خطرناک مرض
سوشل میڈیا پر ظل ہماڈار کی قسطوں میں ایک پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
”کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے میرے پڑوس میں آتما رام کھتری صاحب رہا کرتے تھے۔ وہ ایم ایس سی کیمسٹری اور کیمسٹری میں پی ایچ ڈی بھی تھے۔ کوئی بیس برس ہوئے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے وہ پی سی ایس آئی آر لیبارٹری میں چیئرمین یا سی ای او تھے انتہائی شریف، نیک دل، ملنسار، نرم رو اور قابل قدر شخصیت ہیں۔ ہمارے رہائشی بنگلوں کے پراجیکٹ میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے، اس کا ماہانہ چندہ وہ اس وقت تک دیتے رہے جب تک مسجد والوں پر یہ نہیں کھلا کہ وہ ہندو ہیں۔ میرے پاس ہفتے میں ایک بار گپ شپ کے لئے آ جاتے ہیں، بہت سی باتیں ہوتی رہتیں مجھ سے دیر تک محو گفت و شنید رہتے ہیں۔
ایک مرتبہ کہنے لگے کہ جب میں پی سی ایس آئی آر کا چیف تھا تو میرے سٹاف کے تقریباً پندرہ اہلکار ایک روز مجھ سے ملنے آئے میری بہت تعریف کی، میں اور خوش ہوا۔ کہنے لگے کھتری صاحب اتنا بڑا افسر اور ایماندار افسر آپ سے پہلے ہم نے اپنی مدت ملازمت میں نہیں دیکھا، آپ میں بے پناہ خوبیاں ہیں۔
میں نے شکریہ ادا کیا تو بولے۔
”آپ نے کبھی روپیہ پیسہ نہیں بنایا۔ آپ نے کبھی کسی ماتحت کو تنگ نہیں کیا۔ آپ سرکاری بنگلے کی بجائے ذاتی گھر میں رہے۔ آپ نے ہرپل دیانتداری سے گزارا۔ آپ میں کوئی بھی طمع یا لالچ نہیں۔ آپ کو کسی سے رنجش نہیں۔ ہم سب ماتحت افسر آپ کو دعا دیتے رہے ہیں۔ آپ میں ایسی خوبیاں ہیں کہ گنوائی نہیں جا سکتیں۔“
مجھے یہ سب بہت اچھا لگا میں دلی مسرت محسوس کر تے ہوئے مسکراتا بھی رہا۔
کہنے لگے کہ آپ اتنے اعلیٰ کردار کے مالک ہیں کہ ہماری آرزو اور درخواست ہے کہ آپ مسلمان ہو جائیں۔ میں نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور مسکراتے ہوئے عرض کیا ”اتنی لمبی سروس کے دوران وہ خوبیاں جو آپ نے گنوائی ہیں میں نے آپ لوگوں میں کبھی نہیں پائیں، اب حق بات تو یہ ہے کہ اصولاً آپ لوگوں کو ہندو ہو جانا چاہیے۔“
اس پوسٹ کے مندرجات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پی سی ایس آئی آر کا کوئی اہلکار بتائے کہ کھتری نام کے کوئی افسر کبھی اس ادارے میں ہی نہیں رہے۔ مگر اس پوسٹ میں جو کچھ بتایا گیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بار بار غور کی ضرورت ہے وسطی ایشیا اور برصغیر میں کردار کی تخلیق میں حکایتیں غیرمعمولی کردار ادا کرتی رہی ہیں، شیخ سعدی، مولانا رومی اور دیگر اکابرین کی حکایتوں نے انسانی عقل و دانش کو غیرمعمولی متاثر کیا ہییوں ہم اس پوسٹ کو ایک چونکا دینے والی حکایت کا درجہ ضرور دے سکتے ہیں۔
یہ پوسٹ پڑھ کر مجھے ایک وکیل یاد آئے جو ایک دن ماڈل ٹاؤن پارک میں بتا رہے تھے کہ ان کا ایک کلائنٹ اکثر تبلیغ پر جاتا رہتا تھا اور انہیں بھی اپنے تبلیغی جذبے کا نشانہ بناتا رہتا تھا اور اصرار کرتا رہتا تھا کہ وہ ان کے ساتھ تبلیغ پر جائیں۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک مدت تک اسے ٹرخاتے رہے۔ ایک دن اس کا اصرار حد سے بڑھا تو انہوں نے مصلحتوں کو پس پشت ڈال کر سیدھی بات کرنے کافیصلہ کیا انہوں نے بتایا کہ میں نے ان صاحب سے گزارش کی ”میں آپ سے یہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے علم ہے کہ اب آپ میرے کلائنٹ نہیں رہیں گے۔ میں آپ کے تقریباً درجن بھر مقدمات میں وکیل ہوں، یہ تمام مقدمات اس اراضی کے متعلق ہیں جو آپ نے فروخت کی تھی اور اس کی رقم وصول کی تھی، مگر آپ نے ان سب کو مقدمات میں الجھا رکھا ہے کہ ان سے مزید رقم بٹوری جا سکے یہ آپ کی ہمت ہے کہ اس کردار کے ساتھ آپ تبلیغ کر رہے ہیں۔“اس پر وہ اتنے ناراض ہوئے کہ میری توقعات کے عین مطابق انہوں نے مجھ سے مقدمات لے کر کسی دوسرے وکیل کو دے دیئے۔
کینسر اس لئے خطرناک مرض ہے کہ اس کی تشخیص جب ہوتی ہے تو وہ لاعلاج ہو چکا ہوتا ہے کیونکہ اگر کوئی ہمیں ہماری بیماری کے متعلق بتائے تو ہم اسے پسند نہیں کرتے۔ پاکستان میں بہت اچھے لوگ ہیں، دنیا میں خیرات دینے کے حوالے سے وطن عزیز کو غیرمعمولی مقام حاصل ہے اسلام اور پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والوں کاتذکرہ پڑھیں تو فخر محسوس ہوتا ہے کہ اس سرزمین نے کتنے بڑے بڑے لوگ پیدا کئے، مگر بات یہ بھی سچ ہے کہ پورے لاہور میں ایک بھی ایسی دکان نہیں ہے جہاں خالص چیز کی گارنٹی ہو۔ ہمارے ایک دوست کا اصرار ہے کہ جن دکانوں پر ملاوٹ کے خلاف مذہبی احکامات درج ہوتے ہیں وہاں تو ضرور ملاوٹ ہوتی ہے۔ مْلا سنتوں کی خلاف ورزی پر دل کا غبار نکالتا ہے مگر مسکرانے کی سنت پر کم کم عمل کیا جاتا ہے، معاشرتی دباؤ کی وجہ سے دیہی علاقوں میں تقریر کرتے ہوئے وہ یہ تو بتاتا ہے کہ عورتوں کے اسلام میں بہت حقوق ہیں مگر قرآن عورتوں کو وراثت میں جو حقوق دیتا ہے اس کا تذکرہ کرکے وہ اپنے روزگار کو خطرے میں نہیں ڈالتا۔
ہم اکثر ایسی کہانیاں پڑھتے ہیں کہ بیرون ملک لوگ اسلام کے متعلق پڑھتے ہیں، متاثر ہوتے ہیں اسلام قبول کرنے کا عزم کرتے ہیں مگر پاکستان کی مساجد میں جب پانی کی ٹوٹیاں اور واٹر کولر کے گلاس کو تالوں میں دیکھتے ہیں تو ایمان کی تبدیلی کا فیصلہ تبدیل کر لیتے ہیں۔
یہ ہمارا المیہ ہے۔ عظیم المیہ کہ ہم ایک عظیم دین کے پیروکار ہیں مگر ہم اپنے کردار کو غیر جانبداری سے دیکھنے کی جرات سے محروم ہو چکے ہیں۔