیوں کے چھیننے اور چوری ہونے کی وارداتوں کو روکنا ایک چیلنج تھاجب سے اس شعبہ کو ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم عمران کشور کے سپرد کیا گیا ہے ان وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ڈی آئی جی عمران کشور کے مطابق ان کی ٹیم ایس پی اے وی ایل ایس ذاہد حسین رانانے گزشتہ 8ماہ میں وہیکل سنیچنگ، وہیکل چوری سمیت مختلف جرائم کے 8894 مقدمات چالان کرکے 930ملزمان کو جیل بھیجوایا ہے جبکہ 74 خطرناک گینگز کے162 ممبران کی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔8326 کاریں، 8100 موٹرسائیکلز اور 431 دیگر وہیکلز برآمد کیں۔اینٹی وہیکل سٹاف کے ایس پی ذاہد حسین رانا نے 1 ارب 76کروڑ 31