خدا ایمانداری کا صلہ دیتا ہے
یہ ابا جی کی سروس کا آخری دن تھا ۔ گھر سے وہ سرکاری گاڑی پر ڈرائیور کے ہمراہ دفتر گئے اور معمول کی ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہے ۔ عملی طور پر وہ ایک ہفتے سے اپنی جگہ چارج لینے والے آفیسر کو کام سمجھا رہے تھے ۔ ہمیں ان کے مزاج کا علم تھا اور اندازہ تھا کہ وہ چارج کے ساتھ ہی مراعات بھی دفتر چھوڑ آئیں گے سو اس روز میں نے اپنے دفتر سے چھٹی لے رکھی تھی ۔ دوپہر میں انہیں فون کیا کہ کتنے بجے لینے آئوں تو کہنے لگے تمہیں آنے کی ضرورت نہیں ، میرے چپڑاسی نے اسی طرف آنا ہے وہ موٹرسائیکل پر مجھے ساتھ لیتا آئے گا ۔ کچھ دیر بعد انہوں نے گھر فون کیا کہ دفتر کے کچھ ساتھی بھی ساتھ آ رہے ہیں لہذا کھانے کا اہتمام کر لیں ۔
ہمیں اس روز کی جو داستان معلوم ہوئی اس نے میرا ایمان اور بھی مضبوط کر دیا ۔ اس روز ابا جی نے چارج چھوڑنے کے بعد سرکاری گاڑی کی چابیاں جمع کروائیں اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے کمرے سے باہر آ گئے ، اپنے سٹاف سے گلے ملنے کے بعد جب مرکزی گیٹ کی جانب جانے لگے تو ان کی جگہ تعینات ہونے والے جونیئر آفیسر نے حیرت سے سوال کیا : سر آپ کی گاڑی نہیں آئی ؟ عموما ڈرائیور گاڑی ان کے دفتر کی بلڈنگ کے دروازے پر لے آتا تھا ۔ اس روز پہلی بار والد محترم پیدل مرکزی دروازے کی جانب جا رہے تھے ۔ ابا جی نے کہا : بیٹا میری سروس ختم ہو چکی ہے ۔ میں اپنا چارج چھوڑ چکا ہوں اور ساتھ ہی اس پوسٹ سے جڑی تمام سہولیات بھی، اب وہ گاڑی آپ کی ہے اور میرا ڈرائیور آپ کو گھر چھوڑنے جائے گا، مجھے چپڑاسی موٹر سائیکل پر چھوڑنے جا رہا ہے ۔ بتانے والے نے بتایا کہ وہ آفیسر باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا ۔ کہنے لگا ۔ سر جوتے مار لیں لیکن اس طرح ذلیل نہ کریں ۔ ابا جی بضد تھے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اب وہ ایسی کسی مراعات کے حق دار نہیں جو اس کرسی کے ساتھ جڑی تھیں ۔ ابا جی کی جگہ تعینات ہونے والا وہ آفسر اسی وقت بھاگم بھاگ اپنی گاڑی نکال لایا ، کہنے لگا سر آج ڈرائیور کی سیٹ پر میں بیٹھوں گا اور آپ کو گھر تک چھوڑنے جائوں گا ۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ اس طرح چپڑاسی کے ساتھ بیٹھ کر گھر جائیں ۔ دفتر کے باقی افسران نے بھی اسی وقت اپنی گاڑیاں نکالٰیں اور سبھی والد محترم کے ہمراہ گھر تک آئے ۔
یہ ابا جی کی ریٹائرمنٹ کا آخری دن تھا ۔ ہمیں یہی معلوم تھا کہ وہ واپسی پر سرکاری گاڑی دفتر چھوڑ آئیں گے اور چپڑاسی کے ہمراہ یا رکشہ میں گھر لوٹیں گے ۔ اس روز والدہ نے ایک آدھ بار کہا تھا کہ جس شخص کو سروس کے دوران ڈرائیور سرکاری گاڑی میں دفتر لیجاتا اور واپس لاتا ہو وہ آخری دن یوں رکشے میں واپس لوٹے تو جانے کیا احساسات ہوں ،سو آج ان سے اس بارے میں زیادہ بات نہ کرنا ۔
ابا جی واپس لوٹے تو میں نے والدہ سے کہا : آج تک وہ ڈرائیور کے ہمراہ آتے تھے ، آج سروس کے آخری دن خدا اس احترام سے لایا ہے کہ ڈرائیور کی جگہ ایک آفیسر بیٹھا ہے اور آگے پیچھے آفیسرز کی گاڑیوں کا قافلہ ہے ۔
ابا جی کہا کرتے ہیں ، میں عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگا اور نہ ہی ناجائز دولت کمانے کی کوشش کی ہے ۔ میں نے صرف عزت کمائی ہے کیونکہ رزق کا وعدہ خدا نے کر رکھا ہے ، وہ یا تو میری ضروریات بڑھنے ہی نہیں دیتا یا پھر ضرورت کے مطابق رقم بھی مہیا کر دیتا ہے ۔ میں نے محنت اور دیانت داری سے پہلےسائیکل اور پھر موٹر سائیکل سے گاڑی تک کا سفر طے کیا لیکن مجھے گاڑی سے واپس موٹر سائیکل یا پیدل چلنے تک کے سفر میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ میری پہچان ایمانداری ہے اور یہ مان ہے کہ جس رب کی رضا کے لئے میں نے ایمانداری کو اپنائے رکھا وہ مجھے ذلیل نہیں ہونے دے گا ۔ سچی بات یہ ہے کہ اللہ نے بھی کبھی ابا جی کی عزت میں کمی نہیں آنے دی ۔ ان کی سروس کا یہ آخری دن بھی اسی کی مثال ہے۔ سوچتا ہوں وہ ایک دن کے لئے سرکاری گاڑی رکھ لیتے ، یا ڈرائیور کو کہتے کہ مجھے گھر چھوڑ کر گاڑی واپس دفتر لے جانا تو کیا ہوتا ؟ انہیں کوئی منع کرنے والا نہیں تھا ۔ یہاں تو بیوروکریسی ریٹائرمنٹ کے بعد ہفتوں تک گاڑیاں اپنے قبضے میں رکھتی ہے ، کئی آفیسرز تو بار بار کے مطالبے کے بعد بھی گاڑیاں واپس نہیں کرتے ۔ اس روز ابا جی چارج چھوڑنے کے بعد کچھ دیر کے لئے گاڑی اپنے استعمال میں لے آتے تو یہ معمول کی بات سمجھی جاتی لیکن اس روز ان کے اسی فیصلے نے مجھ پر کئی چیزیں آشکار کر دیں ۔ خداایمانداری کا اجر اس دنیا میں بھی لازما دیتا ہے ۔ ابا جی اس روز سرکاری گاڑی میں گھر چلے آتے تو وہ محض ایک بیوروکریٹ کی واپسی ہوتی لیکن وہ جس ایمانداری کے ساتھ اپنے اصولوں پر قائم رہے اس کے نتیجے میں خدا نے انہین مزید عزت بخشی ۔ شاید خدا کو بھی یہ گوارہ نہ تھا کہ اس کا بندہ صرف اس کی رضا کے لئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کر رہا تو وہ اپنے بندے کو اضافی احترام دیئے بنا جانے دے ۔ اس دفتر میں اس سے قبل کئی آفیسر ریٹائرڈ ہوئے لیکن الوداعی پارٹیز کے بعد گھر لوٹے تو تنہا تھے ۔ ابا جی کی واپسی اس شان سے ہوئی کہ وہ اپنی سرکاری گاڑی تو دفتر چھوڑ آئے لیکن پھر بھی دفتر سے لوٹتے وقت اس دفتر کی سبھی سرکاری گاڑیاں ان کے ہمراہ گھر تک آئیں .
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔