نیا بجٹ نئے ارادے

  نیا بجٹ نئے ارادے
  نیا بجٹ نئے ارادے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

 مالی سال 24-25ء کا بجٹ پیش کر دیا گیا۔ اس میں کس کے لیے کیا کچھ ہے وہ سب کے علم میں آ گیا۔ پیش کردہ بجٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام کا اگلا ایک سال کیسے گزرنے والا ہے۔ اس سے ایک روز پہلے اقتصادی سروے رپورٹ پیش کی گئی جس میں یہ بتایا گیا کہ رواں مالی کے لیے گزشتہ برس جون میں جو اہداف مقرر کیے گئے تھے ان میں سے زیادہ تر پورے نہیں کیے جا سکے۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال  2023-24ء کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح 2.38 فیصد رہی، تجارتی اور جاری کھاتوں کے خسارے میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ زراعت کے شعبے میں مجموعی طور پر 6.25 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی جو گزشتہ 19 برسوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ زیادہ تر اقتصادی اہداف پورے کیوں نہیں کیے جا سکے؟ اس کا جواب سب پر واضح ہے۔ یہ کہ وہ اہداف زمینی معاشی حقائق کو سامنے رکھ کر مقرر نہیں کیے گئے تھے۔ دوسرا یہ کہ ان اہداف کو پورا کرنے کے لیے ویسی کوشش نہیں کی گئی جیسی حالات اور وقت کا تقاضا تھا۔ جب سے بجٹ سنا ہے میں اس سوچ میں ہوں کہ اس بجٹ میں جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں وہ پورے ہو سکیں گے یا نہیں کیونکہ اس بجٹ میں بھی کئی باتیں خیالی محسوس ہوتی ہیں۔ خیالی اس طرح کہ بجٹ کے کچھ حصے ان اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر تیار کیے  گئے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ یعنی اس ریونیو کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں جو ابھی جنریٹ ہونا ہے۔ کس طرح ہونا ہے یہ ابھی کسی کے علم میں نہیں ہے۔ جنریٹ ہوتا بھی ہے یا نہیں‘ یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔

بجٹ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے اور اقتصادی معاملات کے ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے جو عام بندے کی سمجھ سے بالاتر رہتا ہے۔ پیش کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو یہ بات سچ معلوم اور محسوس ہوتی ہے۔ پیسے یا ریونیو کہاں سے آتا ہے اور کہاں خرچ ہوتا ہے‘ ان باتوں میں عام آدمی کی دلچسپی نہ ہونے کے  برابر ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ روٹی سستی ہوئی یا نہیں‘ سبزی اور گوشت کے نرخوں میں کمی واقع ہوئی یا نہیں‘ روزگار کے مواقع بڑے یا نہیں‘ تنخواہوں میں سال بھر میں بڑھنے والی مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہوا یا نہیں اور یہ کہ اگر مہنگائی کے بڑھنے کا سلسلہ اگلے مالی سال کے دوران بھی اسی طرح جاری رہا تو اس کے عام بندے کے مالی معاملات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ایک خبر یہ ہے کہ مالی سال 2023-24ء میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے جبکہ گیس اور بجلی بھی بے تحاشہ مہنگی ہوئی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث تاریخ میں پہلی مرتبہ پٹرول اور ڈیزل پر 60 روپے لیوی عائد کی گئی، جس سے ان کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئیں۔ رواں مالی سال دو مرتبہ گیس مہنگی کی گئی، یکم نومبر 2023ء کو گھریلو صارفین کے لیے گیس 172 فیصد تک مہنگی کی گئی، دوسری بار یکم فروری 2024ء کو گھریلو صارفین کے لیے گیس مزید 67 فیصد تک مہنگی کر دی گئی۔ بجلی کی قیمتوں میں بھی سال بھر میں کئی بار اضافہ کیا گیا۔ لوگ یہ سوچ سوچ کر پریشان بلکہ ہلکان ہو رہے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات‘ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بلا روک اضافے کا یہ سلسلہ آئندہ مالی سال کے دوران بھی جاری رہا تو کیا ہو گا؟

پھر عام آدمی کا ایک کنسرن (Concern) یہ ہے کہ ملک میں سال بھر امن اور سکون رہے تاکہ اسے روزگار کے مواقع دستیاب رہیں اور اس کے اہل خانہ کے لیے روٹی کا بندوبست ہوتا رہے۔ یہ خوف اس لیے سر اٹھا رہا ہے کہ 2024ء کے لیے دنیا کے پُرامن ترین ممالک میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے۔ انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2024ء کے لیے دنیا کے پُرامن ترین ممالک میں پاکستان آخری 24 ممالک میں شامل ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس سال پاکستان 2 درجے بہتری سے 163 ممالک میں 140ویں نمبر پر رہا جبکہ بھارت 116ویں، سری لنکا 100ویں، سعودی عرب 102ویں، چین 88ویں، متحدہ عرب امارات 53ویں، امریکہ 132ویں جبکہ بنگلا دیش 93ویں نمبر پر رہا۔ پاکستان میں سال بھر دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہے جن میں جانی کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی ہوا۔ پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی 2023ء کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال2023ء میں دہشت گردی کے 306 حملوں میں 693 لوگ اپنی جانوں سے گئے اور 1124 افراد زخمی ہوئے۔ 2022ء کے مقابلے میں 2023ء میں دہشت گردی کے واقعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جانی نقصان 2022ء کے مقابلے پر 65 فیصد زیادہ ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کا ذکر اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ ملک میں امن ہو تو ہی حکومت کے لیے بجٹ میں طے کردہ اہداف پورے کیے جا سکتے ہیں۔

 یہ بجٹ تو پیش ہو گیا۔ اس کے ملک اور قوم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ بھی جلد واضح ہو جائے گا۔ آئندہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں آنے والا وقت یہ بھی بتا دے گا۔ اشد ضرورت یہ ہے کہ وقتی اور عبوری پالیسیاں اختیار کرنے کے بجائے طویل المعیاد اور دور رس پالیسیاں اختیار کی جائیں اور ملک کو حقیقی معنوں میں اقتصادی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے کہ ملکی اور غیر ملکی قرضے لے کر کی گئی ترقی کو کسی طور حقیقی ترقی نہیں کہا جا سکتا بلکہ اقتصادی ماہرین تو اسے ترقی معکوس کا نام دیتے ہیں۔ سسٹم کو ٹھیک کیجیے تاکہ حقیقی ترقی سے ہمکنار ہوا جا سکے۔ یہ کام یک دم اور یکلخت نہیں ہو گا۔ یہ Slow and steady wins the race والا معاملہ ہوتا ہے لیکن کہیں سے اس طرح کا آغاز تو کیا جائے۔ نئے مالی سال کو ہی اس کا نقطہ آغاز بنا لیں۔

مزید :

رائے -کالم -