بچپن کی ایک اور یاد ”دیا یا لالٹین“ تھی، مصنوعی روشنی کی یہ عیاشی مغرب سے لے کر عشا ء کی نماز کے کچھ بعد تک ہی ہوتی، پھر دیا بجھا دیا جاتا اور گاؤں سو جاتا

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:138
دیا، لالٹین، امام مسجد؛
بچپن کی ایک اور یاد گاؤں کا”دیا یا لالٹین“ تھی۔دیا قدیم اور لالٹین جدید تھی۔مٹی کا بنا ٹھیہ نما دیا بڑے کام کی چیز تھی۔ سرسوں کا تیل ڈالو، روئی کی باریک سے بتی بناؤ اور آگ لگا دو۔ چھوٹا سا دیا بڑی سی روشنی ہر سو پھیلا دیتا تھا۔ دیے کی لو کم ہونے لگے تو روئی کی بتی ذرا اور بڑھا دو اور تیل کم ہونے لگے تو قریب رکھی کپپی سے کچھ تیل اور انڈیل دو۔ مصنوعی روشنی کی یہ عیاشی مغرب سے لے کر عشا ء کی نماز کے کچھ بعد تک ہی ہوتی، پھر دیا بجھا دیا جاتا اور سارا گاؤں سو جاتا تھا۔ اس وقت صرف آوارہ کتے یا رات جاگنے والے دوسرے جانور ہی جاگتے تھے۔ نور کے تڑکے کے ساتھ ہی سارا گاؤں جاگ جاتا تھا۔ دیے کی جدید شکل لالٹین تھی اور اس کی جدید شکل گیس لیمپ۔ مسجد میں دئیے جلانے کے لئے صاحب حیثیت گھروں سے ایک ایک پیالی تیل کی دی جاتی تھی۔ امام مسجد کا کھانا بھی روزانہی گھروں سے باری باری آتا۔ ویسے بھی مولوی کی خدمت اللہ کی خوشنودی کے مترادف سمجھی جاتی تھی۔ گھر والا خود سیر ہو کر کھائے یا نہ کھائے مولوی صاحب کا پیٹ بھرنا لازمی ہو تا تھا۔ آج بھی اس ملک کا یہ طبقہ عوام کے دئیے پیسے سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ جی بھرکر بھر رہا ہے۔ بنا کہیں جواب دہی کے۔ اب پیٹ بھرنے کے اور ذرائع بھی ہیں جن میں دخل اندازی یا پوچھ گچھ کا مطلب تعلق”یہودی یا امریکی لابی“ سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ البتہ امام صاحب مغرب اور عشا کے درمیان تعویز دھاگے کا کام بھی ہو شیاری اور مکاری سے کرتے تھے۔ ان کے تعویز دھاگے زیادہ تر خواتین کے لئے ہی ہوتے تھے۔ جاذب نظر خواتین کو امام صاحب ظہر کے بعد حجرے میں بلاتے اور”تعویز خاص“ سے نوازتے۔ایسے تعویز لینے والی خواتین کے خاوند اپنی نیک بختی پر فخر کرتے۔ یہ سادہ لوح دیہاتیوں کا اپنے مذھبی راہنماؤں پراندھااعتقاد اور اعتماد تھا یا اپنے مذھب سے لا علمی کی انتہا۔ ”یہ فیصلہ کرنا آج کے جدید دور میں بھی آسان نہیں ہے۔“سادہ لوح خواتین کی سادگی، لا علمی کا فائدہ اٹھانے والے ایسے کردار آج بھی ملک کے دیہی علاقوں میں موجود دیہی لوگوں کے ان پر اندھے اعتماد کے عکاس ہیں۔ ہمارے لوگوں کی سادگی سے ایسے نو سربازوں کا دھندہ کبھی بھی مندہ نہیں ہوا۔ انتہائی پس ماندہ علاقوں کے امام صاحب آج بھی روز قیامت بخشش کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ بے چارہ غریب پس ماندہ دیہاتی۔یہ ضیعف العتقادی اگر اتنی دبیز نہ ہوتی تو اس ملک کے مولوی کبھی ارب پتی نہ ہوتے اور نہ ہی ملک میں ان کی ٹھیکے داری قائم رہ سکتی تھی۔ بدقستی ہے ہماری۔
دیہاتوں کے کچے گھروں پر عمدگی سے مٹی اور توڑی کا لیپ کیا جاتا تھا جو دیکھنے میں اچھا لگتا۔ گھر کے کمرے میں بچھی چارپائی پر صاف رنگ دار یا بیل بوٹوں والی چادر بچھی ہوتی تھی۔ ”پڑچھتی“پر گھریلو استعمال کے برتن سجے ہوتے اور اسی پڑ چھتی پر گھر کی عورت کے ہاتھ سے کڑھائی شدہ چادر بھی بچھی ہوتی تھی۔ یہ برتن عموماً کسی مہمان کی آمد پر ہی استعمال کئے جاتے تھے۔کسی گاؤں میں اگر کوئی موٹر کار آ جاتی تو کیا بڑا کیا چھوٹا، کیا مرد کیا عورت سبھی کار کے قریب جمع ہو جاتے اور موٹر کے ساتھ ساتھ موٹر کے سواروں کو بھی غور سے دیکھتے۔ شرارتی بچے تو موٹر کے شیشوں سے اندر جھانکنے تانکنے کی کوشش بھی کرتے۔ ان کے لئے موٹر عجوبہ ہوتی۔ کچھ شرارتی بچے تو ٹائر کی ہوا نکال کر رفو چکر ہو جاتے تھے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔