11 عورتوں کی زبانی اپنے شوہروں کا حال

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ 11عورتوں کا ایک اجتماع ہوا جس میں انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مجلس میں وہ اپنے اپنے خاوند کا صحیح صحیح حال بیان کریں اور کوئی بات نہ چھپائیں۔۔۔
چنانچہ پہلی عورت ( نام نامعلوم ) بولی میرے خاوند کی مثال ایسی ہے جیسے دبلے اونٹ کا گوشت جوپہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہواہو نہ تو وہاں تک جانے کا راستہ صاف ہے کہ آسانی سے چڑھ کر اس کو کوئی لے آئے اور نہ وہ گوشت ہی ایسا موٹا تازہ ہے جسے لانے کے لئے اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے ۔
دوسری عورت ( عمرہ بنت عمر و تمیمی نامی ) کہنے لگی میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہا ں تک بیان کروں ( اس میں اتنے عیب ہیں ) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کرسکوں گی ، اس پر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب بیان کرسکتی ہوں ۔
تیسری عورت ( حیی بنت کعب یمانی ) کہنے لگی ، میرا خاوند کیا ہے ایک تاڑ کا تاڑ ( یعنی لمبا تڑنگا ) ہے اگر اس کے عیب بیان کروں تو طلاق تیار ہے اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی رہوں ۔
چوتھی عورت ( مہدوبنت ابی ہرومہ ) کہنے لگی کہ میراخاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل ہے، نہ زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا، نہ اس سے مجھ کو خوف ہے نہ اکتا ہٹ ہے ۔
پانچوں عورت ( کبشہ نامی ) کہنے لگی کہ میر ا خاوند ایساہے کہ گھر میں آتا ہے تو وہ ایک چیتا ہے اور جب باہر نکلتاہے تو شیر ( بہادر ) کی طرح ہے ۔ جو چیز گھر میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں ( کہ وہ کہاں گئی ؟ ) اتنا بے پرواہ ہے جو آج کمایا اسے کل کے لئے اٹھاکر رکھتا ہی نہیں اتنا سخی ہے ۔
چھٹی عورت ( ہند نامی ) کہنے لگی کہ میرا خاوند جب کھانے پر آتا ہے تو سب کچھ چٹ کر جاتا ہے اور جب پینے پر آتاہے تو ایک بوند بھی باقی نہیں چھوڑتا اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے اور الگ پڑکر سوجا تا ہے میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دکھ درد کچھ تومعلوم کرے ۔
ساتویں عورت ( حیی بنت علقمہ ) کہنے لگی میرا خاوند تو جاہل یا مست ہے ۔ صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے اوندھا پڑجاتاہے ۔ دنیا میں جتنے عیب لوگوں میں ایک ایک کرکے جمع ہیں وہ سب اس کی ذات میں جمع ہیں ( کم بخت سے بات کروں تو ) سر پھوڑڈالے یا ہاتھ توڑ ڈالے یا دونوں کا م کرڈالے ۔
آٹھویں عورت ( یاسر بنت اوس ) کہنے لگی میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے اور خوشبو میں سونگھو تو زعفران جیساخوشبو دار ہے ۔
نویں عورت ( نام نامعلوم ) کہنے لگی کہ میرے خاوند کا گھر بہت اونچااور بلند ہے وہ قد آور بہادر ہے ، اس کے یہاں کھانا اس قدر پکتا ہے کہ راکھ کے ڈھیر کے ڈھیر جمع ہیں ۔ ( غریبوں کو خوب کھلاتا ہے ) لوگ جہاں صلاح ومشورہ کے لئے بیٹھتے ہیں ( یعنی پنچائت گھر ) وہاں سے اس کا گھر بہت نزدیک ہے ۔
دسویں عورت ( کبشہ بنت رافع ) کہنے لگی میرے خاوند کا کیا پوچھناجائداد والا ہے ، جائداد بھی کیسی بڑی جائداد ویسی کسی کے پاس نہیں ہوسکتی بہت سارے اونٹ جو جابجا اس کے گھر کے پاس جٹے رہتے ہیں اور جنگل میں چرنے کم جاتے ہیں ۔ جہاں ان اونٹوں نے باجے کی آوازسنی بس ان کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہوگیا ۔
گیارھویں عورت ( ام زرع بنت اکیمل بنت ساعدہ ) کہنے لگی میرا خاوند ابو زرع ہے اس کا کیا کہنا اس نے میرے کانوں کو زیوروں سے بوجھل کر دیا ہے اور میرے دونوں بازوچربی سے پھلادیے ہیں مجھے خوب کھلاکر موٹا کردیاہے کہ میں بھی اپنے تئیں خود کو خوب موٹی سمجھنے لگی ہوں ۔ شادی سے پہلے میں تھوڑی سے بھیڑ بکریوں میں تنگی سے گزر بسر کرتی تھی ۔ ابو زرعہ نے مجھ کو گھوڑوں ، اونٹوں ، کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیاہے اتنی بہت جائداد ملنے پر بھی اس کا مزاج اتنا عمدہ ہے کہ بات کہوں تو برا نہیں مانتا مجھ کو کبھی برا نہیں کہتا ۔ سوئی پڑی رہوں تو صبح تک مجھے کوئی نہیں جگاتا ۔ پانی پیوں تو خوب سیراب ہوکر پی لوں۔
رہی ابوزرعہ کی ماں ( یعنی میری ساس ) تو میں اس کی کیا خوبیاں بیان کروں اس کا توشہ خانہ مال واسباب سے بھراہوا ، اس کا گھر بہت ہی کشادہ ہے ۔ ابوزرعہ کا بیٹا وہ بھی کیسا اچھا خوبصورت ( نازک بدن دبلا پتلا ) ہری چھالی یا ننگی تلوار کے برابر اس کے سونے کی جگہ ، ایسا کم خوراک کہ بکری کے چار ماہ کے بچے کا دست کا گوشت اس کا پیٹ بھردے ۔ ابو زرعہ کی بیٹی وہ بھی سبحان اللہ کیا کہنا اپنے باپ کی پیاری ، اپنی ماں کی پیاری ( تابع فرمان اطاعت گزار ) کپڑا بھر پورپہننے والی ( موٹی تازی ) سوکن کی جلن، ابو زرعہ کی لونڈی اس کی بھی کیا پوچھتے ہو کبھی کوئی بات ہماری مشہور نہیں کرتی ( گھر کا بھید ہمیشہ پوشیدہ رکھتی ہے ) کھانے تک نہیں چراتی گھر میں کوڑا کچرا نہیں چھوڑتی۔
مگر ایک دن ایسا ہواکہ لوگ مکھن نکالنے کو دودھ متھ رہے تھے ۔ ( صبح ہی صبح ) ابو زرعہ باہر گیااچانک اس نے ایک عورت دیکھی جس کے دوبچے چیتوں کی طرح اس کی کمر کے تلے دواناروں سے کھیل رہے تھے ( مراد اس کی دونو ں چھاتیاں ہیں جو انار کی طرح تھیں ) ابو زرعہ نے مجھ کو طلاق دے کر اس عورت سے نکاح کرلیا ۔ اس کے بعد میں نے ایک اور شریف سردار سے نکاح کرلیا جو گھوڑے کا اچھا سوار ، عمدہ نیزہ باز ہے ، اس نے بھی مجھ کو بہت سے جانور دیے ہیں اور ہر قسم کے اسباب میں سے ایک ایک جوڑ ا دیا ہوا ہے اور مجھ سے کہا کرتا ہے کہ ام زرع ! خوب کھا پی ، اپنے عزیز و اقارب کو بھی خوب کھلا پلا، تیرے لئے عام اجازت ہے مگر یہ سب کچھ بھی جو میں نے تجھ کو دیا ہوا ہے اگر اکٹھا کروں تو تیرے پہلے خاوند ابو زرعہ نے جوتجھ کو دیا تھا ، اس میں اس کا ایک چھوٹا برتن بھی نہ بھرے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سارا قصہ سنا نے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) ! میں بھی تیرے لئے ایسا خاوند ہوں جیسے ابو زرع، ام زرع کے لئے تھا۔
(صحیح بخاری: 5189)