خدارا رحم کریں،معاشرتی تقسیم کو کم کریں!
عید، ٹرو اور مرو بھی گذر گئے، آج چوتھا روز ہے،اس لئے قارئین کرام کو گزشتہ عید مبارک۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ اُس کی رحمت کے باعث رمضان المبارک مجموعی طور پر سکون سے گذر گیا اور ملک کو کسی بڑے حادثے سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ اگرچہ اس عرصہ میں بھی دہشت گرد سرگرم عمل رہے اور ہماری سرحدوں کے محافظ بھی ان سے نبرد آزما ہیں،اس کے ساتھ ہی ساتھ جہاں عوام کسی نہ کسی طرح عید کی خوشیوں میں شامل تھے، وہاں اللہ کے نافرماں اور رسول اکرمؐ کی تعلیمات کو نظر انداز کرنے والے بھی اپنا کام جاری رکھے رہے،ان کی اِن حرکات کو دیکھ اور سن سن کر یہود و نصاریٰ بھی شرم محسوس کرتے رہے، آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر میں اکثر ترقی یافتہ غیر مسلم ممالک نے اللہ اور اس کے رسول اکرمؐ کو ماننے والوں کے لئے سہولتیں فراہم کیں،وہاں ہم پاکستانی اپنے بھائیوں کے لئے ”عذاب“ بنے رہے۔ حالات اس نہج تک پہنچا دیئے کہ رمضان المبارک کے دوران تو منافع خوری کی، لیکن عید کی چھٹیوں سے پہلے ہی ”عیدی“ کے نام پر کئی گنا مہنگائی اور کر دی، حتیٰ کہ برائلر مرغی کا گوشت سات سے ساڑھے سو روپے فی کلو فروخت کیا گیا،آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو جمعتہ المبارک ہے اور بازاروں میں چھٹی ہے، صرف خوردو نوش کا سلسلہ چل رہا ہے تو تاحال نرخ معمول پر نہیں آئے اور ”عیدی“ کا سلسلہ جاری ہے کہ ہر محنت کش بھی اصل مزدوری کے ساتھ عیدی کا مطالبہ کرتا ہے۔ رکشا والے جب زیادہ کرایہ مانگتے ہیں تو اعتراض پر کہتے ہیں ”جی عید ہے“ شہری مجبور ہے وہ لُٹ رہے ہیں، سفید پوش حضرات کا حال بہت بُرا ہے،ان کے لئے خون کے رشتوں کو نبھانے کے لئے مزید قربانی دینا پڑی ہے۔بچیوں اور بہنوں کو عیدی دینے کے لئے اور مقروض ہو گئے اور کئی حضرات تو گھر کی کوئی اور شے بیچنے پر مجبور ہوئے۔ اللہ کو ترس آ گیا۔ اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا،بڑی بڑی تکنیکی باتیں بتائی گئیں لیکن روزہ دار مطمئن ہوئے کہ موسم میں نہ شدت پیدا ہوئی اور نہ ان کو تنگ ہونا پڑا اور رمضان اپنی برکتوں کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔
قارئین کرام!میں اپنے ان سب کرم فرماؤں کا بہت مشکور ہوں جو رمضان المبارک کے دوران اس کالم کی کمی کو محسوس کر کے میری خیریت دریافت کرتے رہے۔الحمد للہ میں صحت مند رہا۔ بجز اس امر کے کہ دو بار فضاء میں موجود ماحولیاتی آلودگی کے سبب اس وائرس نے حملہ کیا جو گلے کی خرابی اور چھاتی کی بندش کا باعث بنتا ہے،دونوں بار اس وائرس سے اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے افاقہ ہوا۔اللہ کا شکر گذار ہوں کہ اس حالت میں بھی روزہ ہوتا رہا۔جہاں تک کالم کی اشاعت کا تعلق ہے تو یہ مجبوری تھی، جگہ کم ہے اور ہر روز تراویح کا خلاصہ بھی ادارتی صفحہ پر ہی شائع ہوتا رہا چنانچہ اس بابرکت روایت کی وجہ سے میں نے اپنا کالم نہ لکھا اور اب قارئین کرام کی خدمت میں حاضر ہوں کہ معمول کی سرگرمیاں شروع ہوں۔اس حوالے سے یہ گذارش کر کے نفس ِ مضمون کی طرف آتے ہیں کہ جس کسی نے بھی مجھے پریشان کیا یا تنگ کیا،میں نے دِل و جان سے معاف کر دیا اور ہر اُس فرد سے میں خود معذرت خواہ ہوں اور معافی مانگتا ہوں جس کسی کو بھی میرے کسی اچھے یا برے عمل سے تکلیف پہنچی۔اللہ سب سے بڑا، عظیم اور معاف کرنے والا ہے۔
قارئین کرائم! میں آپ حضرات کے جذبات سے واقف ہوں اور احترام کرتا ہوں کہ ہم عوام نے جو خواب دیکھے اور سوچے وہ پورے نہیں ہوئے۔انتخابات سے قبل سب سیاسی عناصر نے یہ ”فیصلہ“ صادر کیا کہ عام انتخابات ہی مسائل کا حل ہیں لیکن افسوس یہ خواب پورا نہ ہوا اور ”انتخابات کا چورن“ بیچنے والوں ہی نے اسے تماشہ بنا دیا اور انتخابات کے حوالے سے نئی محاذ آرائی پیدا کر دی۔آج یہ صورتحال ہے کہ عوام کی بے چینی کم ہونے کی کوئی صورت نہیں جو سیاسی اور معاشرتی تقسیم پیدا کر دی گئی وہ مزید گہری ہو گئی اور ہر شعبہ زندگی میں نظر آ رہی ہے۔حالات یہ ہیں کہ سب سے زیادہ متحرک طبقہ وکلاء کا ہے جو فخر کرتے ہیں کہ پاکستان کے قیام میں ان کا حصہ زیادہ ہے اور قیادت بھی ایک وکیل بلکہ بیرسٹر نے ہی کی،لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ خال خال بار ایٹ لاء کرنے والوں کے معاملے میں تبدیلی آ چکی اور اب جو نام لو وہ بیرسٹر ہوتا ہے، اور ان کی بدولت اب یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ ہمارا متفقہ آئین کہاں ہے؟ سب کی اپنی اپنی تشریح ہے حتیٰ کہ ایک آواز نئے آئین کی آ گئی،ان کو شاید جلد سمجھا دیا گیا اورآئین سے آئینی ترمیم پر آ گئے،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا آئینہ متفقہ ہے جسے زندگی اور معاشرے کے تمام نمائندہ حضرات نے مل بیٹھ کر تیار کیا اور یہ آئین بہترین کہلایا،اس کے بعد یہ ”کھلاڑیوں“ کے ہتھے چڑھ گیا اور پھر ہر شق میں نقص پیدا ہو گیا۔ سب نے اپنی اپنی پسند کی تشریح شروع کر دی حتیٰ کہ عدالتی تشریح پر بھی اعتراض کئے جانے لگے اور اب چھ معزز جج حضرات کے خط نے نئے مسائل پیدا کر دیئے ہیں اور فاضل سات رکنی بنچ کے ایک رکن اپنی رائے دے کر خود الگ ہو گئے،جبکہ ایک دوسرے فاضل جج(رکن بنچ) نے ابتدا ہی ایک ایسے اختلافی نوٹ سے کی، جس کے مطابق انہوں نے اپنا فیصلہ ہی سنا دیا۔اگرچہ ایک قانون دان کی حیثیت سے انہوں نے اگر مگر سے کام تو لیا،لیکن جب وہ خط لکھنے والے فاضل جج حضرات کے حوالے سے رائے دے دیتے ہیں تو پھر باقی کچھ نہیں بچتا، بہتر ہے کہ وہ خود بھی بنچ سے الگ ہو جائیں۔ چہ جائیکہ ان پر اعتراض کیا جائے کہ عوام سابق فاضل چیف جسٹس کے ترجمان کی حیثیت سے ان کو جانتے ہیں اور یہ علم ہے کہ وہ پُرجوش ہیں اور ذوالفقار علی کا ذکر کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ اعتراف کرنے والے فاضل جج رشتے میں ان کے کیا لگتے تھے۔میں ایک بوڑھا قانون و آئین کی تھوڑی شُد بُدھ رکھنے والا ہوں اس لئے اس معاملہ میں زیادہ گہرائی میں جانا مناسب نہیں سمجھتا۔اگرچہ میرے صحافیانہ کردار کے دوران1958ء کا مارشل لاء، ایوب کا صدارتی نظام، مادرِ ملتؒ کا الیکشن۔1965ء کی پاک بھارت جنگ اور پھر71ء کا سانحہ پیش آیا، میں رپورٹنگ کی وجہ سے بہت واقف ہوں اور پھر بھٹو کا دور اور بھٹو کے خلاف تحریک، اس کے محرکات اور مختلف پہلوؤں سے بھی واقف ہوں۔ بہت سے رازوں کا امین بھی ہوں اسی لئے دُکھی بھی ہوں۔ میری عرض، خواہش اور دعا یہ ہے کہ اللہ اپنا کرم فرمائیں اور میرے ملک کو اس طوفان سے پار لگا دیں،ورنہ ہر ”عقل مند“ اور ”دانش مند“ اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ اور سوچ رہا،ہر کوئی اپنے مفاد کی خاطر سب کچھ کر رہا ہے،ہمارے ملک میں ایسا طبقہ بھاری تعداد میں موجود ہے، جو کماتا یہاں،لوٹتا ہم عوام کو ہے اور کمائی ملک سے باہر محفوظ کرتا ہے۔اس طبقہ کے حضرات نے اپنا انتظام کیا ہوا ہے اور ان کے پاس دہری شہریت ہے، وہ جب چاہیں ہمیں طوفان میں چھوڑ کر چلے جائیں گے،میں اپنے ان حضرات کے حالات سے بہت واقف ہوں،ذاتی طور پر بہت جانتا ہوں اگرچہ آرٹیکل چھ کے مجرم جنرل پرویز مشرف کے ساتھ میرا اتفاق نہیں،لیکن ایک بات سے متفق ہوں کہ نیب کے قانون کا بنیادی نکتہ بالکل درست ہے کہ جو حضرات مالی فوائد کے حوالے سے سامنے آئیں وہ خود حساب دیں کہ سائیکل سے رولز رائس تک کیسے پہنچے اور شہری کوچوں سے محلات تک کیوں کر آ گئے، آپ کسی بھی عام آدمی سے پوچھ لیں وہ آپ کو بتا دے گا کہ فلاں بن فلاں کیا تھے اور اب کیا ہیں۔میری عرض ہے کہ برے وقت سے ہم عوام اور ملک کو بچائیں کہ انسان کچھ بھی کرے اللہ کی رسی دراز ضرور ہوتی ہے،لیکن جب کھینچی جائے تو دم گھٹ ہی جاتا ہے۔
قارئین کرام! سے معذرت کہ جذباتی ہو گیا مجھے دنیا کے بیشتر حصے میں ایک ہی روز عید ہونے کے حوالے سے گزارشات کرنا تھیں لیکن حالات کے جبر نے روک لیا، انشاء اللہ کل بات کریں گے۔