سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، اکتالیسویں قسط
عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق عطاء الرحمن نے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے وسیم اکرم کے خلاف بیان دینے کو جھٹلا دیا تھا تاہم اگلے دن اس نے کہانی تبدیل کر دی اور اپنے بیان حلفی کی کیمرہ ریکارڈنگ کے سامنے تصدیق کی،اس حلفیہ بیان کے مطابق کرائسٹ چرچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے میچ میں وسیم اکرم نے ترغیب دلائی کہ وہ خراب باؤلنگ کرے، جس کے عوض اسے ایک لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔اس نے واضح کیا کہ وسیم اکرم نے اس کو مانچسٹر میں دھمکی دی تھی کہ اسے شدید نقصان اٹھانا پڑے گا لہٰذا خوفزدہ ہو کر اس نے بیان بدل دیا تھا۔
سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، چالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عطاء نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ نیو کیسل سے مانچسٹر آنے کے لئے ہوائی ٹکٹ بھی وسیم اکرم نے دیا تھا جس کی ادائیگی اس کے کریڈٹ کارڈ سے کی گئی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ خالد محمود نے اسے بیان سے مکر جانے کی ہدایت کی تھی۔ عطاء الرحمن نے عدالت کے سامنے فضائی ٹکٹ کا ایک حصہ اور دستخط شدہ حلف نامے کی نقل بھی پیش کی تھی اور واضح کیا تھا کہ یہ حلف نامہ وسیم اکرم کے وکیل نے تیار کیا تھا جس پر میرے دستخط لئے گئے تھے۔
عطاء الرحمن نے یہ بھی بتایا کہ نیوزی لینڈ سے وطن واپسی پر وسیم اکرم نے اسے ایک لاکھ روپے دیئے اور عہد کیا کہ اگر میں میچ فکسنگ میں ملوث رہا تو بقیہ رقم بھی ادا کر دی جائے گی۔
عطاء الرحمن کا یہ بیان جسٹس قیوم کی حالیہ شائع شدہ رپورٹ میں مفصل طور پر موجود نہیں تھا جس میں سے بعض باتیں حذف کر دی گئی تھیں مگر حیران کن امر یہ تھا کہ اگر کھلاڑیوں ،آفیشلز، بک میکرز، ایڈمنسٹریٹرز اور دوسرے لوگوں کے بیانات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سلیم ملک اور عطاء الرحمن کے مطابق بھی بعض کھلاڑی میچ فکسنگ میں کسی نہ کسی طور پر ملوث تھے جن کے ساتھ کسی نہ کسی طور پر صرف نظر کیا گیا اور ان پرعائد کئے گئے جرمانے بہت کم تھے جبکہ بعض کھلاڑی ایسے بھی تھے جن کو مسلسل سخت الزامات کا سامنا رہا لیکن وہ صاف بچ نکلے اور ان کو عدالتی کارروائی ٹچ بھی نہیں کر سکی تھی۔
عطاء الرحمن پر بیانات میں تبدیلی اور حلفیہ بیان سے مکر جانے کے باعث اتنی کڑی سزا کا اطلاق کیا گیا جبکہ اس کے حلفیہ بیان،فضائی ٹکٹ پیش کرنے کے ثبوت ،خالد محمود کی جانب سے بیان میں تبدیلی کی ہدایت اور دوسرے تمام پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔
عوامی سطح پر یہ بات بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی گئی کہ میچ فکسنگ کا معاملہ ختم کرنے کے لئے سلیم ملک اور عطاء الرحمن کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے جبکہ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ جس شخص نے پیسے لئے اس کو تو تاحیات پابندی کا مستحق قرار دے دیا گیا جبکہ پیسے دینے اور میچ فکسنگ کی ترغیب دلانے والے کو محض جرمانے پر ٹر خا دیا گیا۔ پھریہ کہ سفارشات بھی ایسی تھیں کہ جن پر وقت سے پہلے ہی عمل کر دیا گیا۔وسیم اکرم کو کپتان نہ بنانے کی اور عطاء الرحمن کو بین الاقوامی کرکٹ نہ کھلانے کی سفارش کا اب کیا فائدہ کہ نہ تو وسیم کپتان رہا اور نہ ہی دوبارہ اس کے اس عہدے پرآنے کے امکانات ہیں جبکہ عطاء کا بحیثیت کھلاڑی عرصہ ہوا خاتمہ ہو چکا ہے لہٰذا اس پر یا سلیم ملک پر اس تاحیات پابندی کا کیا فرق پڑے گا۔
جسٹس قیوم کمیشن انکوائری پر ناقدین نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ وسیم اکرم نے بعض معاملات میں صاف جھوٹ بولا تھا مگرکمیشن نے اسے کچھ نہیں کہا۔حالانکہ ایک شخص کے ایک بار جھوٹ بولنے سے اس کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔مثلاً وسیم اکرم نے کہا کہ اس کے والد کو اغوا نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ ڈی آئی جی پولیس نے عدالت کو اس واقعہ کے ثبوت دیئے لیکن کمیشن نے وسیم اکرم کی اس دروغ گوئی کو نہیں پکڑا۔حالانکہ یا اغوا اس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ میچ فکسنگ اور سٹے بازوں کووسیم اکرم سے کچھ معاملات پر نقصان پہنچا ہو گا جس پر اس کے والد کو اغواء کیا گیا لیکن کمیشن نے یہ پہلو چھوڑ دیا۔
جاری ہے۔ بتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔