آزادی کی جھلک
نومبر 1945ء میں قائداعظم نے پشاور میں کہا………..
’’آپ نے سپاسنامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ پاکستان میں کون سا قانون ہوگا۔ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے ۔ مسلمانوں کا ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک کتاب ہے ۔ یہی مسلمانوں کا قانون ہے اور بس۔ پاکستان کا قانون اسلام کی بنیاد ہوگااور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا۔ ‘‘
ویکیپیڈیا کےمطابق،آزادی ایک قوم، ملک یا ریاست کی ایک حالت ہے جس میں اس کے باشندے اور آبادی یا اس کے کچھ حصے، خود ا پنے حقوق کیلئے حکومت کا استعمال اور زیادہ تر علاقے پر عام طور پر ان کی خود مختاری ہو۔گھٹن کے خاتمے اور کھلی فضا میں سانس لینا بھی آزادی ہے۔ بد عقلی، اندھی منطق اور مریضانہ خود اذیتی کا پا بجولاں ہونا بھی آزادی ہے ۔ انسانی تخیل کے پر شعوری طور پر نہ کاٹنا آزادی ہے۔ سچ بولنے پر تحفظ اور جھوٹ کا کڑا محاسبہ اور سچ کے نام پر جھوٹ تھوپنے کی حوصلہ شکنی آزادی ہے۔ بلاخوف و خطر کہنا، سننا ، اختلاف کرنا ، اختلاف کا احترام کرنا اور اختلاف کر کے بھی زندہ رہنا اور رہنے دینا ہی آزادی ہے ۔ اگر کسی باغ پر آزادی کا بورڈ لگا ہو اور وہاں صرف گلاب کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہو تو یہ باغ نہیں، گلابوں کا جنگل ہے۔
آزادی فارسی زبان کا لفظ ہے لیکن اُردو میں زیادہ مستعمل ہے، لُغت میں لفظ آزادی کے معنی خودمختاری، حرّیت، رہائی، بے قیدی اور خلاصی کے ہیں، آزادی کی ضد غلامی ہے ۔ مذکورہ بالا معانی کے پیشِ نظر کسی آزاد ریاست کا ہر شعبہ بندشوں ،پابندیوں اور بھیدبھاؤ سے پاک ہونا چاہیے۔کسی خاص طبقہ کو نشانہ بنایا جائے یا اسے دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے تو ایسی ریاست سب کچھ ہوسکتی ہے مگر آزاد ریاست کہلانے کی حقدار ہر گز نہیں ہو سکتی۔
واضح ہے کہ آزادی کی تحریک تو پہلے سے شروع ہو چکی تھی۔ 1857 کی جنگ آزادی کیا یاد نہیں؟ کیا کالا پانی بھی بھول گئے؟ ’کالا پانی‘ کی ترکیب برصغیر میں عام طور پر دور دراز مقام کے لیے استعمال ہوتی آئی ہے۔ محاورے میں طویل فاصلے کے لیے ’کالے کوس‘ جیسے الفاظ عرصے سے رائج ہیں۔
سیاسی زبان میں کالا پانی سے مراد بحر ہند میں وہ جزیرے ہیں جہاں انگریز حکمران قیدیوں کو جلا وطن کرتے تھے۔ کلکتہ سے 780 میل جنوب میں چھوٹے اور بڑے ان تقریباً ایک ہزار جزیروں کا مجموعہ جزائر ’انڈمان نکوبار‘ کہلاتا تھا۔ تاریخ دان اور محقق وسیم احمد سعید اپنی تحقیق ’کالا پانی: گمنام مجاہدین جنگ آزادی 1857‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انگریزوں نے یہاں اپنا پرچم لہرانے کے علاوہ قیدیوں کی بستی اور نو آبادیات کے لیے سنہ 1789 میں پہلی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔ بعد میں سنہ 1857 کا ہنگامہ برپا ہوا تو پھانسیوں، گولیوں اور توپ سے انقلابیوں کی جانیں لی گئیں۔ عمر قید بھی دی گئی مگر کسی دور دراز مقام پر ایک تعزیری بستی یا قیدیوں کی کالونی کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ انگریزوں کے ’باغی‘ پھر سے بغاوت یا مزاحمت نہ کر سکیں۔ نظر انتخاب جزائر انڈمان ہی پر گئی۔‘
یہ جزائر کیچڑ سے بھرے تھے۔ یہاں مچھر، خطرناک سانپ بچھووں، جونکوں اور بے شمار اقسام کے زہریلے کیڑوں اور چھپکلیوں کی بھرمار تھی۔جب قیدیوں کا پہلا قافلہ وہاں پہنچا تو خوش آمدید کہنے کو صرف پتھریلی و سنگلاخ زمین، گھنے اور سر بفلک درختوں والے ایسے جنگل تھے، جن سے سورج کی کرنیں چھن کر بھی زمین بوس نہیں ہو سکتی تھیں۔ کھلا نیلگوں آسمان، ناموافق اور زہریلی آب و ہوا، پانی کی زبردست قلت اور دشمن قبائل۔‘دلی کے ایک محقق کے مطابق انڈمان ہی کو ہندوستان کی جنگ آزادی کی قربان گاہ قرار دیا جانا چاہیے ۔ اگر بات کریں پاکستان کی آزادی کے وقت کی تو جو خون کی ہولی کھیلی گئی ،اس کو سن کر ہی کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ ان تمام تکالیف و مسائل سے گزر کر آج کی نسل آزاد زندگی بسر کر رہی ہے لیکن افسوس ! آزادی سے فائدہ نہیں اٹھا رہی۔ آزادی سے فائدہ اٹھانے سے مطلب اپنے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی ہے۔ اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنی قوم کا سر فخر سے بلند کرنا ہے۔شعوری حدود میں رہ کر زندگی کو گزارنا ہے۔
آزادی کو منانے کے لیے کسی کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اپنے جذبات کو اچھے انداز میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری مخلوقات پر برتری کی وجہ ہمارا شعور ہے۔ جب ہم شعور کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف جذبات کا سہارا لیتے ہیں تو نقصان اٹھاتے ہیں۔ ہر سال 14 اگست کو ہم جوش و ولولہ کے ساتھ مناتے ہیں اور پاکستان کی سالمیت کے لیے دعا کرتے ہیں لیکن یہ جذبات ایک یا دو دن سے آگے نہیں بڑھتے اور عقلی استعمال کی بجائے لکیر کے فقیر بن کر دو یا تین دنوں کے علاؤہ باقی پورا سال گزار دیتے ہیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جب پاکستان نہیں بنا تھا تو اس وقت مسلمان کیسے زندگی گزارتے تھے؟
کیا کبھی ہم نے تدبر کیا کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے اعلان کے بعد کتنے لوگوں کو مار دیا گیا؟ کیا ہم نے کبھی غور و فکر کیا کہ آزادی سے پہلے برصغیر کے مسلمانوں کا کس طرح معاشی و سیاسی استحصال ہوا؟ یقینا" ہم نے نہیں سوچا۔ محض رسم نبھانے کی خاطر زبان سے ہم کئی باتیں ادا کرتے ہیں لیکن تخیل کے آئینے میں ان گزشتہ معاملات کو نہیں اتارا۔ اگر غور وفکر کیا ہوتا تو ہم کسی صورت اپنا وقت ضائع نہ کرتے، باجے بجا کر کسی دوسرے کا جینا محال نہ کرتے، جھنڈیوں کو پیروں تلے نہ روندتے بلکہ پاکستان کی سلامتی و مضبوطی کے مقصد کے حصول کے لیے لگاتار کوشش کرتے۔ پاکستان خدائے بزرگ برتر کی بہت بڑی نعمت ہے۔
اس میں ہم اپنی مرضی کی زندگی گزارتے ہیں لیکن ٹھہریں ۔مرضی کی زندگی سے کیا مراد؟ کیا ہم مکمل طور پر اپنے جذبات کے زیر سایہ من مرضی کرتے ؟ نہیں۔۔نہیں۔ ایسا نہیں۔ اس طرح تو جانور زندگی گزارتے ہیں۔ انسان زندگی گزارنے کے لیے کچھ اصول و ضوابط کا خیال کرتا ہے تاکہ معاشرے کا وجود قائم رہ سکے۔ اور مسلمانوں کے لیے اصول و ضوابط کا ماخذ اسلام کی تعلیمات ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اسلام کی تعلیمات پر عمل ہوتا نظر کیوں نہیں آتا؟ اقربا پروری ، رشوت ،فسادات پوری طاقت سے کیوں بسیرا کیے ہوئے ہیں؟ اس کی وجہ بہت سادہ اور واضح ہے کہ ہم نے ملک عزیز، اسلام کے نام پر حاصل کیا مگر اسلام کے اصولوں کو منظم انداز میں لاگو کرنے سے قاصر رہے ہیں اور یہ ناکامی ہے۔ جب تک ہم اپنا محاسبہ نہیں کریں گے تب تک ہم شکایت کرنے کے بھی حقدار نہیں ہیں۔ انگلی اٹھانا آسان ہے لیکن خود کے ضمیر کےمطابق کام کرنا مشکل ہوتاہے۔
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کا حق استعمال کیا جائے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے دی جانے والی چیزوں اور پیسوں کو ہم ردی سمجھ کر ضائع کرتے ہیں اور اس کے حوالے سے ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ ملک عزیز میں بڑے بڑے مگرمچھ موجود ہیں تو اس تھوڑی سی حق تلفی سے کیا ہوتا ہے؟ اور یہ پاکستان ہے، سب چلتا ہے۔۔۔ افسوس! یہی سب سے بڑی غلطی ہے۔
فضول خرچی سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا اس سوچ سے ہوتا ہے۔ سوچ بدلو،پاکستان بدلے گا۔ اپنے حصے کا دیا جلاؤ۔ جب تک ہم خود اپنے گریبان میں نہیں جھانکیں گے اور اپنی ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کہیں گے، کچھ بہتر ہونے والا نہیں۔ قدر کریں آزادی کی۔ ۔آزادی فطرت کی عطا کردہ انمول نعمت ہے اور یہ نعمت ایسے شجاع ودلیر لوگوں کو میسر آتی ہے جو اس کی حفاظت کا جگرا رکھتے ہیں۔ محکوم بن کر زندگی گزارنا ، زندگی برباد کرنے کے برابر ہے۔ اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے پیارے وطن پاکستان کی بہتری کے لیے اقدامات کرنا شروع کریں اور لگاتار کریں۔باہر سے کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔ ہر ایک کو خود مسیحا بننا پڑے گا اور ہم اپنے پاکستانی بھائیوں سے قطعاً مایوس نہیں ہیں کیونکہ شاعر مشرق نے کہا تھا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی! آج سے ہی ارادہ کریں کہ ہر وہ کام کریں گے جو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ہو گا اور جن کی بدولت وطن عزیز کی روشنی پورے جہاں میں پھیلے گی۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔