امریکہ، ایران پر حملہ کیوں نہیں کرتا؟

امریکہ، ایران پر حملہ کیوں نہیں کرتا؟
امریکہ، ایران پر حملہ کیوں نہیں کرتا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکہ اور ایران کی چپقلش اتنی ہی پرانی ہے جتنی امریکہ اور پاکستان کی……
ایران ہمارا ہمسایہ ہے، دونوں اسلامی ممالک کہلاتے ہیں لیکن سعودی عرب بھی تو ایران کا ہمسایہ ہے۔ زمینی ہمسائیگی نہ سہی، جغرافیائی ہمسائگی تو ہے۔ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن کیوں ہیں؟ پاکستان کے ساتھ ایران کی گاہ دوستی اور گاہ کشیدگی کی وجوہات زیر و زبر کیوں ہوتی رہتی ہیں اور اب ایران نے امریکہ کا کیا بگاڑا ہے کہ امریکہ نے اپنا ایک اور طیارہ بردار خلیج فارس کے علاقے میں بھیج رکھا ہے، بی۔52 بمبار طیارے اور پیٹریاٹ کی ائر ڈیفنس بیٹریاں بھی ایرانی سرحدوں سے نزدیک تر ڈیپلائے کر دی گئی ہیں۔
پولیٹکل سائنس اور تاریخ کے ہر طالب علم کو ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لئے گزشتہ پون صدی کی پاک۔ ایران، پاک۔ امریکہ، پاک۔ سعودیہ، ایران۔ امریکہ اور ایران۔ سعودی عرب آویزشوں، مسلکی اختلافات، ہمسائگی کی نزاکتوں اور مشرق وسطیٰ کی تمام جنگوں کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ اور یہ کوئی آسان کام نہیں۔ موٹی موٹی باتیں تو سب قارئین کے علم میں ہیں لیکن بحرِ تعلقات کی بظاہر خاموش سطح کے نیچے جو طوفان مچلتے رہے ہیں اور آج بھی ابل رہے ہیں، ان میں اترنے کے لئے زیرِ آب تیراکی اور غوّاصی کے بہت سے داؤپیچ کا علم ہر قاری کو نہیں۔


کئی دوستوں نے پوچھا ہے کہ امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کے باوجود ایران کو اُسی طرح کا سبق کیوں نہیں سکھاتا جو وہ گزشتہ دو عشروں میں خطے کے دوسرے ممالک کو سکھا چکا ہے۔ عراق، افغانستان، شام، لیبیا اور یمن وغیرہ کا حشر نشر ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کو آج بھی جن امریکی جارحیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کم از کم اسی طرح کی جارحیتیں، ایران کے خلاف کیوں نہیں کی جاتیں؟ پاکستان تو اپنے 70ہزار فوجی اور سویلین مرد و زن کی قربانیاں دے چکا ہے لیکن ایران کو اس قسم کے ”سلوک“ کا مستحق کیوں نہیں گردانا گیا؟…… یہ سوال نہائت اہم ہیں اور ان کے ساتھ کئی سٹرٹیجک پیچیدگیاں جڑی ہوئی ہیں۔ ان کا اگر نہائت سادہ جواب ڈھونڈنا ہو تو وہ کیا ہو گا؟
یہ جواب ایران کے سفارتکار، فوجی کمانڈر اور سیاسی زعماء وقتاً فوقتاً دیتے رہے ہیں۔ سطورِ ذیل میں ہم ان کا فرداً فرداً ایک نہائت اجمالی ذکر کریں گے۔


محسن رضائی ایران کی سپاہِ پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر رہ چکے ہیں اور آج کل ایران کی ایکس پیڈینسی کونسل کے سیکرٹری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایران کے خلاف اگر ایک گولی بھی فائر کی تو اس سے پورا ریجن آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ ایران ایک بارود خانہ بن چکا ہے، اس کو بھڑکنے کے لئے صرف ایک شرارے کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ استدلال بھی غور طلب ہے کہ امریکہ، ایران کے خلاف صرف اقتصادی جنگ کا سہارا لے رہا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر اس نے بارودی جنگ شروع کی تو اس کا انجام اس سارے خطے کو لے ڈوبے گا اور اس خطے میں امریکہ کے نہایت حساس، اہم اور سٹرٹیجک مفادات واقع ہیں۔ رضائی کی یہ دلیل بھی توجہ طلب ہے کہ اگر امریکہ نے ایران کے خلاف واقعی کوئی اصل بارودی جنگ لڑنی ہوتی تو وہ کبھی کا اس کا آغاز کر چکا ہوتا۔ نو گیارہ کے بعد اس نے جس عجلت سے افغانستان اور پھر سارے مشرق وسطیٰ میں تباہی مچائی تھی اور اس کے ایک بڑے حصے کو تہس نہس کرکے رکھ دیا تھا، کیا وہی تندی و تیزی وہ ایران کے خلاف نہیں دکھا سکتا؟امریکہ ایران پر آئے روز مختلف طرح کی پابندیاں لگاتا رہا ہے لیکن ایرانی برداشت کی بھی ایک حد ہے۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے یہ حد قریب تر آتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے حال ہی میں طیارہ برداروں،بی۔52بمباروں اور پیٹریاٹ ائر ڈیفنس میزائلوں کو خلیج فارس میں ڈیپلائے کر رکھا ہے۔(ڈیپلائے کرنے اور بھیجنے میں معمولی سا فرق ہے۔ بھیجنے کا مطلب ہے خلیج فارس کے عمومی علاقے میں جانے کے احکامات دینا جبکہ ڈیپلائے کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ جنگ کے لئے خلیج کے مقررہ مقامات پر صف بند کرنا۔)


امریکہ نے 2015ء میں ایران سے جو جوہری معاہدہ کیا تھا اور جس میں مغربی یورپ کے سارے اہم ملک شامل تھے، اسے صدر ٹرمپ نے عنانِ حکومت سنبھالنے کے کچھ ماہ بعد منسوخ کر دیا تھا اور اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں …… سی آئی اے (CIA) کے ایک سابق ڈائریکٹر جان برنین (Jhon Brennan) نے ایک اور انداز سے ایران کا دفاع کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایران ایک طویل عرصے سے ”مزاحمتی کلچر“ کو اپنائے ہوئے ہے۔1979ء میں جب ایران میں مذہبی حکومت کا آغاز ہوا تھا تو اس کے بعد ایران۔ عراق جنگ کے 8سالہ دور میں ایران نے اس عراق کا مقابلہ کیا تھا جسے امریکہ کی پوری پوری سپورٹ حاصل تھی۔ ایران نے اپنے ہزارہا نابالغ اور نو عمر نونہالوں کی قربانی دے کر اس جنگ کو روکا تھا۔ تب سے لے کر اب تک ایران میں ”مزاحمتی کلچر“ (بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کے خلاف) ایک روائت کا روپ دھار چکا ہے۔ جان برنین کا کہنا تھا کہ کچھ بھی ہو، ایران اپنی اس مزاحمتی روائت سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔


ہم جانتے ہیں کہ 1980ء اور 1990ء کے عشروں میں ایران نے ایک بھرپور جوہری اور میزائلی قوت بننے کی طرف پیشرفت شروع کر دی تھی۔ اور باوجود اس کے کہ اس راہ میں اسرائیل اور سارا مغربی یورپ اور امریکہ حائل رہا، ایران نے نہ صرف یورینیم افزودگی کے فن میں ترقی کی اور اسے ویپن گریڈ تک لے جانے کی راہ ہموار کی بلکہ میزائل سازی میں بھی ایک بڑا مقام حاصل کر لیا۔


تازہ ترین خبروں کے مطابق ایران نے اپنا ایک خانہ ساز ائر ڈیفنس سسٹم بھی بنا لیا ہے جس کا نام ”خرداد۔15“ رکھا گیا ہے۔ یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا ایک جدید ترین فضائی دفاعی نظام ہے جسے روس کے S-400 ماڈل پر تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ نیا سسٹم، روسی سسٹم کی طرح، بیک وقت کئی فضائی اہداف (لڑاکا اور بمبار طیاروں اور ڈرونوں) کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایران کے وزیر دفاع امیر حاتامی نے اس سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے یورپی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایران پر لگی امریکی پابندیوں میں شریک نہ ہوں …… ایسا نہ ہو کہ ایران کو مغربی حلیفوں اور حریفوں کے خلاف بھی یہ سسٹم استعمال کرنا پڑے۔ ایرانی زعماء جانتے ہیں کہ مغربی یورپ کے بعض ممالک بظاہر ایران کے حق میں امریکی پابندیوں سے اتفاق نہیں کرتے لیکن ان کی یہ ”ایران دوستی“ محض دکھاوا ہے۔


ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے بھی جرمن وزیر خارجہ کی مجوزہ ایرانی وزٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ بات دہرائی ہے کہ یورپی ممالک کا ”فرض“ ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے مالی روابط کو نارمل سطح پر رکھیں اور بلاوجہ امریکہ کی طرفداری نہ کریں۔ ایرانی وزیر خارجہ کو اگر آپ نے کبھی بولتے سنا ہو تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ کسی بھی یورپی وزیر خارجہ سے زیادہ فصیح و بلیغ انگریزی بولتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں جرمنی کے اس فیصلے کی تعریف کی ہے کہ وہ سعودی عرب کو اپنا اسلحہ فروخت نہیں کرے گا کیونکہ یہ اسلحہ یمن کے حوثی قبائل کے خلاف استعمال ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے …… اور یہ قبائل ایرانیوں کے حامی ہیں۔


ایرانی صدر جناب حسن روحانی نے ابھی اگلے روز تنگ آکر یہ بیان بھی جاری کیا ہے کہ ہم یورپ کو 60دنوں کی مہلت دے رہے ہیں کہ وہ امریکہ کو سمجھائیں کہ ایران کے خلاف بے جا پابندیوں سے اجتناب کرے۔ بصورت دیگر ہم یورینیم کی وہ افزودگی از سر نو شروع کر دیں گے جو ہم نے جوہری معاہدے کے تحت آئندہ دس برس تک ”موخر“ کر دی تھی۔ جرمنی اور فرانس دونوں ان دنوں سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کی طرف جانے سے روکیں۔ ایران کا موقف ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو پُرامن مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی اپنے میزائلی پروگرام کی ڈویلپ منٹ پر بھی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔
ایران کے اس موقف کو سادہ اور سلیس ”اردو“ میں ترجمہ کریں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ایران اپنے جوہری اور میزائلی پروگرام کو بیک وقت اس سطح پر لانا چاہتا ہے کہ وہ دنیا کی دوسری جوہری اقوام کی طرح ایک ایسی قوت بن جائے جس کے پاس اور کچھ ہو نہ ہو، جوہری بم اور اس کو مغربی ممالک اور اسرائیل تک ڈلیور کرنے کا میکانزم موجود ہو!……
شمالی کوریا کی مثال اس کے سامنے ہے!!

مزید :

رائے -کالم -